آخر عمران خان ہی مجرم کیوں؟
بدعنوان لوگوں کا ایک گروہ، مدت سے ہم پر مسلط ہے۔کیا اسے بے نقاب کرنا جرم ہے؟اس گروہ نے پاکستان کے خزانے کو لوٹا اور بیرونِ ملک سرمایہ جمع کیا۔کیا پاکستان کے عوام کو ان کے کالے کرتوتوں سے باخبر کرنا اور ان سے بچانا جرم ہے؟یہ کیا طرفہ تماشا ہے کہ ان قومی مجرموں کی بات نہ کی جائے اور عمران خان کو کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔عمران خان ذاتی زندگی میں ایک دیانت دار آ دمی ہے۔اس پر داغدار دامن رکھنے والوں کو کیسے ترجیح دی جا سکتی ہے؟
یہ ہے وہ مقدمہ جو اکثر قائم کیا جاتا اور اُن پر اظہارِ ناراضی کیا جاتا ہے‘ جو عمران خان پر نقد کرتے ہیں۔ ایک بڑی تعداد کو یقین ہے کہ کسی دنیادی فائدے کے بغیر، کوئی ذی شعور ایسا نہیں کر سکتا۔ یہ طبقہ اس تنقید کو رائے کی غلطی تسلیم کرنے پر بھی آمادہ نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جہاں فرق دو اور دو چار کی طرح واضح ہو، وہاں ملزم کو شک کا فائدہ نہیں دیا جا سکتا۔ اس میں کوئی شبہ ہی نہیں کہ عمران خان کے سوا سب کرپٹ ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وہ تنہا ایک صاف ستھرا آ دمی ہے۔ جو حقیقت اتنی نکھری ہوئی اور دوٹوک ہو، اس کا انکار کرنے والا کسی حسن ظن کا مستحق نہیں۔ یہ رائے رکھنے والے اکثر، میرا گمان ہے کہ دیانت داری سے یہی سمجھتے ہیں۔
میں اس نفسیاتی کیفیت کو سمجھ سکتا ہوں۔ مجھ پر بھی ایک طویل وقت ایسا گزرا ہے‘ جب میں نے اوائل جوانی میں اسلامی انقلاب کا خواب دیکھا۔ ایسا ہی ہیجان اور رومان مجھ میں بھی تھا۔ میرے پاس دلائل وافر تھے اور جذبات کی بھی کوئی حد نہیں تھی۔ میرے لیے بھی یہ باور کرنا مشکل تھا کہ کوئی مسلمان ہوتے ہوئے اسلامی تحریک کا ناقد یا مخالف ہو سکتا ہے۔ آج میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو حاصل ایک عمرِ رائگاں کا ماتم ہے اور بس۔عمران خان کے ساتھ میرا قریبی تعلق رہا۔ 2011ء کے بعد ان کے بارے میں میرے حسنِ ظن میں کمی آنا شرو ع ہوئی۔ 2013ء تک میں متذبذب رہا۔ 2013ء کے انتخابات میں، عمران خان میرے حلقے سے امیدوار تھے۔ میں واضح تھا کہ مجھے انہی کو ووٹ دینا ہے؛ تاہم یہ تذبذب باقی رہا۔ 2013ء کے بعد انہوں نے جو سیاست کی، میرے نزدیک وہ فی الجملہ ملک کے مفاد میں تھی‘ نہ جمہوری اور اخلاقی پیمانے پر پورا اترتی تھی۔ اس رائے کے پس منظر میں جو دلائل تھے، ان میں سے چند میں یہاں بیان کر رہا ہوں۔
