ایک حادثہ ہے جو دل پر گزر گیا۔
اگر آپ کا خیال ہے کہ میں سانحہ کوئٹہ کی بات کر رہا ہوں تو آپ کا یہ خیال درست نہیں۔ میں اُس حادثے کی بات کر رہا ہوں جو اس کے بعد ہوا۔ یہ حادثہ کبھی منیر نیازی کے ساتھ بھی ہوا تھا۔ اپنی کیفیت کو دیکھتا ہوں تو انہیں یاد کرتا ہوں۔ ؎
وہ بے بسی ہے مسلسل شکستِ دل سے منیر
کوئی بچھڑ کے چلا جائے غم نہیں ہوتا
8 اگست کا دن معمول کے کاموں میں گزر گیا۔ خبر سنی تو دکھ ہوا مگر یہ دیرپا نہ تھا۔ رسماً افسوس کے چند جملے کہے۔ پھر انہی کاموں کی طرف لوٹ گیا جو پہلے سے طے تھے۔ یہ دکھ شبنم کے چند قطرے تھے جنہیں حالات کی دھوپ اپنے ساتھ لے گئی۔ پھر وہی معمول کا کھانا پینا، ہنسنا بولنا، خریداری، کل کی منصوبہ بندی۔ رات آئی تو نیند بھی ساتھ لائی۔ اگلے دن جاگا تو حسب معمول تازہ اخبار ملا، بعد میں ناشتہ بھی پسند کا۔ 'کوئٹہ میں ستر بے گناہ مارے گئے‘... نیا دن چڑھا تو میرے لیے یہ خبر اخبار کی ایک سرخی سے زیادہ اہم نہیں تھی۔ کیا میں بے حس ہو گیا ہوں؟ کیا میرے جذبات مردہ ہو چکے؟ کیا زندگی اور موت میں کوئی فرق ہے؟ پھر خیال آیا: کیا یہ حادثہ صرف میرے ساتھ گزرا ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے نکلا تو چونک اٹھا۔ معلوم ہوا یہ حادثہ پوری قوم کے ساتھ گزر گیا۔ بنی اسرائیل کی تاریخ سے اٹھا انتظار حسین کا افسانہ یاد آیا جب بستی کی سب مکینوں کی صورتیں بدل گئی تھیں۔
رات ٹیلی وژن سکرین پر اپنے ملک کے دانش وروں کو بولتے دیکھا۔ وہ آج بھی وزیر اعظم کو بُرا بھلا کہنا نہیں بھولے۔
گھنٹہ بھر یہی ثابت کرتے رہے کہ پاکستان کا منتخب وزیر اعظم بھارت کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے۔ وہی نہیں اس کے وزرا بھی اور بالخصوص وزیر اطلاعات۔ ٹیلی وژن چینلز شوخ اور چنچل اشتہارات دکھانا بھی نہیں بھولے جن میں بھارتی اداکارائیں اپنے جلوے بکھیرتی ہیں۔ پروگراموں کے میزبان کو معلوم تھا کہ مہمانوں کی بات ادھوری رہتی ہے تو رہے، اشتہار کے وقت میں کمی نہیں آنی چاہیے۔ جس نے مذہب کو برا بھلا کہنا تھا، اسے بھی یاد تھا کہ اس نے کیا کہنا ہے۔ جمہوریت کے بھی خوب لتے لیے گئے۔ ''اس جمہوریت کو سو سلام جو لوگوں کے جان و مال کا تحفظ نہ دے سکے‘‘۔ اور ہاں جس نے جس کی تحسین کرنا تھی، وہ بھی اسے یاد رہا۔ آخر ایک سنہرا موقع ہاتھ لگا ہے تو اسے کیوںگنوایا جائے۔ یہی موقع ہے جب ثابت کرنا ہے کہ قیادت کا اہل، سیاست کے ایوانوں میں نہیں، کہیں اور بیٹھا ہے۔ ایک دانش مند کو آرمی چیف کی آنکھوں میں اداسی نظر آئی اور نواز شریف کے چہرے پر بے حسی۔ اس نے خبر دی: 'سارے ملک میں آپریشن کا فیصلہ ہو گیاہے۔ اب یہ آپریشن پنجاب میں بھی ہو گا‘۔ اس نے یہ نہیں بتایا کہ کہاں فیصلہ ہوا ہے۔ آخر سننے والوں کی ذہانت پر اعتبار بھی کوئی چیز ہے!
