جمہوری سماج کی طرف تحریک انصاف نے اہم اور بنیادی قدم اٹھایا ہے۔ یہ کے پی میں بلدیاتی اداروں کو مالی وسائل اور اختیارات کی منتقلی کا اعلان ہے۔
ہمارے ہاں جمہوریت کا معاملہ وہی ہے جو اسلام کا ہے۔ اپنی اپنی تعبیر اور اس پر اصرار کہ یہی اسلام ہے۔ اسلام کے بر حق ہونے میں کسی کو شبہ نہیں۔ ہم نے مگر اپنے فرقے، فقہ اور کلامی مسلک کو اسلام قرار دیا اور اسی پر دروازے بند کر کے بیٹھ گئے۔ اپنے جذبات کے لیے مذہبی تعبیرات تلاش کیں اور یوں خود کو مطمئن کیا کہ ہم دین پر عمل پیرا ہیں۔ یہی کچھ جمہوریت کے ساتھ ہوا۔ جمہوریت عام آدمی کو اقتدار میں شریک کرنا ہے۔ حکمرانوں کے عزل و نصب کا حق عوام کو منتقل کرنا ہے۔ ہم نے ارتکازِ اختیار کو جمہوریت کا نام دیا۔ اس کی بد ترین مثال شریف خاندان کا اسلوب حکومت ہے۔ اختیار کا ایسا ارتکاز کہ معلوم ہوتا ہے پنجاب میں ہر کام ایک ہی شخص کے اشارۂ ابرو سے ہو سکتا ہے۔ وزیر اعلیٰ اختیارات کا محور و مرکز ہے۔ چند بیورو کریسی کے کارندے ہیں جو ان کے اعضا وجوارح ہیں۔ اب وہ کام جو ایک ایس ایچ او کو کرنا چاہیے، وہ بھی وزیر اعلیٰ کے نوٹس پر ہوتا ہے۔ حوالدار سڑک پر عام شہری سے بد تمیزی کرے تو مقامی پولیس افسر نہیں ، وزیر اعلیٰ متحر ک ہوتا ہے۔ اسے وہ 'گڈ گورننس‘ کہتے ہیں، حالانکہ یہ نظام کی نا اہلی اور مردہ ہونے کا اعلان عام ہے۔ اگر ہرایس ایچ او، ہسپتال کا ہر ایم ایس اپنا کام صحیح کر رہا ہے تو وزیراعلیٰ کو چین کی نیند سونا چاہیے۔ وزیراعلیٰ کی بے چینی بتا رہی ہے کہ نظام کام نہیں کر رہا۔
کچھ ایسا ہی معاملہ بلدیاتی اداروں کا ہے۔ پہلے تو کوئی انتخابات ہی کے لیے تیار نہیں تھا۔ حیلہ سازیاں تھیں اور بہانے تھے۔عدالت عظمیٰ کے حکم پر مجبوراً یہ قدم اٹھانا پڑا۔ اب پنجاب میں لوگ منتخب ہو چکے لیکن نہیں جانتے کہ فرائض کیاہیں اور اختیارات کیا ۔ اختیارات ان کے حوالے کیے جا رہے ہیں اور نہ وسائل۔ ایک فرد کی صواب دید ہے، وہ جس کو چاہے نواز دے۔'سوشل پالیسی اینڈ ڈیویلپمنٹ سنٹر‘ کی رپورٹ (2014-15 )یہ کہتی ہے کہ لاہور زیادہ ترقی یافتہ( over developed) شہر ہے۔ پنجاب کا مطلب آدھے سے زیادہ پاکستان ہے۔ اگر ایک صوبے کی اکثریت بنیادی سہولتوں سے محروم ہو اور اس کا ایک شہر ضرورت سے زیادہ ترقی یافتہ ہو جائے تو لوگوں میں بے چینی پیدا ہوتی ہے، جسے بے جواز نہیں کہا جا سکتا ہے۔ اس کا علاج وسائل اور اختیارا ت کو نچلی سطح تک پہنچانا ہے۔ افسوس کہ شریف خاندان کو یہ جمہوریت زیادہ پسند نہیں۔
اس کے برخلاف کے پی میں تحریک انصاف نے اختیارات اور وسائل کی نچلی سطح تک منتقلی کی طرف ایک قدم اٹھایا ہے جو لائق تحسین ہے۔ ابھی اعلان ہوا ہے، عمل باقی ہے۔ میں حسن ظن رکھتا ہوں کہ انشااﷲ اس پر عمل بھی ہو گا۔ صوبے میں اگر اختیارات نچلی سطح تک منتقل ہوں گے تو اس سے جمہوریت مضبوط ہو گی۔ مو جودہ نظام میںعوامی نمائندگی کم و بیش گیارہ سو ارکانِ اسمبلی تک محدود ہیں۔پنجاب اور مرکزمیں ان کا اختیار بھی عملاً ایک خاندان کے پاس ہے یا ان کے بعض قریبی رفقاء کے ہاتھ میں۔ اگر ہم انہیں ہزاروں لوگوں تک پھیلا دیں تو اس ملک میں صحیح معنوں میں جمہوریت مضبوط ہو گی اور اسے پھر کسی طالع آزما سے کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔
