غم میں لپٹی ہوئی شام کچھ ایسی اتری کہ زمین وآسمان سوگوار ہوگئے۔میں نے لوگوں کو ایسے افسردہ بہت کم دیکھا ہے۔امجد صابری کی چاہت کا دریا سیلاب بن کر بہہ نکلا۔ مذہب اور مسلک، علاقہ اور خاندان، کوہ اور دمن، بلندی اور پستی، سب اس کی گرفت میں تھے۔سوگ کا یہ دریا سب کو سیراب کر گیا۔ مجھے اپنے آپ پر حیرت ہے۔ دو دن ہوگئے، چلتے پھرتے، بے ساختہ اور بلاارادہ ایک مصرع زبان پرہے ع
تاجدارِ حرم! ہو نگاہِ کرم
یہ حیرت بے وجہ نہیں۔میری پرورش جس ماحو ل میں ہوئی اور پھر علم کے جن منابع سے میں نے فیض پایا وہاں عقیدے کی صحت پر بہت اصرار ہے۔ یہ کسی صورت گوارا نہیں کہ تو حید و رسالت کے عقائد پر کسی عجمی اثر کا سایہ تک پڑے۔ حفظِ مراتب کا ایسا اہتمام کہ جیسے پل صراۃ کا سفر ہو۔ختم نبوت کا عقیدہ تو سب رکھتے ہیں، مگرمیں نے تو اپنے استادِ گرامی کا معاملہ یہ دیکھا کہ رسالت مآب ﷺ کی نبوت کے بعد کوئی ظل تو دور کی بات، دعویٰ الہام بھی قبول نہیں۔ قیامت کی صبح تک، آپ ﷺ کی ذاتِ والا صفات دین کا تنہا ماخذ ہے۔ عقیدے کے باب میں، یہ حساسیت قوالی جیسے فنون کی قبولیت اورپذیرائی میں مانع ہوتی ہے۔ بنیادی سبب وہ شاعری ہے، عقائد براہ راست جس کی زد میں ہوتے ہیں۔ مبالغہ شاعری کا وصف ہے۔ مذہبی معاملات میں شعر جب اس ڈگر پر چلتا ہے تو بے مہارہوجاتا ہے۔ پھرافراط و تفریط کی وادیوں میں بھٹکتا پھرتا ہے۔ حمد میں تو اس کا امکان نہیں ہوتا کہ پروردگارِ عالم کے ذکر میں کوئی مبالغہ اس پر قادر نہیں کہ اس کی صفات کا احاطہ کرسکے۔ نعت اور منقبت میں البتہ بہت نازک مقامات آتے ہیں۔ قوالوں کا انتخاب بالعموم ایسا ہوتا ہے جس میں حفظِ مراتب کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔
قوالی کو میںغیر مذہبی حوالے سے، فنونِ لطیفہ کی ایک صنف کے طور پر دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن اس پرمذہبی مضامین کا کچھ اس طرح غلبہ ہے کہ اسے الگ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ان خیالات کے ساتھ، اگر بے ساختہ میرے لب 'تاجدارِ حرم‘ دہرانے لگیں تو مجھے اپنے آپ پر حیرت تو ہو گی۔ میں ہی نہیں میرے بچے بھی یہی گنگناتے سنائی دیتے ہیں۔ یہ کس کا جادو ہے؟امجد صابری کا؟ یہ ایک سوا ل مجھے فکر و نظر کی کئی وادیوں میں لیے گھومتا رہا۔ گھومتے پھرتے، میں ایک ایسے نگر میں آ نکلا جس کا نام تھا: 'کلچر اور مذہب‘۔
مذہب کلچر کا جزو ہے بلکہ جزوِ اعظم۔ اسلام جس سماج میں گیا، رائج کلچر کے اثرات سے محفوظ نہیں رہا۔ ایک حد تک یہ حفاظت مطلوب بھی نہ تھی۔ مذہب موجود کلچر کو بر باد کر نے نہیںآتا، اسے اپنے تصور ِحیات سے ہم آہنگ بناتا ہے اور بس۔ زندگی کے اکثر معاملات غیر مذہبی ہوتے ہیں ۔یہ معاشرے کے عرف اور معروف ہی کے تحت سر انجام دیے جاتے ہیں اور مذہب بھی اسی کا علم بردار ہے۔ اسی سبب سے، ہماری فقہ کے ماخذات میں 'عرف‘ بھی شامل ہے۔ اسلام میں اٹھنے والی احیائی تحریکوں نے'کلچرل اسلام‘ کو بھی ہدف بنایا۔ انہیں عام طور پر اس میدان میں قابلِ ذکر کامیابی نہیں ملی۔ برصغیر میںسوادِ اعظم آج بھی اسی تصورِ مذہب سے وابستہ ہے جو مقامی کلچرکا رنگ لیے ہوئے ہے۔ لوگوں نے جب عجم کو عرب کی نظر سے دیکھا تو مقامی رسوم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ تجربے سے معلوم ہوا کہ اس تصور کی ایک حد تک ہی پذیرائی ہو سکتی ہے۔