1: وہ اس بات کا بالکل ادراک نہیں کر سکے کہ اس وقت پاکستان کی سب سے بڑی ضرورت امن اور سیاسی استحکام ہے۔ گزشتہ پینتیس سال میں، اس معاشرے اور ریاست کے ساتھ جو سلوک ہوا، اس نے پوری قوم کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ عوام اور معاشرے کی نفسیاتی بحالی، ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ اس کی واحد صورت یہ ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام ہو اور مزاجوں میں ٹھہراؤ آئے۔
2: نہ صرف یہ کہ انہوں نے اس بات کو نہیں سمجھا، بلکہ نوجوانوں کو برسرِ اقتدار گروہ کے خلاف مسلسل اشتعال دلا کر جلتی پر تیل ڈالا۔ گویا انہیں اس کیفیت میں مزید پختہ کیا‘ جس سے انہیں نکالنے کی ضرورت تھی۔ یہ طالبنائزیشن ہی کی ایک صورت ہے۔
3: دھرنا اس کا نقطہ ء عروج تھا۔ اس دوران میں انہوں نے جو لب و لہجہ اختیار کیا، جیسے ساز باز کی، جس طرح وعدہ خلافی کی، بغیر تحقیق الزام تراشی کی، اس نے ان کے اخلاقی وجود کو پوری طرح پامال کر دیا۔ انہوں نے زبانِ حال سے یہ بتا دیا کہ وہ اقتدار کے کھیل میں ایسے ہی ایک کھلاڑی ہیں‘ جیسے کوئی دوسرا ہو سکتا ہے اور اس عمل میں کسی اخلاقیات کے قائل نہیں۔
4: انہوں نے ایسے سیاسی کلچر کو فروغ دیا‘ جس میں اختلاف کرنے والے کی عزت اور وقار، ہر چیز مباح ہو جاتی ہے۔ مجھے کالم لکھتے بیس سال ہو گئے۔ اس دوران میں، میں نے ہر جماعت پر تنقید کی۔ سب سے زیادہ پیپلز پارٹی پر۔ کسی جماعت کی طرف سے کبھی بداخلاقی پر مبنی ردِعمل نہیں ملا۔ ماضی میں صرف ایک بار ایسا ہوا اور المیہ یہ ہے کہ ایک دینی جماعت کے وابستگان کی طرف سے۔ لیکن جو مظاہرہ تحریک انصاف کی طرف سے ہوا، وہ ہماری پوری سیاسی تاریخ میں ایک نیا تجربہ ہے۔ یہ ہیجان اور رومان کی اس فضا کا ناگزیر نتیجہ ہے‘ جس میں لیڈر پر تنقید ناقابلِ معافی جرم بن جاتی ہے۔ اسی کو فاشزم کہتے ہیں۔
5: تحریکِ انصاف نے کرپشن کے ایک موضوعی (subjective) تصور کو فروغ دیا۔ اس نے کرپشن کو ایک دائرہ میں مقید کر دیا جس کا تعلق قومی دولت کے ساتھ ہے۔ اس کے علاوہ کرپشن کی جتنی اقسام ہیں، ان کے بارے میں، انہوں نے معاشرے کو غیر حساس بنا دیا۔ ہماری مذہبی اور تہذیبی روایت سے اخلاقیات کا جو تصور پھوٹا ہے‘ اس میں کرپشن کی کئی صورتیں ہیں۔ مثال کے طور پر مے نوشی کو ام الخبائث کہا گیا۔ اس نئی تعریف میں اس طرح کی کرپشن کی صورتیں قابلِ قبول ٹھہریں اور ان میں ملوث ہونا برائی نہیں رہا۔ اسی طرح پیری و جاگیرداری بھی ان کے نزدیک کرپشن نہیں جو صدیوں سے عوام کے استحصال کے بدترین مظاہر ہیں‘ اور جن سے نجات کے بغیر کرپشن سے پاک معاشرہ تشکیل نہیں دیا جا سکتا۔
