عید کے پس منظر میں چند خبریں نمایاں رہیں:
٭ ون ویلنگ سے عید کے دن دس نو جوان جاں بحق۔
٭ عید کے دوسرے دن اسلام آباد سے مری تک دوطرفہ ٹریفک بلاک۔
٭ ایبٹ آباد سے نتھیاگلی تک ٹریفک بلاک۔ ٹھنڈیانی کے قریب ویگن کھائی میں جا گری۔ سیاحت کے لیے آنے والے تین افراد جاں بحق۔
٭ اسلام آباد کے لیک ویو پارک میں تل دھرنے کی جگہ نہیں۔ شہری اس طرف کا رخ نہ کریں: انتظامیہ کی ہدایت۔
٭ کراچی میں ٹریفک بلاک۔ تفریحی مقامات کی بتیاں بجھا دی گئیں تاکہ لوگ واپس جائیں اور رش کم ہو۔
ان خبروں میں، بین السطور چند بڑے مسائل جھانک رہے ہیں۔ ایک یہ کہ پاکستان میں تفریحی مقامات بہت کم ہیں۔ اگر لوگ کبھی ان کی طرف رخ کریں تو آبادی کے تناسب سے ایسے مقامات کم پڑ جاتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ پاکستان میں اچھی سڑکیں ہماری ضرورت سے بہت کم ہیں۔ لوگ ٹریفک انتظامیہ کو الزام دیتے ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ جہاں تین ہزار گاڑیوں کے لیے گنجائش ہو وہاں پچاس ہزار گاڑیاں جمع ہو جائیں تو اس کو کسی ترتیب میں لانا شاید دنیا کے کسی ٹریفک نظام کے بس میں نہ ہو۔ سب سے بڑا مسئلہ آبادی کا غیر معمولی دباؤ ہے۔ اس ملک کے وسائل اتنی بڑی آبادی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ تیسرا یہ کہ نوجوانوں میں توانائی ہے لیکن اسے مثبت رخ نہیں دیا جا سکا۔
ہمارے ملک میں یہ مسائل بہت کم قومی منصوبوں یا مباحث کا حصہ بنتے ہیں۔ اگر میڈیا پر کسی پروگرام میں ان پر بات ہوتی ہے تو بہت سطحی۔ حکومت اور ٹریفک پولیس کو الزام دے کر یہ سمجھا جاتا ہے کہ تجزیے کا حق ادا ہو گیا۔ میرا خیال ہے کہ ان مسائل کو سنجیدہ قومی بحث کا موضوع بنانا چاہیے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ اموات ٹریفک حادثات میں ہوتی ہیں۔ دہشت گردی سے زیادہ۔ اس میں بنیادی حصہ غیر معیاری سڑکوں کا ہے۔ یہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کو ایک ا چھا انفراسٹرکچر دیں۔ ان میں سب سے اہم اچھی سڑکیں ہیں۔ تجارتی اعتبار سے ان کی جو اہمیت ہے، وہ اپنی جگہ مگر عوام کی جان کے تحفظ کے لیے بھی ان کی اہمیت کم نہیں۔
شریف برادران کا اس جانب رجحان ہمارے ہاں تنقید کا نشانہ بنتا ہے۔ میں مخالفت برائے مخالفت کے علاوہ اس کی کوئی توجیہہ نہیں کر سکتا۔ موٹر ویز، میٹروز، یہ ہماری بنیادی ضرورت ہیں۔ اسی طرح موجود سڑکوں کو بہتر بنانا بھی لازم ہے۔ کے پی کے لوگوں کا مطالبہ ہے کہ پشاور میں بھی میٹرو بنے۔ پشاور ایک بڑا شہر ہے اور وہاں ٹریفک کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ پشاور کے لوگ اکثر راولپنڈی آتے اور میٹرو کا تجربہ کرتے ہیں۔ ان کا دل چاہتا ہے کہ ان کے ہاں بھی ایسی سہولت میسر ہو۔ عمران خان نے میٹرو کی اتنی مخالفت کی کہ اب یہ ان کا نفسیاتی مسئلہ بن چکا۔ اب تحریکِ انصاف کو سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ اس موقف سے کیسے رجوع کرے۔ عمران خان اکثر کہتے ہیں کہ سڑکوں پر نہیں انسانوں پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ انہیں شاید اندازہ نہیں کہ سڑکوں پر سرمایہ کاری، انسانوں ہی پر سر مایہ کاری ہے۔ روزانہ لاکھوں لوگ سفر کرتے ہیں۔ ان کی زندگیوں کا دار و مدار سڑکوں پر ہے۔ یہ سرمایہ کاری اتنی ہی لازم ہے جتنی سکولوں اور ہسپتالوں پر سر مایہ کاری۔
