ایم کیو ایم کی مذمت بہت ہوچکی۔ہونی چاہیے تھی کہ اِن حرکتوں کے بعد پھولوں کے ہار نہیں پہنائے جاسکتے۔اس ساری بحث میں مگر ریاست کا ذکر کہیں نہیں ہے۔بات اچانک یہاں تک نہیں پہنچی۔یہ برسوں کا سفر ہے۔ کیا یہ سب کچھ خلا میں ہوا؟ اگر برسرِ زمین ہوا تو ریاست کہاں تھی؟
ہماری ریاست کا معاملہ عجیب ہے۔ اس کے سامنے ایک مسئلہ جنم لیتا ہے۔بعض واقعات میں تو والدین کے خانے میں ریاست ہی نام لکھا ہوتا ہے۔وہ اسے پالتی پوستی، نشوو نما دیتی، جوان کرتی اور بیاہنے کے لائق بنادیتی ہے۔پھر اس کے بچے ہوتے اور ملک کے کوچہ و بازار میں پھیل جاتے ہیں۔وہ اس کے طول و عرض میں فساد برپا کر دیتے ہیں۔اس کے بعدریاست کو خیال آتا ہے کہ جس بچے کو اس چاہ سے پالا پوسا گیا،یہ توایک'مسئلہ‘ تھا۔ اب اسے ختم کر نے کا منصوبہ بنایا جا تا ہے۔منصوبہ ساز یہ بھول جاتے ہیں کہ اب وہ صرف ایک بچہ نہیں ہے، صاحبِ اولاد ہو چکا۔یہی نہیں اس کی تو نسلیں ہیں جو پھیل چکیں۔اس موقع پر ریاست حسبِ عادت حب الوطنی کا ہتھیار استعمال کرتی ہے۔سیاسی اور عمرانی حرکیات سے ناآشنا،اس کی آواز میں آواز ملاتے اور پھر ریاست کو ایک نئے بحران کے دروازے پر لا کھڑا کرتے ہیں۔
مثالیں بہت ہیں۔ ایک کا ذکر کرتا ہوں جو ریاست کا 'صدقہ جاریہ‘ ہے۔1979ء میں ریاست نے فیصلہ کیا کہ اس نے دفاعِ پاکستان کی جنگ افغانستان میں لڑنی ہے۔ مقدمہ یہ تھا کہ سوویت یونین کو افغانستان سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ اس کی منزل پاکستان کی سرزمین پر بہنے والا گرم پانی ہے۔ ہمیں اسے افغانستان ہی میں روکنا ہوگا۔ امریکہ اس پیش رفت کواپنے مفادکی نظر سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے پاکستان سے ہاتھ ملایا۔ ہماری ریاست کا دعویٰ تھا کہ اس جنگ کی قیادت اس کے ہاتھ میں ہے۔ سی آئی اے، آئی ایس آئی کے امامت میں کام کر رہی ہے۔ ریاست نے خود ہی پاک افغان سرحد کوبے معنی بنا دیا۔ دروازے افغان مہاجرین اور پاکستانی مجاہدین کے لیے کھول دیے گئے۔ ریاست نے ان مہاجرین کو پورے ملک میں پھیلادیا۔ وہ کیمپوں تک محدود نہیں رہے۔ انہوں نے اپنے مزاج کے مطابق کاروبار شروع کیا اور واقعہ ہے کہ جس میدان میں قدم رکھا، مقامی لوگوں کو بے دخل کر دیا۔کسی سازش کی وجہ سے نہیں، اپنی محنت اور افتادِ طبع کے باعث۔
