میں نے اس بچی کو دیکھا نہیں جو اینٹوں کے ایک بھٹے میں جل کے مر گئی۔اس کی تصویر بھی نہیں دیکھی۔اس کا تصور مگر ذہن سے محونہیںہو تا۔بیٹی کا تصور شاید کسی خاص ہیئت اور پیرہن کا محتاج نہیں۔بیٹی کا خیال آئے تورنگ ونکہت ا ور محبت ورحمت کا ملا جلا احساس ایک وجود میں ڈھل جا تا ہے۔ایک لطیف وجود جو کسی کثافت سے آلودہ نہیں۔
اینٹوں کے بھٹے میںکام کرنے والی وہ مزدور بیٹی مزدور باپ کا ہاتھ بٹاتی تھی۔گڑیوں سے کھیلنے کی عمر معاشی محرومیوں کی نذر ہوگئی۔کتابیں خواب وخیال ہوگئیں۔معلوم نہیں کتنے لطیف جذبات ہوں گے جو اینٹوں کے ڈھیر تلے دب گئے۔وہ مذہب اور سیکولرزم کی بحث سے کہیں دور بس اتنا سوچ سکتی تھی کہ باپ کے ساتھ اینٹیں اٹھائے گی تو شام کو روٹی مل سکے گی۔چھ سال کی عمر میں،وہ جزاو سزا کے کسی تصور سے شاید بے خبر ہوگی۔اسے صرف اس سزا کا خوف تھاجو اینٹیں نہ اٹھانے کی پاداش میں ملتی تھی۔شاید ایسا ہی کوئی خوف،اسی طرح کا کوئی اندیشہ اس کے ساتھ ہو گا۔یاپھروہ جاگتی آنکھوں کے ساتھ کسی سپنے میں کھو گئی ہوگی جب اس کا پاؤں پھسلا اور وہ اس گہرے تندور میں جا گری جہاں اینٹیں پکتی ہیں۔اس کے بعد ،کیا ہوا ہوگا، میںآپ کے تخیل پر چھوڑتاہوں۔
خبر آئی کہ وزیراعلیٰ نے نوٹس لے لیا۔واقعے کے بعد نوٹس کی خبر بہت تکلیف دہ ہو تی ہے۔آدمی سوچتا ہے کہ جس پر قیامت بیت گئی،اس کے لیے یہ نوٹس کس کام کا؟یہ زودپشیمانی پسِ مرگ واویلا ہے جس کا مرنے والے کو کوئی فائدہ نہیں۔حکمران طبقے کا عمومی رویہ سامنے رہے تو پھر یہ ایک روایتی بیان لگتا ہے جو پہلے سے لکھا ہوتا ہے اور میڈیا سے متعلق سرکاری ادارہ اسے اخبارات اور ٹی وی چینلز کے لیے جاری کر دیتا ہے۔عید یا محرم کے پیغام کی طرح جو ہر سال اخبارات میں چھپ جاتے ہیں۔اس بار لیکن مختلف نتیجہ نکلا۔اخبارات میں چھپنے والی ایک خبر نے زخم پر مرہم رکھ دیا۔ مزید دیکھا تو پنجاب حکومت کا ایک اشتہار بھی اسی خبر کی توثیق کر رہا تھا۔
خبر کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب نے اسمبلی کی مجلس قائمہ کو بتا یا ہے کہ بھٹوں پر کام کرنے والے اکتیس ہزار بچوں کوبازیاب کرایا اور انہیں اب سکولوں میں داخل کرا دیا گیا ہے۔ہر بچے کو ایک ہزار روپیہ ماہانہ وظیفہ ملے گا اورساتھ کتابیں بھی۔اس کے ساتھ والدین کو بھی دو ہزار روپے ماہانہ دیے جا ئیں گے۔اسی طرح یہ ہدایات بھی دی گئی ہیں کہ چائلڈلیبر کے حوالے سے قائم مقدما ت کے چالان بھی جلدبھجوائے جائیں گے۔ اشتہار میں یہ بھی درج ہے کہ بچوں سے مشقت لینے والے دو سوبھٹوں کو بند کر دیا گیا ہے۔اللہ کرے یہ سب ایسا ہی ہو جیسے بیان ہوا ہے۔ریاست ان بچوں کی وارث بنے جن کے والدین ان کی تعلیم کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔ان کو یہ احساس نہ ہو کہ وہ بے سائبان ہیں۔انہیں بھی اپنے سر پر چھت کا یقین ہو۔
انفراسٹرکچر کی تعمیر پر حکومت کی مبالغہ آمیز توجہ نے سماجی ترقی کے بارے میں سوالات اٹھا دئیے ہیں۔ایک سنجیدہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ تعلیم اور صحت کو بھی کیا اس توجہ کا مستحق سمجھا جا رہا ہے جو انفراسٹرکچرکی تعمیر پر دی جا رہی ہے؟اس کا جواب اثبات میں نہیں ہے۔مثال کے طور پرلاہور کے ہسپتالوں کی حالتِ زار پر میڈیا میں اکثر خبریں آتی رہی ہیں۔اگر لاہور میں یہ حال ہے تواندازہ کیا جا سکتا ہے کہ دور دراز کے قصبات کا عالم کیا ہو گا۔تعلیم کا معاملہ بھی یہی ہے۔ان دنوں میں اساتذہ پر سختی بہت ہے لیکن ان بنیادی سہولتوں پر کسی کی نظر نہیں جو ناگزیر ہیں۔ پنجاب کے دور دراز علاقوں کے سکولوں میں مناسب فرنیچر مو جود نہیں۔سٹاف روم کا کوئی تصور نہیں۔پیش طلبیاں ہیں مگر ضروریات کی طرف کوئی دھیان نہیں۔
