طیب اردوان صاحب کو جس تیزی کے ساتھ عالمی سطح پر حمایت میسر آئی، معلوم ہو تاہے، وہ اسی تیزی کے ساتھ اس حمایت کو گنوانے کے لیے بے تاب ہیں۔
پاکستان وہ ملک ہے جہاں حکومت اور عوام، دونوں حلقوں میں انہیں پسندکیا جاتا ہے۔ اب انہوں نے پاکستان جیسے دوستوں کو بھی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ وہ تمام تعلیمی اور سماجی ادارے بند کر دیے جائیں جو گولن تحریک سے وابستہ افراد کی سرپرستی میں یہاں قائم ہیں۔ میں اس شاہی حکم میں موجود بصیرت کو تلاش کر نے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ اگر کچھ دیر کے لیے یہ مان لیا جائے کہ اس تحریک سے وابستہ بعض افراد ان کے خلاف بغاوت میں شریک ہیں تو اس میں ان لوگوں کا کیا قصور جو اس سارے عمل سے بے خبر، 1995ء سے پاکستان میں تعلیمی ادارے چلا رہے ہیں؟
پاکستان میں گولن صاحب کا حلقہ سماجی سطح پر 'رومی فورم‘ کے نام سے منظم ہے۔ میں ان لوگوں سے براہ راست متعارف نہیں۔ ایک صاحب سے ایک آدھ ملاقات ہے۔ تاہم میں ان کی سرگرمیوں سے کسی حد تک واقف ہوں۔ میرے دوستوں میں چند ایسے ہیں جو رومی فورم کے مستقل شرکا میں سے ہیں۔ یہ لوگ پاکستان میں جو سرگرمیاں کرتے ہیں، وہ میرے علم کی حد تک اعلانیہ اور قانون کے مطابق ہیں۔ تاہم جن لوگوں نے اس سارے عمل کو تحقیق کا موضوع بنایا ہے، ان کا کہنا ہے کہ زیادہ گہرائی میں اتریں تو ابہام آپ کا پیچھا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر 'پاک ترک سکول‘ عوامی فلاح کا کوئی منصوبہ نہیں۔ ان کی فیس خواص کے تعلیمی ادارے سے کم نہیں۔ یہ قائم ہی شہر کے ان علاقوں میں ہیں جہاں غریب آ دمی کا گزر نہیں ہو تا۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ خدمت کا منصوبہ ہے تو عام لوگوں کے لیے کیوں نہیں ہے؟ تاہم ان کے نصاب میں جدید علوم کے ساتھ اخلاق اور کردار کی تعمیر کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے جو قابلِ تعریف ہے۔
مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ رومی فورمز کے شرکا کو مختلف طبقات میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ سب کے بارے میں مکمل معلومات رکھی جاتی ہیں اور اس بنیاد پر ان کے لیے اپنے دروازے کھولے جاتے ہیں۔ میرے ایک دوست جن کا تعلق علم کی دنیا سے ہے، وہ ان سے قریبی تعلق رکھتے ہیں۔ وہ ایک بار ترکی گئے اور انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اس تحریک کو جاننا چاہتے ہیں اور ترکی میں ان کے اداروں میں جانا چاہتے ہیں۔ ان کی اس حوالے کوئی مدد نہیں گئی۔ ایسی مثالیں اور بھی ہیں۔ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ وہ لوگوں کو یہاں سے لے جاتے اور اپنی تحریک کی مختلف سرگرمیوں سے متعارف کراتے ہیں۔ تاہم یہ سب باتیں وہ ہیں جن کی نوعیت تاثر کی ہے۔ اس کی بنیاد پر کوئی قانونی قدم اٹھایا جا سکتا ہے اور نہ کسی کو مجرم قرار دیا جا سکتا ہے۔
گولن صاحب کو مغرب کا ایجنٹ کہنا بھی آسان نہیں۔ اپنی کتب اور تعلیمات میں وہ مغرب اورعہد حاضر کے ناقد ہیں۔ اس وقت سیرت پر ان کی کتاب کا اردو ترجمہ ''نورِ سرمدی‘‘ میرے سامنے ہے۔ اس میں وہ لکھتے ہیں: ''دنیا میں کبھی کسی نے مغرب کی ایسی تقلید نہیں کی جیسی ہم نے کی ہے۔ بلکہ اب تو یہ مرض ِکہن کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ مغرب میں کسی بھی نئی چیز کا ظہور ہوتا ہے تو ہم بغیر تحقیق کے اسے قبول کر لیتے ہیں اور بسا اوقات اس معاملے میں بہت سی مغربی اقوام پر بھی سبقت لے جاتے ہیں، حالانکہ رسول اللہﷺ بہت سے فروعی اور ثانوی نوعیت کے مسائل میں بھی اہلِ کتاب کی مخالفت فرمایا کرتے تھے‘‘۔(صفحہ155)
