عمران خان نے قوم سے خطاب کیا۔ تو اس سے پہلے صبح و شام، وہ کس سے مخاطب تھے؟
میں عمران خان کے بارے میں کلمہ خیر کہنے کے لیے کسی موقع کی تلاش میں رہتا ہوں۔ وہ مگر مجھے یہ موقع دینے پر آمادہ نہیں ہیں۔ چند روز پہلے عمران قومی اسمبلی میں آئے تو مجھے لگا کہ وہ موقع ہاتھ آ گیا ہے۔ میں نے ان کی تحسین کے لیے قلم اٹھایا کہ انہوں نے ایک اچھی تقریر کی اور ان کے چاروں اعتراضات قابلِ توجہ ہیں۔ لگتا ہے کہ ان کے کان میں کہیں سے اس کی بھنک پڑ گئی کہ میں نے ایک موقع تلاش کر لیا ہے۔ وہ میری اس کوشش کو ناکام بنانے کے لیے ایک بار پھر سرگرم ہو گئے۔ اس تحریر کی سیاہی ابھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ انہوں نے پی ٹی وی سے قوم سے خطاب اور رائے ونڈ کے گھیراؤ کا اعلان کر دیا۔ اب میرے پاس اپنی ناکامی کے اعلانِ عام کے سوا کوئی راستہ نہیں۔
'قوم سے خطاب‘ کا فیصلہ، میرا احساس ہے کہ دو طرح کی نفسیاتی کیفیتوں کا مظہر ہو سکتا ہے۔ ایک تو یہ وزیر اعظم بننے کی بے قابو اور بے کنار خواہش ہے۔ ان کا بس نہیں چلتا کہ وہ نواز شریف صاحب کو وزیر اعظم ہاؤس سے نکالیں اور خود وہاں براجمان ہو جائیں۔ اب ان کے بس میں 'قوم سے خطاب‘ ہی ایک راستہ ہے جب وہ وزیر اعظم کی طرح دکھائی دے سکتے ہیں۔ اس لیے اب وہ یہ بھی کر گزرے ہیں۔ دوسرا یہ سیاسی عدم بلوغت کا اظہار ہو سکتا ہے جس کے پس منظر میں وہی احتجاج کی نفسیات کارفرما ہے۔ پی ٹی وی سے خطاب کا مطالبہ اُس وقت حق بجانب ہو سکتا تھا جب قوم سے مخاطب ہونے کے لیے ان کے پاس کوئی متبادل موجود نہ ہوتا۔ میرا خیال ہے کہ گزشتہ دو اڑھائی سال میں عمران خان نے قوم سے جتنا خطاب فرمایا ہے، وہ کسی سیاسی راہنما نے پاکستان کی پوری تاریخ میں نہیں کیا۔ اس کی کوئی نظیر تو شاید دنیا کی تاریخ میں موجود نہ ہو کہ ایک سیاست دان کی سرگرمیاں ایک سو دن سے زیادہ چوبیس گھنٹے، روزانہ قوم کو دکھائی جاتی رہی ہوں اور اس میں کم از کم دو عدد خطاب، ایک صبح ایک شام، بھی شامل ہوں۔ اس کے بعد قوم سے خطاب کی خواہش ناآسودہ نہیں رہنی چاہیے۔
یہ دلیل بھی دلچسپ ہے کہ پی ٹی وی قوم کے ٹیکس سے چلتا ہے اور اس میں ہمارا بھی حصہ ہے۔ تو کیا ریاست کا سارا نظام قوم کے ٹیکس سے نہیں چلتا؟ یہ دفاعی بجٹ کہاں سے آتا ہے؟ کیا اس بنیاد پر یہ مطالبہ کیا جا سکتا ہے کہ موجودہ سپہ سالار چونکہ نواز شریف کا انتخاب ہیں‘ اس لیے ایک چیف آف سٹاف 'ہمارا‘ بھی ہو گا کیونکہ ہم ٹیکس دیتے ہیں؟ کیا یہ وزارتیں عوام کے ٹیکس سے نہیں چلتیں‘ جس میں پیپلز پارٹی، تحریکِ انصاف اور جماعت اسلامی سمیت ہر جماعت کے کارکنوں کا ٹیکس شامل ہے؟ کیا اب ہر جماعت کا اپنا وزیر ہونا چاہیے؟ جمہوریت میں قانون یہ حق حکومت کو دیتا ہے کہ وہ قوم کے اس پیسے کو اپنی ترجیحات کے مطابق خرچ کرے۔ اس پر قانون اور اخلاق دونوں کا پہرا ہے۔ اگر اس کی خلاف ورزی ہوئی ہے تو اس کا فیصلہ عدالتیں کرتی ہیں یا عوام۔ عوام کا فیصلہ ووٹ سے سامنے آتا ہے۔ یہ مقدمہ اخلاقی بنیاد رکھتا ہے نہ قانونی کہ عوامی ٹیکس کے استعمال کا فیصلہ سیاسی جماعتیں کریں۔ کیا ہم یہ تجویز کر رہے ہیں کہ جس سیاسی جماعت کی جتنی قوت ہے، اس نسبت سے ٹیکس کا پیسہ اس کے حوالے کر دیا جائے کہ وہ اپنی مرضی سے خرچ کرے۔ کیا اس کے بعد کوئی ریاست یا حکومت باقی رہ سکتی ہے؟
