چند منٹ پہلے ٹی وی سکرین پر ایک منظر دیکھا۔ اتوار کی صبح ہے اور کراچی شہر کے مکین اپنے گھروں سے بڑی تعداد میں نکلے ہیں۔ ناشتے کے مقامات پر ہجوم ہے۔ خوش رنگ و خوش طبع لوگ جمع ہیں۔ زندہ دلی ہے کہ چہروں سے جھلک رہی ہے۔ 'کیسا زندگی سے بھرپور ہے یہ شہر! الطاف حسین اور ان کے حواریوں نے اسے کیابنادیا‘؟ دل لہو سے بھر گیا۔ یہ گروہ اگر اس شہر اور اس کے مکینوں کو اپنا سمجھتا تو کیا ان کے ساتھ یہی سلوک کرتا؟ اپنے زندگی دیتے ہیں یا چھینتے ہیں؟ مو لانا مودودی نے یہ جملہ کسی اور تناظر میں کہا تھا مگر یہ ہر تناظر میں ایک سچائی کی گواہی دیتا ہے: جب باڑ خود ہی کھیت کو کھانے لگے تو اُس کھیت کوکون بچاسکتا ہے؟
مہاجر اب کیا کریں؟ کس پر اعتبار کریں؟ اپنے زخم لگائیں تواس حادثے کا پہلا ہدف 'اعتبار‘ بنتا ہے۔ سب سے اعتبار اٹھ جا تا ہے۔ دل ٹوٹ جا تاہے۔ آ دمی تنہائی میںپناہ لیتا اور ہر کسی کو شک کی نظر سے دیکھتا ہے۔ جس کے نام پر کبھی دل ونگاہ میں چراغ جل اٹھتے تھے، اگر وہ امید کا ہر دیا بجھا ڈالے توآدمی کہاں جائے؟ کراچی مگر ایک مختلف شہر ہے۔ اس کے مکینوں کو قدرت نے جینے کا عجیب ذوق دیا ہے۔ زندگی نے انہیںغموں کی برسات میں خوشی کے چراغ جلانے کا حوصلہ بخشا ہے۔ وہ موسلا دھار بارش میں بھی اسے بجھنے نہیں دیتے۔ تھوڑی دیر پہلے، جب میں نے انہیں ٹی وی سکرین پر دیکھا تویہ تاثر مزیدپختہ ہوا۔
کبھی خیال ہوتا ہے کہ یہ شہر مہاجر نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے آباد کیا گیا ہے۔ عالم کے پروردگار ہی جانتا ہے کہ غیب کے پردے میں کیا ہے؟ کراچی جب بسنے لگا ہوگا تو اس کی فضائوں میں وہ مرہم بکھیر دیا گیا ہوگا جو ہجرت کے زخموں کو بھر سکے۔ یہاں کی ہواؤں میں محبت کی وہ خوشبو رکھ دی گئی ہوگی جو ہر سانس کے ساتھ لوگوںکواپنائیت کا احساس دلا تی رہے۔ اگر یہ سب نہ ہوتا تو کیسے ممکن تھا کہ جو کہیں سے بھی آیا، اس شہر میں دل لگا بیٹھا۔ یہاں یوپی اور بہار ہی سے مہاجر نہیں آئے، پاکستان بننے کے بعد ملک کے طول و عرض سے بھی لوگوں نے اس شہر کا رخ کیا۔ یہ پاکستان میں پختونوں کا سب سے بڑا شہر بن گیا۔
اس شہر میں ایسا اپناپن تو تھا جس نے اجنبیت کی کوئی دیوارکھڑی نہیں ہونے دی۔ جو آتا گیا،کراچی اسے اپنے رنگ میں رنگتا گیا۔ وہ مہاجر ہو یا پختون، سندھی ہو یا پنجابی،اگر کراچی میں رہتا ہے تو اس کا اپنا رنگ ہے۔ یہ پنجاب یا سندھ کا نہیں، کراچی کا رنگ ہے جو سب میں دکھائی دیتاہے۔ میں اگر کہوں کہ یہ ہجرت کا رنگ ہے تو شاید اس میں مبالغہ نہ ہو۔ ہجرت ایک بڑا حادثہ ہے۔ جو اِس کا دکھ سہہ لیتا ہے، اس میں ہر غم اٹھانے کا حوصلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اللہ نے اپنے آ خری رسولﷺ کے صحابہ کو جہاد کا اذن دیا تو اس کی پہلی وجہ یہ بتائی کہ انہیں اپنے گھروں سے نکالا گیا۔ معلوم ہوا کہ یہ معمولی حادثہ نہیں جو کسی پر گزر جائے۔ کوئی قوم اس تجربے سے گزرے تو اس ظلم کے خلاف تلوار بھی اٹھا سکتی ہے۔