''فتنہ اشتراکیت‘‘ کے زیرِ عنوان لکھا ہے: ''اشتراکی نظام کی بنیاد بے دینی، اباحیت اور ان تما م شیطانی مفاسد پر ہے جو نفسِ امارہ کے ذریعے دل کی ویرانی کا باعث بنتے ہیں۔ سر مایہ دارانہ نظام کی ناجائز اولاد سمجھا جانے والا اشتراکی نظام، اگر چہ اپنی زندگی کے آ خری سانس لے رہا ہے، لیکن اس کے با وجود، یہ دینی مقدسات اور تاریخی روایات کا سخت دشمن ہے اور ابھی تک ایک ہولناک خطرہ ہے۔ مجھے یقین ہے رسول اللہ ﷺ نے اسی عہد کو ''شیطانی زمانہ‘‘ قرار دیا ہے جس میں اشتراکی نظام دنیا کے ایک بڑے حصے پر غالب آ گیا تھا۔ آپ نے اپنی امت کو اس مصیبت سے پہلے ہی خبر دار کر دیاتھا‘‘۔(صفحہ147)
اس کتاب میں ایک عنوان ہے''ہیومن ازم کا فریب‘‘۔ اس کے تحت لکھا ہے: ''دورِ حاضرکے بعض رجحانات ہیومن ازم کا لبادہ اوڑھ کر انسانیت کو دھوکہ دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں میں اور ان سانپوں اور بچھوئوں میں کیا فرق ہے جوانسان کو ڈسنے کے لیے اس کے قریب آتے ہیں۔‘‘ گولن کو فری میسنز سے بھی نسبت دی جاتی ہے۔ اس کے بارے میں لکھتے ہیں: ''دیگر امور کی طرح رحمت کے بارے میں بھی افراط و تفریط پائی جاتی ہے۔ رحمت کے غلط استعمال کی سب سے بہترین مثال فری میسنز کے فکر وعمل میںدیکھی جا سکتی ہے۔ وہ محبت اور انسان دوستی کے بلند و بانگ دعووں کے باوجود کسی بھی دین دار انسان کے ساتھ محبت و الفت کے تعلقات قائم نہیں کر سکتے۔ بلکہ اگر ان کا بس چلے تو کسی بھی دین دار مسلمان کو زندہ نہ چھوڑیں۔ ان کی محبت ان کے ہم فکر لوگوں تک محدود ہو تی ہے‘‘۔ (صفحہ333)
یہ چند حوالے سر سری طور پر سامنے آگئے۔ ان خیالات کے حامل کسی آدمی کو مغرب یا امریکہ کا ایجنٹ قرار دینے کے لیے ناقابلِ تردید شواہد یا پھر بہت بڑا دل چاہیے۔ میںگولن صاحب کی صوفیانہ دینی تعبیر سے زیادہ اتفاق نہیں رکھتا لیکن یہ واضح ہے کہ جو آدمی ان کی کتابیں پڑھتا ہے، وہ مذہب بیزار ہو سکتاہے اور نہ جدید نظریات کا شکار ہوتا ہے۔ ان کے نظریات وہی ہیں جو مسلمانوں کے عمومی نظریات ہیں۔ تاہم وہ نئے ذہن کو سامنے رکھتے ہوئے،ان نظریات کوجدید اسلوب میں پیش کرتے ہیں۔ ان کے ادارے کے زیرِ اہتمام ایک دوماہی انگریزی رسالہ ''فاؤنٹین‘‘ (Fountain) نکلتاہے۔ میرے علم میں نہیں کہ کسی مسلم دعوتی ادارے یا تحریک کی طرف سے اتنا خوبصورت، دیدہ زیب اور معلومات سے بھرپور دعوتی جریدہ کبھی شائع کیا گیا ہو۔ ہر اعتبار سے یہ ایک منفرد رسالہ ہے۔ ایسی کوششوں کے بارے میں کوئی منفی رائے دیتے وقت، سو بار سوچنا چاہیے۔
علمی تنقید ایک مختلف بات ہے۔ یہ کسی کی نیت پر شک ہے نہ کسی کام کو فروتر قرار دینا ہے۔ جب ہم کسی کو دوسرے کا ایجنٹ کہتے یا اس کی نیت کو زیرِ بحث لاتے ہیں تو یہ اخلاقی مسئلہ ہے۔ اگر ہم اخلاقی طور پر حساس نہیں تو پھر اسلام کے ساتھ ہماری وابستگی کس کام کی؟ وہ تو آیا ہی اس لیے ہے کہ مجھے اخلاقی طور پر حساس بنائے۔
اردوان صاحب نے گولن صاحب کے خلاف جو رویہ اپنایا ہے، اس میں اخلاقی مسائل اپنی جگہ پر ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، اس کے سیاسی مضمرات بھی ہیں۔ ترکی میں ہزاروں ایسے ادارے بند کرنا جو عوام میں مذہب کا تہذیبی، سماجی اور روحانی شعورپیدا کر رہے ہیں، ترکی کے سماج کو تہذیبی بحران میں مبتلا کرنا ہے۔ ترکی کے معاشرے پر گولن صاحب کے غیر معمولی اثرات ہیں۔ یہ خیال کرنا کہ ریاستی قوت سے انہیں ختم کیا جا سکتا ہے، خام خیالی ہے۔ پھر پاکستان جیسے دوستوں کو ایک مشکل میں ڈالنا بھی کوئی حکیمانہ اقدام نہیں۔
نوازشریف صاحب کا اردوان صاحب سے دوستانہ تعلق ہے۔ وہ ان تک پاکستانی دوستوں کا خیر خواہانہ پیغام پہنچا ئیں کہ ہم 'گولن اردوان لڑائی‘ سے خوش نہیں ہیں اور یہ کہ ترکی اور پاکستان کے مراسم کو کسی سیاسی جماعت یا طبقے کے مفادات کے تابع نہ رکھا جائے۔ اگر پاکستان کو گولن حلقے سے کوئی شکایت نہیں اور وہ ترک حکومت کے خلاف یہاں سرگرم بھی نہیں تو ان اداروں کو بند کرنے کا بھی کوئی جواز نہیں۔