بات یہاں تمام نہیں ہوئی۔ گھر پہنچا تو اہل خانہ نے بازار کا راستہ دکھا دیا۔ سبزی فروش پہلے کی طرح جھوٹی قسمیں اٹھا رہا ہے۔ دکان دار کے چہرے پر ناجائز منافع خوری میں اٹی مسکراہٹ ہے جو میں برسوں سے دیکھ رہا ہوں۔ معلوم ہوا کہ گلیوں کی صفائی کرنے والا، حسب معمول آج بھی نہیں آیا۔ اور ہاں سٹریٹ کرائم جاری ہیں۔ آج ہی گلی میں محلے کی ایک خاتون کو لوٹ لیا گیا۔ پتا یہ چلا کہ بے حسی کی چادر ہے جو سب نے اوڑھ رکھی ہے۔ یہ قصہ صرف منیر نیازی کا یا میرا نہیں۔ ہم سب ایک ہی کیفیت میں ہیں۔ کیا اہل سیاست، کیا اہل دانش۔ کیا صحافی، کیا علما۔ کیا دکان دار‘ کیا سرکاری ملازم۔ کوئٹہ میں آنسو ہیں۔ سسکیاں ہیں، لاشیں ہیں، بربادیاں ہیں لیکن ہوتی
رہیں۔ مجھے ان سے کیا یا کسی دوسرے کو کیا؟
اس باب میں تو دو آرا نہیں کہ ریاست اگر شہریوں کو جان اور مال کا تحفظ نہیں دیتی تو اس کا وجود بے معنی ہے۔ ریاست مگر کس کا نام ہے؟ کیا صرف وزیر اعظم ریاست ہے؟ کیا صرف کابینہ ریاست ہے؟ کیا عدلیہ اس کا حصہ نہیں؟ کیا انتظامیہ بھی اس میں شامل ہے؟ کیا ہم فوج کو بھی ریاست کا حصہ مانتے ہیں؟ میڈیا کون ہے؟ ریاستی ادارہ ہے یا غیر ریاستی؟ یہاں تشریف فرما اپنی بولی بولتے ہیں یا کسی اور کی؟ ہمیں ریاست ہی کو ذمہ دارٹھہرانا چاہیے مگر پہلے یہ بھی تو معلوم ہو کہ ریاست کس چڑیا کا نام ہے۔
ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ضربِ عضب سے دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ گئی۔ مان لیا مگر یہ بھی تو بتائیں کہ یہ آپریشن کس نے کیا؟ یہ ریاست تھی یا کوئی اور؟ اس میں لوگوں نے جانیں دیں۔ اس میں بہت سا پیسہ خرچ ہوا؟ یہ جانیں دینے والے کسی ریاستی ادارے سے تھے یا کہیں باہر سے آئے؟ یہ جو پیسہ خرچ ہوا، یہ کہاں سے آیا؟ کس نے اس کی منظوری دی؟ کراچی میں بھی کہتے ہیں کہ اسی فی صد جرائم ختم ہو گئے؟ اگر یہ کارنامہ رینجرز نے انجام دیا تو کیا اس ادارے کا ریاست سے کوئی تعلق ہے؟ یہ چوہدری نثار جو ہر روز رینجرز کا مقدمہ لڑتے ہیں، یہ کون ہیں؟ وزیر داخلہ کیا ریاست کا حصہ ہوتا ہے؟
لوگ ان سوالات کے جواب جانتے ہیں مگر بتانے سے گریزاں ہیں۔ دراصل وہ ریاست کو ایک ماننے کے لیے تیار نہیں۔ وہ اسے دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ فوج اور سول ادارے۔ اگر ریاست سے کوئی خیر وابستہ ہے تو اس کا تعلق اوّل الذکر سے ہے۔ اگر شر ہے تو سارے کا سارا آخرالذکر کا کیا دھرا ہے۔ اس تقسیم پر جب ضیاالحق صاحب اور پرویز مشرف صاحب کے ادوار کے با رے میں سوال اٹھایا جاتا ہے‘ جب سول اور ملٹری تقسیم ممکن نہیں تھی تو ایک نئی تقسیم سامنے آتی ہے۔ یہ فرد اور ادارے کے درمیان ہوتی ہے۔ یہ تقسیم در تقسیم کا سلسلہ ختم نہیں ہو گا جب تک ہم ریاست کو ایک وجود مان کر نہیں دیتے۔
سادہ سی بات یہی ہے کہ ریاست کے اداروں میں ہم آہنگی نہیں ہے۔ یہ آج کی نہیں، پرانی بات ہے۔ اس باب میں ایک مقدمہ ہے جو مولانا محمد خان شیرانی نے قومی اسمبلی میں پیش کیا۔ یہ خود اس کا اظہار ہے کہ یہ معاملہ دراصل کیا ہے۔ اس کشمکش میں عام آدمی اس گھاس کی طرح ہے جو ہاتھیوں کی لڑائی میں، قدموں میں روند دی جاتی ہے۔ یہ عمل اگر مسلسل جاری رہے تو ایک بے حسی پیدا ہو جاتی ہے۔ ہر حادثے کو اسی تقسیم کے زاویے سے دیکھا جاتا ہے جس میں آج یہ ملک مبتلا ہے۔ بات سادہ ہے۔ ریاست اگر ایک وجود کا نام ہے۔ اگر اس کا مقصد بھی متعین ہے تو پھر اختلاف کس بات کا ہے؟ کیا سب مل کر اپنے شہریوں کے جان و مال کا تحفظ نہیں کر سکتے؟ ہمیںاس بات کو اب ہمیشہ کے لیے طے کرنا ہو گا۔ ریاست کو ایک وجود کے طور پر زندہ رہنا ہے یا ہم نے ریاست کے اندر اپنی اپنی ریاستیں قائم کرنا ہیں؟ وہ ریاست جس کی پہلی اینٹ افراد یا گروہوں کا اپنا اپنا مفاد ہے۔
بے حسی ایک خطرناک رجحان ہے۔ یہ معاشروں سے جینے کا ہنر چھین لیتی ہے۔ پھر کوئی حادثہ، حادثہ نہیں رہتا۔ موت اور زندگی کے تصورات بے معنی ہو جاتے ہیں۔ کوئٹہ میں انسان نہیں مرے، مجھے لگتا ہے انسانیت مر گئی ہے۔ اگر کوئی نہیں بدلا، سب اپنے اپنے ایجنڈے پر کھڑے ہیں تو مان لیجیے، قوم میں بھی زندگی کے آثار باقی نہیں۔ مجھے اس کے لیے اب دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔ میرا وجود سراپا دلیل ہے۔ میری بے حسی اس کی گواہ ہے۔