مخبر کا کہنا ہے کہ غسلِ صحت کے بعد، جب وزیراعظم واپس آئیں گے تو لاہور میںدس لاکھ کا استقبالیہ ہجوم ان کا منتظر ہوگا۔کیا یہ خبر واقعہ بن سکتی ہے؟
اس میںتو شاید کلام نہ ہو کہ ن لیگ آج بھی ملک کی سب سے بڑی انتخابی قوت ہے۔ نوازشریف مثالی راہنما نہ سہی لیکن اِس وقت اُن کا متبادل بھی مو جود نہیں۔ سیاسی راہنماؤں کی خوبیوں اور خامیوں کا گوشوارہ بنایا جا ئے توپلڑا انہی کی طرف جھکتا ہے۔ جن کو قدرت نے موقع دیا تھا کہ وہ قوم کو ایک متبادل قیادت فراہم کرتے،انتقام اورہیجان ، اُن کو لے ڈوبا۔ آج بھی اگرعوام بادلِ نخواستہ، نوازشریف کی طرف دیکھتے ہیں تویہ دراصل متبادل قیادت کے حسنِ کارکردگی کی عطا ہے ؎
ہم سہل طلب کون سے فرہاد تھے لیکن
اب شہر میں تیرے کوئی ہم سا بھی کہاں ہے
اس احساس کے باوجود مجھے شبہ ہے کہ یہ خبر واقعہ بن سکتی ہے۔ چند اسباب یہاںبیان کیے دیتا ہوں:
1۔وزیراعظم کوئی ایسا کارنامہ سرانجام دے کر نہیں آ رہے کہ قوم فرطِ جذبات میں گھروں سے نکل پڑے۔ وہ بیمار ہوئے تو پوری قوم اُن کے لیے دست بدعا تھی۔ لوگ شقی القلب بھی ہوتے ہیں لیکن دو چار۔ اکثریت فطرت پر کھڑی ہوتی ہے اور انسانی فطرت یہی ہے کہ کسی کو تکلیف میں دیکھے تو اس کا دل پسیج جاتا ہے۔ بے نظیر صاحبہ پوری قوم کی نہیںِ ایک طبقہ کی نمائندہ تھی، لیکن جب انہیں خون میں نہلایا گیا توشاید ہی کوئی آنکھ ہوگی جو نم ناک نہ ہوئی ہو۔ ان کی شہادت نے ان کے بارے میں موجود تاثر کو ہمیشہ کے لیے بدل ڈالا۔ نوازشریف صاحب بیمار ہوئے تو قوم بے چین ہو گئی۔ ان کی صحت کی خبر آئی تو لوگوں کو سکون آگیا۔ بیماری ختم ہوئی تو ہمدردی کا جذبہ بھی سرد پڑگیا۔ میرا نہیں خیال کہ اب اس حوالے سے لوگوں میں کوئی گرم جوشی باقی ہے۔
2۔ ایسے استقبالیہ ہجوم حکومت نہیں، سیاسی جماعت جمع کرتی ہے۔ آج ن لیگ نام کی کوئی سیاسی جماعت ملک میں نہیں پا ئی جاتی۔ شریف برادران نے ایوانِ اقتدار میں قدم رکھا تو حسبِ روایت یہ جماعت طاقِ نیساں ہوگئی۔ جب سیاسی تنظیم ہی موجود نہیں توعوام کو کون منظم کرے گا؟
3۔ اراکینِ اسمبلی کی اکثریت میں بھی کوئی گرم جوشی نہیں پائی جاتی۔ ان کی ناراضی کے قصے عام ہیں۔ آج ان سے بھی توقع رکھنا عبث ہوگا کہ وہ اپنے اپنے حلقہ انتخاب سے کوئی بڑا ہجوم لا سکیںگے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ انہیں متحرک کرنے کے لیے کوئی سیاسی رشوت پیش کی جائے۔
4۔ وزرا میں سے بھی ایک سعد رفیق ہوںگے یا ان جیسا ایک آدھ اور جو لوگوں کو متحرک کر سکے، ورنہ وزرا کا عوام سے کوئی رابطہ نہیں۔کیا اسحاق ڈار صاحب کا کوئی حلقہ انتخاب مو جود ہے؟ چوہدری نثار صاحب کو بھی ہجوم کی سیاست سے کبھی دلچسپی نہیں رہی۔ اگر وزرا کا حال بھی یہ ہے تو عوام کو کون لائے گا؟
5۔ حکومت کا زیادہ تر بلکہ شاید تمام تر انحصار پنجاب حکومت پر ہوگا۔ صوبائی حکومت کی انتظامی قوت کو بروئے کار لاکر افراد جمع کیے جائیں گے۔ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ یہ فارمولہ زیادہ کامیاب نہیں رہتا۔ کچھ بے حس اور جذبات سے عاری لوگ جمع ہو جائیںگے جن کی لا تعلقی کو میڈیا نمایاں کر دے گا۔صوبائی وسائل کے بے جا استعمال پر تنقید الگ ہوگی۔
اس فہرست میں چند اسباب کا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ ان کی بنیاد پر میرا خیال ہے کہ یہ کوشش زیادہ نتیجہ خیز نہیں ہوگی۔ یہ تو واضح ہے کہ یہ فیصلہ اپوزیشن کے احتجاج کا جواب ہے۔ حکومت اس کا حق رکھتی ہے اوراسے یقیناً جوابی حکمت ِعملی بنانی چاہیے۔ سیاسی حکومت کی اصل قوت عوام ہی ہوتے ہیں اور اسے انہی سے رابطہ کرنا چاہیے؛ تاہم اس کی حکمتِ عملی وہ نہیں ہو سکتی جو اپوزیشن اپناتی ہے۔ اس کی اصل قوت عوام دوست حکومتی رویہ ہے۔ اگر وہ جواباً اس کا مظاہرہ کر سکے تو اپوزیشن کی کوئی تحریک نتیجہ خیز نہیں ہو سکتی۔ افسوس یہ ہے کہ حکومت اس پہلوکو اہمیت دینے پر آمادہ نہیں۔