دھرنے کے دنوں میں بھی عمران خان سے یہ کہا گیا تھا کہ آپ جو حق اپنے لیے مانگ رہے ہیں، کسی اخلاقی اور قانونی تقاضے کے تحت اسے صرف آپ تک محدود نہیں رکھا جا سکتا۔ اگر آپ کو دھرنے کا حق دے دیا جائے تو کسی دوسری جماعت یا گروہ کے اس حق کا کیسے انکار کیا جا سکتا ہے؟ اب یہ مفروضہ نہیں، ایک حقیقت ہے کہ دوسرے بھی دھرنے دے رہے ہیں۔ اسلام آباد تحریکِ انصاف کے دھرنے کے بعد، ایک مفتوح اور جنگ زدہ شہر کا نقشہ پیش کر رہا ہے۔ آئے دن سڑکیں بند، کنٹینر، پولیس کا غیر معمولی گھیرا اور سوختہ گاڑیاں۔ کچھ ایسا ہی معاملہ پی ٹی وی سے خطاب کا ہے۔ سراج الحق صاحب بھی اپنی خواہش کو چھپا نہیں سکے۔ بلاول کا ردِعمل ہمارے سامنے ہے۔ کسی خواہش یا اقدام کو اب ایک جماعت یا فرد تک محدود نہیںکیا جا سکتا۔ اس پس منظر میں قوم سے خطاب‘ کا مطالبہ اگر وزیر اعظم بننے کی بے قابو خواہش نہیں تو سیاسی عدم بلوغت کا اظہار بہرحال ہے۔
یہی معاملہ تحقیقات کا بھی ہے۔ تحقیقات ہر فریق کی خواہش کے مطابق نہیں ہو سکتیں۔ ہمیں کسی ایسے حل پر اتفاق کرنا ہو گا جس پر اکثریت متفق ہو جائے۔ عمران خان شعیب سڈل کا نام لے رہے ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر اس نام سے اتفاق ہے لیکن پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی اور اے این پی نے اس نام کو مسترد کر دیا ہے۔ عمران خان کی سیاست میں ایک کمزوری یہ ہے کہ وہ کثرتِ رائے کی موجودگی میں حکمتِ عملی کی تشکیل کا سلیقہ نہیں رکھتے۔ وہ سیاست میں جزیرہ بنانا چاہتے ہیں۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ ساری قوم اس ایک حل کو قبول کر لے جو وہ تجویز کر رہے ہیں ورنہ 'جاؤ ہم نہیں کھیلتے‘۔
اس بارے میں دوسری رائے نہیں کہ پاناما لیکس کے معاملے کی ایسی تحقیقات ہونی چاہئیں جو ایک عام پاکستانی کے لیے باعثِ اطمینان ہوں۔ یہ استحقاق تو حکومت ہی کا ہے کہ وہ کوئی راستہ تجویز کرے؛ تاہم یہ راستہ ایسا ہونا چاہیے جو پوری قوم کے لیے بحیثیتِ مجموعی قابل اطمینان ہو۔ اس قوم میں صرف تحریکِ انصاف نہیں، دوسری جماعتیں بھی شامل ہیں جن میں سب سے بڑی جماعت ن لیگ بھی ہے؛ تاہم اس کے لیے احتجاج یا دھرنے کا کوئی راستہ مناسب نہیں ہو گا۔ اگر حکومت کوئی ایسا حل پیش نہیں کرتی جو عام آ دمی کے لیے اطمینان کا باعث ہو تو پھر مخالفین کے پاس یہ راستہ موجود ہے کہ وہ رائے عامہ کو حکومت کے خلاف ہموار کریں۔ دو سال تک حکومت کے خلاف مہم چلائیں اور پھر 2018ء میں عوام سے فیصلہ لے لیں۔
اس وقت کوئی جماعت انتخابات کے لیے تیار نہیں۔ تحریکِ انصاف میں داخلی انتخابات ایک بحران کی صورت اختیار کر چکے۔ جو جماعت جماعتی انتخابات ڈھنگ سے نہیں کرا سکتی، وہ قومی انتخاب کیا لڑے گی؟ اگر آج انتخابات کا اعلان ہو جائے تو پی ٹی آئی اپنے تمام ہم نواؤں کی رائے کو بیلٹ بکس میں منتقل نہیں کر سکے گی۔ اس پر پھر دھاندلی کا واویلا ہو گا۔ یہی حال دوسری جماعتوں کا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی ایک جماعت انتخابات کے لیے تیارنہیں تو یہ ہنگامہ کیوں ہے؟
بدقسمتی سے عمران خان کے بارے میں میری اس رائے کو ایک بار پھر تقویت ملی ہے کہ وہ اصلاً سیاست دان نہیں، احتجاج پسند (agitator) ہیں۔ وہ ایک مدت سے احتجاج کے لیے کسی موقع کی تلاش میں تھے۔ ان کا خیال ہے کہ اب ان کو ایک اور موقع مل گیا ہے۔ اب وہ پھر اضطراب کی لہر اٹھا دینے کو ہیں۔ ان کی پوری کوشش یہ ہے کہ وہ حکومت کو کوئی کام نہ کرنے دیں اور اسے مسلسل الجھائے رکھیں تا کہ آئندہ انتخابات میں وہ قوم کے سامنے کوئی کارکردگی پیش نہ کر سکے۔ افسوس کہ ان کی نظر اس پر نہیں کہ یہ حکومت نہیں، قوم اور ملک کا وقت ہے جو ضائع ہو رہا ہے۔ آج پاکستان کا محسن وہ ہے جو اسے امن اور استحکام دے۔ مسلسل ہیجان اور اضطراب میں مبتلا رکھنا نادان دوستی ہے۔
عمران خان کو احتجاج کا موقع ہاتھ لگا ہے اور وہ اسے گنوانا نہیں چاہتے۔ میں کسی ایسے موقع کی تلاش میں تھا کہ ان کے لیے کلمہ خیر کہہ سکوں۔ عمران خان ایک بار پھر کامیاب ہو گئے اور میں ایک بار پھر ناکام۔