6: کرپشن کو انہوں نے مخالف سیاسی جماعتوں تک محدود کر دیا۔ اگر کوئی آدمی اپنے نامۂ سیاہ کے ساتھ تحریکِ انصاف کا حصہ بن گیا‘ تو اس کے بعد وہ کرپٹ لوگوں کی فہرست میں شامل نہیں رہا۔ گویا تحریکِ انصاف میں شمولیت فی نفسہ کسی کے پاک ہونے کا اعلان ہے، جیسے کوئی بپتسمہ لے کر دائرہ مسیحیت میں داخل ہو جاتا ہے۔ کرپشن کی ان تمام صورتوں کو گوارا کرنے کے بعد، کرپشن صرف ایک سیاسی نعرہ رہ جاتا ہے۔
7: تحریکِ انصاف صرف ایک مسئلے پر سیاست کر رہی ہے۔ اُس کے پاس قوم کو درپیش فکری، سیاسی اور سماجی مسائل کا فہم موجود ہے‘ نہ حل۔ اس سے جذباتی استحصال تو ممکن ہے، ذہنی اطمینان نہیں۔
8: عمران خان کی سیاست میں یہ تمام تغیرات 2013ء کے بعد آئے۔ اس تبدیلی سے ان کا سیاسی امتیاز باقی نہیں رہا۔ اب وہ بھی ایسے ہی ایک سیاست دان ہیں‘ جیسے دوسرے ہیں۔ اب کوئی حق رکھتا ہے کہ انہیں نواز شریف پر ترجیح دے، جیسے دوسرے یہ حق رکھتے ہیں کہ زرداری صاحب پر نواز شریف کو ترجیح دیں۔ انیس بیس کا فرق تو آپ بیان کر سکتے ہیں، اس سے زیادہ نہیں۔
یہ چند دلائل ہیں جن کی وجہ سے عمران خان میری تنقید کا ہدف ہیں۔ اب ایک سوال باقی ہے۔ اگر سب ایک جیسے ہیں تو تنقید بھی ایک جیسی ہونی چاہیے۔ عمران خان بطورِ خاص ہدف کیوں؟ میرا کہنا یہ ہے کہ بطور ریاست اور معاشرہ، زندہ رہنے کے لیے ضروری ہے کہ یہاں امن اور استحکام ہو۔ اس کے لیے موجودہ نظام کا برقرار رہنا لازم ہے۔ اس میں اگر کرپشن سمیت کوئی خرابی ہے تو اسے ناگزیر برائی سمجھ کر فی الوقت قبول کیا جائے، اگر اس کے نتیجے میں معاشرے میں امن اور استحکام آتا ہے۔ کرپشن جیسی خرابی کے خاتمے کے لیے ہر کوشش لازم اور محمود ہو گی‘ جو معاشرے کو کسی فساد میں مبتلا کیے بغیر کی جائے۔ ریاستی اداروں اور افراد پر عدم اعتماد پیدا کرنا فساد برپا کرنا ہے۔ جہاںعدلیہ آزاد ہو، میڈیا آزاد ہو، وہاں مثبت تبدیلی کا عمل روکا نہیں جا سکتا۔ جمہوریت کی برکت یہ ہے کہ ہم کچھ کھوئے بغیر بہتری لا سکتے ہیں۔
عمران خان کی سیاسی حکمت عملی سے اس نظام کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ اس کو بچانا ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ جب یہ بات کہی جا تی ہے تو لازم ہے کہ عمران خان ہدف بنیں کیونکہ وہ ہیجان کو فروغ دے کر عام آ دمی کو اس نظام سے مزید بیزار کر رہے ہیں۔ جب یہ بات کہی جاتی ہے تو ایک غیر مطلوب نتیجے کے طور پر (By default) نواز شریف صاحب کو فائدہ پہنچتا ہے کیونکہ وہ اس وقت سسٹم کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
لیڈر وہی ہے جو اپنے عہد کا شعور رکھتا اور صحت کے ساتھ ترجیحات کا تعین کر سکتا ہو۔ ہیجان اور رومان انقلابی تحریکوں کا اثاثہ ہے۔ پاکستان کو انقلاب کی نہیں، ارتقا کی ضرورت ہے۔