اپوزیشن کا ہدف پنجاب ہے۔ عمران خان تو تین سال سے پنجاب کو اضطراب میں مبتلا کیے ہوئے ہیں۔پیپلز پارٹی بھی یہاں اپنے کھوئے ہوئے مقام کی تلاش میں ہے۔ سندھ میں صوبائی حکومت کی کارکردگی کا جو حال ہے، وہ سب کو معلوم ہے۔ اس کے باوجود اگر سب کی تو جہ پنجاب پر ہے تو یہ اس بات کا اعلان ہے کہ یہ پنجاب ہے جہاں تبدیلی آئی تو پورے ملک میں تبدیلی آئے گی۔ پنجاب کی حکومت ن لیگ کے پاس ہے۔ اس وقت بجلی گیس کے علاوہ عوام کی دلچسپی کے سب کام صوبے سے متعلق ہیں۔تعلیم، صحت اور سب سے بڑھ کر امن و امان۔ حکومت اگران کو بہتر بنا سکے تو پنجاب میں کوئی احتجاجی تحریک نہیں اٹھ سکتی۔
شہباز شریف صاحب اپنی دوڑ دھوپ کے باوجود، ان معاملات میں عوام کو پوری طرح مطمئن نہیں کر سکے۔ اس کا بڑا سبب ان کا اسلوب ِحکومت ہے۔ شریف برادران ہمیشہ ارتکازِ اقتدار کے قائل رہے ہیں۔ پنجاب میں یہی ہو رہا ہے۔ قصور سے اٹک تک وزیراعلیٰ ہر واقعے کا براہ راست نوٹس لے رہے ہوتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ اس بات کا اعلان ہے کہ ان کے زیر نگرانی چلنے والا نظام ناکام ہو چکا۔ ایک ایس ایچ او سے لے کر ڈی سی تک،کوئی کام نہیں کر رہا،اس لیے مجبوراً وزیراعلیٰ کو مداخلت کر نا پڑ رہی ہے۔ بطور وزیر اعلیٰ ان کی کامیابی تو یہ ہے انہیں کبھی نوٹس لینے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ صوبے کا انتظامی نظام اتنا موثر ہوکہ خودکار طریقے سے متحرک رہے۔ اس وقت پنجاب میں منتخب عوامی نمائندے بے بسی کی تصویر ہیں۔ جب وہ اقتدار میں شریک نہیں تو کس جذبے کے
تحت وزیر اعظم کے استقبال کے لیے ہجوم جمع کریںگے؟
شریف برادران کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ جب تک پنجاب میں پولیس، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں عام آدمی کا تجربہ ان کی کارکردگی کا گواہ نہیں بنے گا، وزیراعلیٰ کے دورے یا میٹرو جیسے منصوبے ایک حد تک ہی ان کے کام آئیںگے۔ پنجاب میں تو اب مطالبات منوانے کا واحد طریقہ احتجاج ہے۔ یہ خود اس کا اعلان ہے کہ نظام خودکار نہیں ہے۔ اگر عام آ دمی کی داد رسی کا کوئی طریقہ نہیں ہوگا تو احتجاجی آوازوںکو دبانا مشکل ہو جا ئے گا۔
آج مسائل کا انبار ہے۔ وفاقی حکومت نے بہت سے مسائل کے حل کے لیے موثر حکمتِ عملی اپنائی ہے جس میں بجلی اور گیس کا معاملہ سر ِفہرست ہے۔ عوام میں بڑی حد تک اس کا ادراک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپوزیشن کے احتجاج کے بارے میں گرم جوش نہیں ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیںکہ عوام حکومت کے بارے میں اتنے پر جوش ہیں کہ وزیراعظم کے استقبال کے لیے امڈے چلے آئیںگے۔ انتخابی قوت ہونے اور عوامی قوت ہونے میں فرق ہے۔ ن لیگ بلا شبہ ایک انتخابی قوت ہے لیکن شاید اس پر قادر نہیں کہ لاکھوں عوام کو اپنے حق میں سڑکوں پر نکال لائے۔ پرویز رشید صاحب اپوزیشن کی منفی سیاست کو داد دیںکہ عوام کے پاس کوئی متبادل نہیں۔ وہ اسے غنیمت سمجھیں اور باقی ایک ڈیڑھ سال بہترگورننس پر توجہ دیں۔
دوسروں کے عیب ایک حد تک ہی حکومت کا سہارا بن سکیںگے۔اُسے استقبالیہ ہجوم جمع کر نے کے بجائے پنجاب میں بطورِخاص اپنی کارکردگی پر تو جہ دیناہوگی۔ یہ رویہ اپوزیشن کے احتجاج کو بے اثرکر دے گا۔