تنقید کا میدان دوسرا ہے اور وہ ہے اورنج ٹرین جیسے منصوبے۔ لاہور میں میٹروکی موجودگی میں اس منصوبے کو ناگزیر نہیں کہا جا سکتا۔ وسائل کو بڑا حصہ ایک شہر پر خرچ کرنے کے بجائے اسے صوبے کے عوام پر تقسیم کر دینا چاہیے۔ پنجاب میں سڑکوں کا نظام اصلاح طلب ہے۔ اسے بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ جب یہ درست ہو جائے تو پھر اورنج ٹرین جیسے منصوبے بھی بن سکتے ہیں۔ اگر صوبے کے ایک بڑے حصے کو پانی کا صاف پانی میسر نہ ہو اور دوسری طرف ایک اضافی منصوبے پر اربوں خرچ ہو رہے ہوں تو اس کی تائید نہیں کی جا سکتی۔ پنجاب حکومت کا مسئلہ ترجیحات کا درست تعین نہ ہونا ہے۔ تنقید اس پر ہونی چاہیے۔ بعض لوگ اس جانب توجہ دلاتے رہتے ہیں۔ حکومت کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔
ان خبروں سے یہ بھی واضح ہے کہ ہمارے ملک میں تفریحی مقامات کی کتنی کمی ہے۔ ایسے مقامات بہت ہیں جہاں قدرت نے اپنی فیاضی کی انتہا کر دی ہے۔ اتنا حسن بکھیر دیا کہ ہم سمیٹنا چاہیں تو ہمارے دامن چھوٹے پڑ جائیں۔ ہم اس حسن کو قابلِ نظارہ نہ بنا سکے۔ دہشت گردوں نے جو ظلم کیا وہ اپنی جگہ مگر ہماری حکومتوں کی کوتاہیاں بھی کچھ کم نہیں۔ سیاحت کی وزارت موجود ہے مگر اس کے زندہ ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ جس شعبہ سے زرِمبادلہ کمایا جا سکتا ہے، وہ اس قابل بھی نہیں کہ قومی ضرورت ہی پوری کر سکے۔ پھر یہ کہ شہروں میں تفریحی مقامات کی شدید کمی ہے۔ بچے کھیل سکتے ہیں نہ بڑے کہیں نکل سکتے ہیں۔ اینٹوں کے انبار کھڑے ہو رہے مگر کھیل کے میدان ہیں نہ پارک جہاں لوگ کچھ وقت آسودگی کے ساتھ گزار سکیں۔
ان مسائل میں سب سے اہم آبادی میں غیر معمولی اضافہ ہے۔ اس وقت ہمیں جو وسائل دستیاب ہیں، اگر دیانت داری کے ساتھ ان کا پائی پائی خرچ ہو تب بھی یہ ممکن نہیں کہ ہم آبادی کے ضروریات کے مطابق ہسپتال، سکول یا پارک تعمیر کر سکیں۔ یہ حکومت سے زیادہ معاشرے کا مسئلہ ہے۔ ہمیں اس باب میں آگاہی کی ایک بڑی مہم چلانا ہو گی۔ یہاں ایک وزارت موجود ہے اور اس کے ساتھ بعض این جی اوز بھی کام کر رہی ہیں‘ اس کے باوجود یہ مسئلہ اس سطح پر موضوع نہیں بن سکا‘ جس کی ضرورت ہے۔ علما کی اکثریت ابھی تک خاندان کی منصوبہ بندی کو خلافِ اسلام سمجھتی ہے۔ چند ماہ پہلے مجھے ایک مجلس میں شرکت کا موقع ملا جس کا موضوع 'ماں بچے کی صحت‘ تھا۔ ایک
ادارے نے اس موضوع پر عوامی آگاہی کا ایک پروگرام ترتیب دیا‘ اور اس کے لیے علما کو مشورے کے لیے جمع کیا۔ اس مجلس میں لازم تھا کہ بچوں میں عمروں کے تفاوت کی اہمیت پر بھی بات ہوتی۔ علما کم و بیش یک زبان تھے کہ وہ اس طرح کی کسی تجویز کی حمایت نہیں کر یں گے۔ اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ بظاہر بڑے بڑے علمی ادارو ں کے فتووں کے باوجود، لوگ عوامی سطح پر اس سوچ کے حق میں نہیں ہیں۔ ابھی موجود تصورات کو بدلنے کے لیے بہت محنت کی ضرورت ہے۔
آبادی کے مسئلے کو مخاطب بنائے بغیر ہم ان مسائل کو حل نہیں کر پائیں گے‘ جن کو حل کیے بغیر سماجی ترقی کا عمل آگے نہیں بڑھ سکتا؛ تاہم اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہونا چاہیے کہ ہم دیگر شعبوں میں بہتری نہ لائیں۔ سڑکوں کی حالت کو بہتر بنانا ناگزیر ہے۔ ضرورت ہے کہ اسے سطحی جماعتی سیاست کی نذر نہ کیا جائے۔ ون ویلنگ اور آبادی میں اضافے جیسے مسائل معاشرے کی توجہ چاہتے ہیں۔ ہمیں صرف بہتر حکومت نہیں، اچھے سماجی ادارے بھی چاہیئں۔ سماج کی اصلاح کو ہدف بنائے بغیر آبادی کو قابو میں نہیں رکھا جا سکتا۔ حکومت قوت کے استعمال سے ان مسائل پر قابو نہیں پا سکتی؛ تاہم وہ آگاہی پیدا کرنے میں کردار ادا کر سکتی ہے۔
عید کے موقع پر جب سیاسی خبروں سے قدرے نجات ملی تو سماجی مسائل نمایاں ہو کر سامنے آئے۔ واقعہ یہ ہے کہ ایسے تمام مسائل سال بھر اسی طرح تھے مگر ہم پر روزمرہ کی سیاست غالب رہی۔ ہم ان پر دھیان نہیں دے پائے۔ اب عید گزر چکی۔ شاید یہ مسائل بھی سال بھر کے لیے طاقِ نسیاں ہو جائیں۔