ریاست اس سارے عمل میں معاون تھی۔ انہیں شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بناکر دیے گئے۔ ان کو خود ریاست نے پاکستانی شناخت دی۔ لوگ واویلا کرتے رہے کہ دور رس نتائج کے اعتبار سے یہ تباہ کن اقدام ہے۔ ریاست نے مان کر نہیں دیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 1986ء کے بعد، جب میں اسلام آباد کے ایک کالج میں زیرِ تعلیم تھا، اسلام آباد میں پبلک ٹرانسپورٹ پر افغانیوں کا قبضہ تھا۔ آئے دن ان کے مقامی ٹرانسپورٹرز سے جھگڑے ہوتے۔انہی دنوں اسلام آباد میں مکانوں کے کرائے ایک دم بہت بڑھ گئے۔ سب یہ کہتے تھے کہ یہ افغانوں کی وجہ سے ہے۔ یہ سارا عمل بڑے پیمانے پر خیبر پختون خوا کے ساتھ پنجاب میں ہو رہا تھا اور بلوچستان، کراچی میں بھی۔ یہ سب ریاست کے سامنے تھا۔ عملاً پاکستان اور افغانستان ایک ملک بن چکے تھے۔ کوئی سرحد تھی نہ کوئی قانون اورضابطہ۔ لوگ متوجہ کرتے رہے مگر ریاست کا خیال تھا کہ وہ عقلِ کل ہے۔ اسے مشورے کی ضرورت نہیں۔
سادہ سی بات تھی کہ اگر افغانوں کی مدد ہی کرنا تھی تو ایران کی طرح انہیں کیمپوں تک محدود کیا جاتا۔ ان کا ریکارڈ رکھا جاتا۔ ایسا نہیں ہوا۔ انہیں پورے ملک میں پھیلا دیا گیا۔ اٹک جیسے شہر میں آج بھی بہت سی مساجد کے امام افغان ہیں۔ وہ اتنے طاقت ور ہیں کہ مقامی آبادی کو یہ ہمت نہیں کہ انہیں ہٹا سکے۔ یہی معاملہ کاروبار کا ہے۔ ابھی قربانی کے دن آ رہے ہیں۔ ان دنوں میں پورا شہر افغانستان کے شہر کا منظر پیش کر رہا ہوتا ہے۔ قربانی کی جانوروں کی خریدو فروخت سے لے کر کھالوں کے کاروبارتک، ان کا قبضہ ہوتا ہے۔ یہ سب ریاست کی موجودگی میں، بلکہ اس کی سرپرستی میں پروان چڑھا۔ آج جب اس مسئلے کے انڈے بچے پورے ملک میں پھیل چکے تو ریاست سرحد بند کر نا چاہتی ہے۔ افغانوں کو واپس بھیجنا چاہتی ہے۔ آج سب ریاست کی ہم نوائی میں افغانوں کی مذمت میں یک زبان ہیں۔کوئی
یہ سوال نہیں اٹھاتا کہ ریاست اس سارے عرصے میں کہاں تھی؟ برسوں سے جاری خرابیوں کا ازالہ پل بھر میں تو نہیں ہو سکتا۔
ایم کیو ایم کا معاملہ بھی 'افغان مہاجرین‘ سے مختلف نہیں ہے۔ اس کو ریاست نے وجود بخشا۔ سماج میں اس کے لیے حالات سازگار تھے۔ جنرل ضیاالحق پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی سمیت قومی سیاسی جماعتوں کو کمزورکرنا چاہتے تھے۔ قومی سیاسی جماعتوں کو ہر آ مر اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔ ضیاالحق صاحب نے کبھی علما کی مدد سے سیاسی جماعتوں کو غیر اسلامی قرار دلوانے کی کوشش کی،کبھی غیر جماعتی انتخابات سے انہیں کمزور کر نا چاہا، کبھی علاقائی اور لسانی جماعتیں بنا کر ان کی کمر توڑنا چاہی۔ جب ایم کیو ایم بن گئی تو حسبِ روایت اس نے کل پرزے نکالنا شروع کر دیے۔ اب ظاہر ہے کہ اس کے ساتھ معاملہ کرنا آسان نہیں تھا کہ وہ ایک سیاسی عصبیت میں ڈھل چکی تھی۔
