اوریا مقبول جان صاحب کا بہت شکریہ!
انہوں نے عصری سیاست کے دلدل سے نکلنے کا موقع فراہم کیا۔ ''تبدیلی قیادت سے آتی ہے یا معاشرے سے؟‘‘ اوریا صاحب نے اس اہم سوال کو موضوع بنایا۔ اپنے استدلال اور اسلوبِ کلام سے اپنے دینی فہم اور اخلاقی تربیت کا مظہر، ایک کالم کی صورت میں ہمارے سامنے رکھا۔ چونکہ یہ نقد میرے قائم کردہ مقدمہ پر ہے، اس لیے میں اس کا خیرمقدم کرتا ہوں کہ بحث کو مزید نکھارنے کا ایک موقع ہاتھ آ گیا۔ میری حد تک یہ مناظرہ نہیں، مکالمہ ہے۔ مناظرہ ہار جیت پر منتج ہوتا ہے۔ فریقین ہر اینٹ پتھر کے استعمال کو روا رکھتے ہیں‘ جو جیت میں مددگار ہو۔ اس کے برخلاف مکالمہ آرا کی تنقیح، تفہیم اور توضیح ہے۔ بحث سے بالواسطہ اور بلاواسطہ شرکا کو اپنی بات پر مزید غور و فکر کا موقع ملتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ اس کے نتیجے میں کسی کا اپنی رائے پر اعتماد پختہ ہو اور کسی کو نظر ثانی کا موقع ملے۔
اوریا صاحب کا خیال ہے کہ تبدیلی اوپر سے آتی ہے۔ اس مقدمے کو ثابت کرنے کے لیے انہوں نے جو کچھ لکھا‘ وہ غلطی ہائے مضامین کا مجموعہ ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ انہوں نے محض ایک کالم میں ناپختہ رائے، کمزور استدلال، تضادات، ناقص تفہیمِ دین اور خلطِ مبحث کے اتنے مظاہر ایک ساتھ کیسے جمع کر دیے۔ اس قدرتِ کلام پر تو وہ داد کے مستحق ہیں۔ میرے جیسا لکھنے والا ایک کالم میں شاید اس کا ایک آدھ نمونہ ہی پیش کر سکے۔ میری بات اُسی وقت سمجھ میں آ سکتی ہے جب ان کا کالم پورا پڑھا جائے۔ میرے لیے یہ دشوار ہے کہ اسے یہاں نقل کروں؛ تاہم چند اقتباسات پیش خدمت ہیں، جس سے یہ اندازہ ہو جائے گا کہ میں نے یہ رائے کیوں قائم کی۔
1۔''پورا معاشرہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے اس بات کا انتظار کر رہا ہے کہ آہستہ آہستہ تربیت ہو گی، لوگو ں کے ذہن بدلیں گے۔ ان کے کردار اچھے ہوں گے تو سب لوگ بددیانتی، چوری، ڈاکے، قتل و غارت چھوڑ دیں گے۔ جب تک یہ سب کچھ نہیں ہوتا‘ یہاں نہ کوئی قانون نافذالعمل ہو سکتا ہے اور نہ ہی معاشرے کو اوپر سے سختی کرکے ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔ یہ تو مذہب کی وہ تعبیر ہے جو انگریز نے اپنے کاسہ لیس اور غلام صفت علما کو سکھائی اور وہ اسے تسلیم کرکے خاموشی سے دعوت و تبلیغ سے معاشرتی اصلاح کی طرف لگ گئے۔ انہوں نے عبادات کو اصل دین سمجھا اور ان پر ہر وہ مسلمان مسلط رہاجو اﷲ اور اس کے رسول کا نافرمان تھا‘‘۔
2۔ '' ان ''عظیم‘‘ تجزیہ نگاروں، علمی نابغوں اور سیاسی پنڈتوں کی ایک نسل نے کبھی بنامِ سیاست اورکچھ بنامِ مذہب ہمارے معاشروں کو جس طرح طاغوت کی غلامی کا درس دیا‘ اسی کا نتیجہ ہے کہ نظام سے لڑنے کی قوت و حوصلہ اور انقلاب جیسے لفظ ہماری لغت سے خارج ہوتے جا رہے ہیں‘‘۔
3۔''... یہ لوگ صرف مذہب کی غلط تشریح سے قوم کو افیون پلا کر نہیں سلاتے بلکہ سیاست و جمہوریت کی بھی ان کی اپنی ہی تشریح ہے۔ ایک لفظ بولا جاتا ہے ''جمہوریت کا تسلسل‘‘ اور پھر اس کی خاطر سب کچھ قربان کرنے کو کہا جاتا ہے۔ حکمران اربوں ڈالر لوٹ کر جائیں... نہ صحت ملے نہ تعلیم لیکن اس سب کچھ کے باوجود جمہوریت کا تسلسل قائم رہنا چاہیے۔ عوام کو بھنگ پی کر سو رہنا چاہیے... عوام کو پہلے خود کو ٹھیک کرنا چاہیے۔ عوام ٹھیک ہوں تو معاشرہ ٹھیک ہو گا اور معاشرہ ٹھیک ہو گا تو حکمران اچھے آئیں گے۔
4۔''... موصوف کالم نگار (میری طرف اشارہ ہے) کے گھر اگر ڈاکو آ جائیں اور مال لوٹ کر لے جائیں تو کیا وہ اس دن کا انتظار کریں گے‘ جب معاشرہ ٹھیک ہو جائے اور لوگ چوری کرناچھوڑ دیں... اپنے مسئلے میں وہ کبھی ایسا نہیں کریں گے بلکہ پولیس کے آئی جی تک کی جان عذاب میں کر دیں گے جو ان کے مجرموں پر ہاتھ نہ ڈال رہا ہو‘‘۔