مشرف آمر مطلق تھے۔ انہیں اس بات کا کریڈٹ بہرحال ملنا چاہیے کہ انہوں نے ضلعی حکومتوں کا ایک اچھا نظام تجویز کیا۔ اس سے اختیارات کی مرکزیت کا خاتمہ ہوا تھا اور طاقت کے مراکز کی تعداد بڑھ گئی تھی۔ اگر کچھ اور انتظامی اصلاحات کرتے ہوئے صوبوںکی تعداد بڑھا دی جائے تو میرا خیال ہے اس سے بھی جمہوریت مضبوط ہو گی۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ صوبوں کے بڑھانے کی تجویز بھی ایک دوسرے آمر ضیاء الحق کے عہد میں سامنے آئی، جب انصاری کمیشن بنا تھا اور اس میں صوبوں کی تعداد بڑھانے کے لیے کہا گیا تھا۔جمہوریت کی کامیابی کا انحصار دو باتوں پر ہے:حقیقی پارلیمانی نظام جس میں پارلیمنٹ مرکزی سطح پر فیصلوں میں خود مختارہو اور مضبوط بلدیاتی نظام، جس میں عام آ دمی کی شرکت ہو۔
پاکستان میں جمہوریت کو اگر مضبوط ہونا ہے تو اسے بہت سی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ یہ اصلاحات محض سرخی پاؤڈر (cosmetics) کی سطح پر نہیں ہونی چاہیں۔ اس کے لیے نظام میں بہتری چاہیے جن میں سے ایک بلدیاتی نظام کو مضبوط بنانا ہے۔ جس طرح وقت کے ساتھ ساتھ آمریت متروک ہو رہی ہے، اسی طرح جمہوریت کے قدیم ماڈل بھی قصہ ٔ پارینہ بنتے جا رہے ہیں جن میں عوامی ووٹوں کی بنیاد پر اختیارات کے ارتکاز کو جائز سمجھا جاتا تھا۔
2013ء میں عوامی مینڈیٹ جس طرح منقسم ہو کر سامنے آیا ہے، اس نے ساری جماعتوں کے لیے یہ موقع پیدا کر دیا تھا کہ وہ جمہوری اصلاحات کے عمل کو آگے بڑھائے۔ افسوس کہ تین سال ایک غیر ضروری اور غیر تعمیری کشمکش میں برباد کر دیے گئے۔ میرا خیال ہے کہ تحریک انصاف کو اب خیال آیا ہے کہ ان کا اصل کام کے پی میں ایک متبادل نظام کو مجسم کرنا تھا۔ ہم جیسے خیر خواہوں نے تو بروقت توجہ دلائی اور گالیاں کھائیں۔ مجھے خوشی ہوگی اگر اب بھی بصیرت غالب ہو اور ہیجان مغلوب ہو۔آج یہ نظام بہتری کی طرف بڑھ رہا ہے۔اپوزیشن کی مشاورت سے الیکشن کمیشن کے ارکان کا تقرر ہوا ہے۔انتخابی اصلاحات کے لیے ایک پارلیمانی کمیٹی مو جو دہے ، ارکان چاہیں تو اسے زیادہ متحرک کیا جا سکتا ہے۔
اہلِ سیاست اور عوام پر البتہ یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ جمہوریت میں اصلاح تب ہی ممکن ہے جب جمہوری نظام باقی ہے۔ اگر اہلِ سیاست مارشل لا کی آمد پر مٹھائیاں بٹنے کی ''خوشخبری‘‘ سنائیں گے تو اپنے پاؤں پر وہ کلہاڑی ماریں گے ہی، اس کے ساتھ اس عمل کو معکوس کر دیں گے جو اﷲ کا شکر ہے درست سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔ ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں کہ جمہوری عمل تسلسل کے ساتھ جاری رہے۔ عوام ہی فیصلہ کریں اور وہی محتسب بھی ہوں۔ تحریکِ انصاف جو کہنا چاہتی ہے،اس کے لیے میڈیا ایک مؤثر فورم موجود ہے ، پارلیمنٹ بھی ہے اور اس نظام کے تحت دوسرے ادارے بھی۔ اگر2018ء تک وہ احتجاج کے بجائے ان اداروں کی معرفت سے اپنی بات لوگوں تک پہنچائے اور کے پی میں وہ اصلاحات کم از کم متعارف ہی کرا دے جن کی وہ بات کر رہی ہے تو اس سے جمہوریت کو تقویت ملے گی اور ملک بہتری کی سمت آگے بڑھے گا۔
یہ وقت کسی تحریک، دھرنے یا احتجاج کے لیے کسی طور مناسب نہیں۔پاکستان کو اس طرح آگے بڑھنا ہے کہ اسے کچھ گنوانا نہ پڑے۔اگر کے پی میں بلدیاتی نظام کامیاب ہوتاہے تو یہ نظام کی کامیابی ہو گی۔ تین سال تک ہیجان نے جو کرنا تھا کر دیا۔ اب بصیرت کو موقع دینا چاہیے۔کیا حرج ہے اگر دو سال عقل سے فیصلے کر کے دیکھ لیا جائے؟تین سال کے نتائج تحریک انصاف کے سامنے ہیں۔ ایک عمر رائیگاں کے ماتم کے سوااس کے دامن میںکیاہے؟ مجھے یقین ہے کہ اگر اب عمران خان اپنی باگ ہیجان اور جنون کے بجائے بصیرت اور عقل کے ہاتھ میں دے دیں تو اس میں ان کا بھلا ہوگا اور ملک کا بھی۔