ضیاالحق مرحوم کے بعد یہ جنرل پرویزمشرف تھے جنہوں نے ایم کیو ایم کو مضبوط بنایا۔ انہوں نے بھی اس جماعت سے وہی کام لیا جو ضیاالحق صاحب نے لیا تھا۔ مشرف صاحب نے قومی سیاسی جماعتوں کے توڑ کے لیے لسانی عصبیت کو استعمال کیا۔ حکیم محمد سعید اور محمد صلاح الدین جیسے پاک طینت افراد کو قتل کیا گیا مگر ریاست نے اسے گوارا کیا۔ الطاف حسین صاحب کی 2004 ء کی تقریر جس کا آج بہت حوالہ دیا جاتا ہے، مشرف صاحب کے دور میں بھارت میںکی گئی۔ ریاست نے اُس موقع پر خاموشی کی چادر اوڑھے رکھی۔ 12مئی کا واقعہ تھا تو ریاست کی بے حسی کا المناک مظاہرہ تھا۔ یہ سب ہوتا رہا اور ریاست نے کسی ردِ عمل کا اظہار نہیں کیا۔ آج کہا جاتا ہے کہ نوازشریف نے اتنے مجرم چھوڑ دیے۔ جب ریاست خود مجرم پالتی ہے تو انہیں'چھوڑنے‘ کاکام بھی اسی کو کرنا ہوتا ہے۔
ایک وقت تھا جب سیاسی عصبیت جرم میں ڈھل رہی تھی۔ اس وقت ریاست کو بروئے کار آنا چاہتے تھا۔ جب جرم اور عصبیت جمع ہو جاتے ہیں تو پھر ان کو الگ کرنا آسان نہیں ہوتا۔ ریاست نے ایم کیو ایم کے معاملے میں اپنا کردار ادا نہیں کیا، بلکہ جرم کی پیدائش میں معاونت کی۔ اسے جوان ہوتے دیکھا۔ اس کے انڈے بچے جب پھیل گئے تب بھی ریاست خاموش رہی۔ الطاف حسین نے اب جو کچھ کہا، اسے غائبانہ مدد سمجھنی چاہیے۔ یہ تاریخ کا ایک مابعد الطبیعیاتی عمل ہے، ورنہ ریاست کا معاملہ اب بھی سنجیدہ نہیں تھا۔
مجھے دکھائی یہ دیتا ہے کہ معاملات اب بھی درست سمت میں آگے نہیں بڑھ رہے۔ رینجرز نے فاروق ستار کے ساتھ جس طرح معاملہ کیا، اس نے الطاف حسین کی تقریر کے منفی تاثر کو کم کیا۔ یہ سیاسی حرکیات اور انسانی نفسیات سے ناواقفیت کا المناک مظاہرہ تھا۔ اُس دن مجھے اس بات کی بہت ضرورت محسوس ہوئی کہ ریاستی اداروں کے اہل کاروں کے لیے عمرانیات، سماجی نفسیات اور تاریخ کا مطالعہ کتنا اہم ہے۔ ریاست کی قوت اگر اداروں کے جذبات کی تسکین کے لیے استعمال ہونے لگے تو اس کے نتائج تباہ کن ہو سکتے ہیں۔ اس کو سمجھنے کے لیے لازم ہے کہ سقوطِ ڈھاکہ کے واقعے کو ریاستی اداروں کے تربیتی نصاب کا حصہ بنا دیا جائے۔
ایم کیو ایم اب الطاف حسین کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔ یہ عمل اپنے فطری انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ لیکن اس نے پاکستان کے وجود پر جو زخم لگائے ہیںانہیں مندمل ہونے میں بہت وقت لگے گا، بالکل اُسی طرح جیسے افغان جنگ کے لگائے زخموں سے آج تک خون رس رہا ہے۔ اس میں پوری قوم بالخصوص ریاست کے لیے عبرت کا بے پناہ سامان ہے۔ کوئی ہے جوغور کرے؟