5۔''... یہ لوگ اپنے ان خیالات کے سانچے میں اسلام کو ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں اور رسول اکرمﷺ کی شخصیت‘ جو طاغوت اور باطل کے مقابل پہلے دن سے کھڑی تھی، ان کو بھی اپنی اس منافقانہ سوچ کے مطابق پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘‘۔
6۔''... میرے موصوف کالم نگار اس دور میں ہوتے تو جیسے آج امریکہ سے لڑنے کو بے وقوفی قرار دیتے ہیں‘ ویسے ہی نعوذ باللہ بدر کی روانگی کے موقع پر ان کے منہ سے پتہ نہیں کیا کچھ نکلتا‘‘۔
7۔ ''دین قوتِ نافذہ مانتا ہے۔ طاغوت کا انکار اور باطل کے سامنے کھڑا ہونے کا مطالبہ کرتا ہے‘‘۔
8۔''اگر ایسا ممکن ہوتا تو رسولِ اکرمﷺ خود اپنے دستِ مبارک میں تلوار ہاتھ میں پکڑ کر (کالم میں ایسا ہی لکھا ہے) 28 دفعہ صرف 8 سال کے قلیل عرصے میں جنگوں کے لیے نہ نکلتے‘‘۔
9۔''اﷲ کے دوست اور اﷲ کے دشمن ایک گھر میں رہیں، ایک میز پر بیٹھ کر ناشتہ کریں، ایک مفاد میں اکٹھا ہوں، یہ سب شہدائے بدر، احد، خندق اور خیبر جیسے معرکوں کی توہین ہے‘‘۔
یہ ایک دیگ کے چند دانے ہیں۔ ان کا تفصیلی تجزیہ، میں انشااللہ بعد میں کروں گا، اس وقت صرف پہلے نکتے پر طاہرانہ نگاہ ڈالتے ہیں: پاکستان کی تاریخ میں وہ دن کب آیا جب پورا معاشرہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ گیا ہو‘ اور اس نے تبدیلی کی کوئی کوشش نہ کی ہو۔ اوپر سے تبدیلی کے علمبردار پہلے دن سے متحرک ہیں۔ مطالبہ دستورِ اسلامی 1948ء میں پیش کیا گیا۔ قراردادِ مقاصد 1949ء میں منظور ہوئی۔ اوپر سے تبدیلی کے لیے لوگوں نے اپنی زندگیاں وقف کر دیں۔ لاکھوں لوگوں کو جدوجہد پر اُبھارا۔ ہزاروں لوگوں کی تربیت کی۔ ''طاغوت‘‘ کو للکارا۔ اوریا صاحب جس تعبیرِ دین کے علمبردار ہیں، اس کے فروغ اور نشر و اشاعت کے لیے ہزاروں صفحات پر مشتمل لٹریچر تیار کیا۔ ہر شعبہ ہائے ریاست و سماج میں اپنے گروہ کھڑے کیے۔ یہ مسلسل جدوجہد ہے جو 14اگست 1947ء سے جاری ہے۔ اس ہمہ جہتی جدوجہد کی موجودگی میں یہ کہنا کہ معاشرہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا ہے، تاریخ کی ناقص تفہیم ہے۔ اصل سوال دوسراہے: اگر تبدیلی اوپر سے آتی ہے تو اتنے برسوں کی جدوجہد نتیجہ خیز کیوں نہیں ہوئی؟ سفر کی اس رائیگانی کا یہ مطلب تو نہیں کہ پہلے دن ہی سے غلط راستے کا انتخاب کیا گیا۔
مزید یہ فرمایا جا رہا ہے کہ دعوت و تبلیغ سے معاشرتی اصلاح پر مبنی تعبیرِ دین انگریزوں نے اپنے کاسہ لیس اور غلام صفت علما کو سکھائی۔ اوریا صاحب دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں: کیا مولانا الیاس انگریزوں کے کاسہ لیس اور غلام صفت عالم تھے؟ دین کا ہر طالب علم یہ حق رکھتا ہے کہ وہ دین کی کسی تعبیر کو اگر غلط سمجھتا ہے تو اس پر نقد کرے لیکن کسی کو انگریزوں کا کاسہ لیس اور غلام صفت قرار دینا واقعہ یہ ہے کہ بڑے دل گردے کا کام ہے۔ ہم جس دین سے واقف ہیں، ہمارے استاد نے جس طرح ہماری اخلاقی تربیت کی ہے، اس کی روشنی میں تو اس تصور ہی سے روح کانپ اُٹھتی ہے۔
یہ محض ایک نکتے کا تجزیہ ہے۔ اس سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ یہ استدلال کتنا وقیع اورفہم دین و تاریخ کا کیسا نمونہ ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ سرکاری ملازمت میں طویل عرصہ گزارنے کے باوجود، اوریا صاحب پر سماج اور ریاست کا فرق بھی واضح نہیں ہو سکا۔ میں اگلے چند کالموں میں محترم کے اٹھائے ہوئے تمام نکات کا جائزہ لیتے ہوئے، انشااللہ یہ بتانے کی کوشش کروں گا کہ غلطی ہائے مضامین کا یہ انبار کیسے کھڑا ہوا؟ اوریا صاحب کا ایک بار شکریہ کہ انہوں نے یہ موقع فراہم کیا۔