میرا خیال ہے کہ حکومت چاہے تو انفراسٹرکچر کی تعمیر اورسماجی ترقی کے مابین ایک توازن پیدا کر سکتی ہے۔اس کے لیے نجی شعبے کی خدمات بھی مل سکی ہیں اگر ایک شفاف نظام تشکیل دے دیا جا ئے۔ایسے لوگ یہاں مو جود ہیں جو ہر روز ہسپتالوں میں مو جود افراد کو کھانا کھلاتے ہیں۔نجی شعبے کو شامل کرتے ہوئے،صحت اور تعلیم کے بنیادی مسائل حل کی جا سکتے ہیں۔اس طرح کی مثالیں پہلے بھی مو جود ہیں۔ مثال کے طور پر پنجاب حکومت نے شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی کو جگہ فراہم کی۔عمران خان نے اس کے لیے مزید وسائل جمع کیے اور اداروں کے نظام میں شفافیت کو ممکن حد تک یقینی بنایا۔ حکومت اپنی سطح پر بھی ایسے منصوبوں کاآغاز کر سکتی ہے۔اگر حکومتی اہل کاروں کے بارے میں عوام میں اعتماد پیدا ہو جائے تو صحت ا ور تعلیم کے معاملات کو بڑی حد تک مخاطب بنایا جا سکتا ہے۔
تعلیم کے معاملے میں،بین الاقوامی ادارے بھی صوبائی حکومتوں سے تعاون کر رہے ہیں۔ان اداروں سے وابستہ پاکستانیوں سے جب بات ہوتی ہے تو وہ عام طور پرحکومتی اہل کاروں کے رویے کی شکایت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔میں کبھی نہیں جان سکا کہ عالمی ادارے اگر ہماری مدد کررہے ہیں تو ان کا شکر گزار بننے کے بجائے، ہم ان کے راستے کی رکاوٹ کیوں بنتے ہیں؟اگر ان کی پالیسی میں کوئی با ت باعثِ اعتراض ہے تو اس کو معاہدے سے پہلے موضوع بنانا چا ہیے۔معاہدہ ہو جانے کے بعد اس کی پابندی اخلاقی ذمہ داری ہے۔حاصل یہ کہ اگر سرکاری اداروں اور اہل کاروں پر اعتماد قائم ہو سکے تو حالات میں بہت بہتری لائی جا سکتی ہے اور اس کے لیے نجی شعبے کا تعاون مل سکتا ہے۔
پنجاب میں اس وقت دو باتوں کی شدید ضرورت ہے۔ایک سماجی ترقی اور دوسرا گڈ گورننس۔انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لیے شہباز شریف صاحب نے جو حکمتِ عملی اپنائی ہے، اب لازم ہے کہ اگلے دوسال میں وہ اس کا مظاہرہ سماجی ترقی کے میدان میں بھی کریں۔اس کے ساتھ گورننس بھی بہتر بنائیں۔ امن و امان اسی کا حصہ ہے جوبری طرح پامال ہو چکا۔لاہور اور فیصل آباد میں پولیس والوں پر حملہ اگر دہشت گردی ہے تو اسے اس زاویے سے دیکھا جائے ۔تاہم عمومی جرائم کی تعداد بھی کم ہو نے کو نہیں آ رہی۔یہ حالات ان اچھے کاموں کے تاثر کو پا مال کر دیتے ہیں جو حکومت کے کریڈ ٹ پرمو جود ہیں۔ چائلڈ لیبر کے باب میں وزیراعلیٰ پنجاب کے اقدامات لائقِ تحسین ہیں۔یہ جذبہ اگر آگے بڑھتا ہے اور پنجاب میں سماجی ترقی کوبھی وہی اہمیت ملتی ہے جو انفراسٹرکچر کو ہے توپھر امید ہے کہ یہاں کے عوام کی حالت بھی بدلے گی۔پنجاب میں پاکستان کے ساٹھ فی صد افراد آباد ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ آدھے سے زیادہ پاکستان مطمئن ہو جا ئے گا۔
پاکستان میں حکومت کے کسی اچھے فیصلے کی تعریف حریتِ فکر کے خلاف اور کسی اخلاقی کمزوری کا مظہر سمجھی جا تی ہے۔یہ رویہ ایک متوازن رائے کی تشکیل میں مانع ہو تا ہے۔اس رویے کا ایک سبب ہے۔پاکستان کی صحافت بدقسمتی سے ایسے لوگوں سے خالی نہیں رہی جو لکھے حرف کی حرمت کو پامال کر تے ہیں۔خود کو ان سے جدا رکھنے کے لیے لوگ حکومت کی تعریف سے گریزاں رہتے ہیں۔میرا خیال ہے کہ انسان کو اپنی اخلاقی ساکھ پر اعتماد ہو نا چاہیے اورہمیشہ انصاف کی بات کہنی چاہیے۔چائلڈلیبر کے خلاف اقدامات پر پنجاب حکومت مبار ک باد کی مستحق ہے۔مجھے پہلی بار یہ احساس ہوا کہ وزیر اعلیٰ کے پس مرگ واویلے کابھی کوئی فائدہ ہوتا ہے۔بھٹے میں جلنے والی بیٹی کی جان گئی لیکن بہت سے بیٹے بیٹیاں بچ گئے۔