امجد صابری اس مقامی کلچر کا حصہ تھا۔ یہ کلچر جن کے دم سے آباد ہے، وہ ان میں سے ایک تھا۔ اس کے گھرانے نے قوالی کی روایت کو زندہ رکھا۔امجد نے اس روایت کو اپنے عہد سے جوڑا۔ بہت کم عمری میں اس نے قوالی کے فن کو ایک نیا لہجہ دیا۔ اس کی گائی ہوئی مقبول قوالیاں اگر چہ وہی ہیں جو اس سے پہلے اس کے والد اور چچا نے گائیں اور پورے بر صغیر نے ان کی گونج سنی؛ تاہم اس نے اسے نئی نسل کے لیے بھی پسندیدہ بنا دیا۔ یہی بات اس روایت میں اس کی انفرادیت کا باعث ہے۔
وہ جب نعتیہ قوالی گاتا تھا تو واقعہ یہ ہے کہ رسالت مآب ﷺ کی محبت میں سرشار دکھائی دیتا تھا۔ اس کی آخری گائی ہوئی نعت، جس میں احوالِ قبرکا ذکر اور بخشش کی طلب ہے،اس کا ایک ثبوت ہے۔ میرے عقیدے میں تو دعا کا مخاطب اللہ تعالیٰ کی ہستی ہی کو ہونا چاہیے۔ وہی غفورہے اور وہی ستار العیوب بھی؛ تاہم میں محبت کے اس جذبے کو نظر انداز نہیں کر سکتا جو لفظوں میں چھپا سنائی دیتا ہے۔ شاید یہی وہ پہلو ہے جو ہمیں فتویٰ لگانے سے روکتا ہے۔ ایسے معاملات میں ہم تاویل کرتے ہیں۔ تاویل کی ایک روایت ہے جو تصوف میں ہے اور فقہ میں بھی۔ اسی سبب سے ہم مسلمان کو مشرک نہیں کہتے، اس کے باوجود کہ اس کے کلام میں اس کا تاثر مو جود ہو۔کاش ہم تاویل کی اس روایت میں منصف مزاج بھی ہوتے اور سب پر اس کا یکساں اطلاق کر سکتے۔
میں اس صوفیانہ روایت میں بھی تجدید کا حامی ہوں۔ اصلاحی تحریکوں سے غلطی یہ ہو ئی کہ انہوں نے خانقاہ اور قوالی جیسے اداروں اور فنون ہی کو رد کر دیا۔ احیا کا تقاضا یہ تھا کہ ان سے وابستہ غیر اسلامی عقائد اور رسوم کو تدریج اور مصلحت سے درست کیا جاتا۔ قوالی میں اگر کلام کے انتخاب میں احتیاط کو روا رکھا جا ئے تو یہ ایک موثر ذریعہ ابلاغ ہے۔ اس سے جمالیاتی ذوق کی آبیاری کے ساتھ، اصلاح کا کام بھی لیا جا سکتا ہے۔ میرے نزدیک تو فنون ِلطیفہ کی یہ خدمت بہت قابلِ قدر ہے کہ وہ انسان کے لطیف جذبات کو زندہ و بیدار رکھتے اوران کو جلا بخشتے ہیں۔ مذہب کی تبلیغ یا اخلاقیات کی تعلیم اس کا بنیادی وظیفہ نہیں ہے؛ تاہم اگر وہ یہ خدمت بھی سرانجام دے تو یہ سونے پر سہاگہ ہے۔
امجد صابری کی مقبولیت کا سبب کیا تھا؟ فن یا مذہب؟ میرا خیال تو ہے دونوں۔ قوالی نے چونکہ ہماری مذہبی روایت میں آنکھ کھولی ہے،اس لیے اسے مذہب سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اصلاً یہ وہ پیرہن ہے جو حمد و نعت یا منقبت کے لیے تراشا گیا تھا۔ یہ بعد میں ہوا کہ بعض دوسرے اصناف کو بھی پہنایا جا نے لگا۔ اس کے باوجود اس کا اصل سے تعلق باقی رہا۔ عرس سے لے کر ٹی وی کے مذہبی پروگراموں تک، قوالی ہر جگہ لازم ہو گئی ہے۔ امجد رمضان کی نشریات کا ایک لازمی حصہ بن چکا تھا۔ ٹی وی چینلز نے جس طرح اس کا سوگ منایا، یہ کم ہی فنکاروں کے حصے میں آتا ہے۔
واقعہ یہ ہے یہ فنکار معاشرے کے لطیف جذبات کو زندہ رکھتے ہیں۔ ان کا وجود سماج کو ان نفسیاتی عوارض سے محفوظ رکھتا ہے، جو اسے انتہا پسند بنا دیتے ہیں، جو نفرت کی آبیاری کرتے ہیں، جو ایسے بیانیوں کوجنم دیتے ہیں جو دوسروں کی نفرت پر استوار ہوتے ہیں۔ امجد صابری ان میں تھا جس نے مذہب کو اس کی لطافت سے جوڑے رکھا۔ اس نے غیر محسوس طریقے سے ان مذہبی بیانیوں کو غیر موثر بنانے میں ایک کردار ادا کیا جنہوں نے انسانی خون بہانا مذہبی وظیفہ سمجھ لیا تھا۔ ایک جواں سال فنکار کا قتل پورے معاشرے کی جمالیات کا قتل ہے۔ اس کے جنازے میں جس طرح شہر امڈ آیا، یہ اس بات کا اعلانِ عام ہے کہ اس معاشرے کی لطافت ابھی زندہ ہے۔ امجد کی کوششیں لاحاصل نہیں رہیں۔
آج میرے لبوں پہ 'تاجدارِ حرم‘ ہے ۔ معلوم نہیں اور کتنے ہونٹ ایسے ہوں جو اس مصرع پر بے ساختہ بول اٹھتے ہوں۔ یہ امجد صابری کی کامیابی ہے کہ اس نے لطافت اور مذہب کو یک جا رکھا۔ کاش ہمارے علما بھی ایسا کرتے۔