اپنے سے اعتبار اٹھنے کے باوجود کراچی کے مکینوں میں یہ حوصلہ ہے کہ وہ ایک بار پھر نئے عزمِ سفر کے ساتھ نکلیں۔ نئے سرے سے اپنی صف بندی کریں۔ اپنے وجود کو ایک بار پھر سمیٹیں اور سوچیں کہ اب انہیں کیا کر نا ہے۔ ان کے سامنے تین راستے ہیں۔ ایک یہ کہ اِسی ایم کیو ایم کی تطہیر کریں۔ اسے جرم کے ہر نشان سے پاک کردیں۔ جرم کے خلاف قانون کے ساتھ کھڑے ہو جائیں۔ خود مشکوک افراد کی نشان دہی کریں۔ اسے شعوری طورپر قبول کریں کہ ایم کیو ایم پر ایک جرائم پیشہ طبقے کا قبضہ تھا اور اب ہم نے اسے آزاد کرانا ہے۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ مہاجر کسی نئے نام سے،کسی نئی قیادت کے تحت خود کومنظم کریں۔ تیسرا راستہ یہ ہے کہ وہ ایک بار قومی جماعتوں کا رخ کریں اور قومی دھارے میں شامل ہو جائیں۔
پہلا راستہ ممکن ہے۔ فاروق ستارصاحب نے ایک قدم اٹھایا ہے۔ اس سفر میں ان کی حو صلہ افزائی کر نا چا ہیے۔ مگر انہیں واپسی کا ایک لمبا سفر طے کرنا ہوگا۔ یہ ممکن نہیں کہ وہ ایم کیو ایم کے اندرونی حالات سے واقف نہ ہوں، انہیں'را‘ کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کا اندازہ نہ ہو۔ اگر یہ تعلق حقیقت ہے تو وہ لازماً جانتے ہوں گے کہ کون لوگ 'را‘ سے رابطے میں رہتے تھے اور اس کی صورت کیا تھی۔ اسی طرح کراچی سے بھتہ لینے میں کون ملوث تھا؟ اگر وہ ان معاملات میں قانون سے تعاون کریں تو یہ شہر کی ایک بڑی خدمت ہوگی۔ یہ ان کی ماضی کی غلطیوں کی تلافی ہوگی۔ وہ اپنی ذات میں بھی تطہیر کے عمل سے گزریں گے اور اس کے ساتھ شہرکو جرم سے پاک کرنے میں معاون ہوں گے۔ وہ اگر ایسا نہیں کرتے تو ان کا کردار ہمیشہ مشکوک رہے گا اور وہ مہاجروں کی قیادت کے لیے اہل نہیں سمجھے جائیںگے۔
دوسرا راستہ بھی ممکن ہے لیکن یہ آسان نہیں۔ مصطفیٰ کمال صاحب کے تجربے سے ایک بار پھر یہ ثابت ہوا کہ قیادت مصنوعی طریقے سے پیدا نہیں کی جا سکتی۔کسی ایک فرد کے ساتھ کچھ ممبرانِ اسمبلی چپکا کر اسے حکمران تو بنایا جا سکتا ہے، لیڈر نہیں۔ آج مہاجروں کو حکمران کی نہیں، لیڈر کی ضرورت ہے۔ اس لیے یہ طریقہ فوری طور پر قابلِ عمل نہیں۔ تیسرا راستہ یہ ہے کہ مہاجر قومی سیاسی جماعتوں کا رخ کریں۔ میرے نزدیک یہی سب سے بہتر اور مناسب ہے۔ یہی مہاجروں کے مفاد میں ہے اور یہی قومی مفاد کا تقاضا بھی ہے۔ اس کے لیے قومی سیاسی جماعتوں کا کردار بہت اہم ہے۔
اس میں شبہ نہیں کہ قومی سیاسی جماعتوں نے مہاجروں کو مایوس کیا۔ ایک دور تھا جب جماعت اسلامی پڑھے لکھے لوگوں کا انتخاب تھی۔ اسی لیے مہاجروں نے بھی جماعت کا رخ کیا۔ بلدیاتی سیاست میں جماعت اسلامی نے شہریوں کے مسائل کو حل کرنے کی سنجیدہ کوشش کی۔ لوگ معترف ہیں کہ نعمت اللہ خان کا دور کراچی کی تاریخ کا بہترین دور تھا۔ خدمت اور دیانت کا ایسا امتزاج عصری سیاست میں نہیں دیکھا گیا۔ اگر جماعت اسلامی اپنے سیاسی پروگرام میں اصلاحات لا سکے تو مہاجریں کو ایک بار پھر متوجہ کر سکتی ہے۔ گویا جماعت اسلامی بھی ان کا انتخاب ہو سکتی ہے۔
مجھے ہمیشہ ن لیگ، تحریکِ انصاف اورپیپلزپارٹی پہ حیرت رہی کہ انہوں نے کراچی اور سندھ کی شہری سیاست کو کیوں اہمیت نہیں دی۔ یہ بات تو واضح ہے کہ ایم کیو ایم کی تشدد پسندی کا خوف ایک بڑی رکاوٹ تھا۔ اس پہلو کو پیش ِنظر رکھتے ہوئے بھی سیاسی حکمتِ عملی بنائی جا سکتی تھی۔ اب پھر موقع ہے کہ وہ کراچی میں سرگرم ہوں اور مہاجروں کو امید دلائیں کہ وہ ان کا سیاسی انتخاب ہو سکتی ہیں۔ مہاجروں کو بھی اب سوچنا چاہیے کہ مہاجر عصبیت پر مبنی جماعت ان کے مسائل کا حل نہیں ہو سکتی۔ انہیں اب پاکستان کی عصبیت کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ ہم سب کے لیے تاریخ کی سبق یہ ہے کہ پنجابی، سندھی ، پختون، بلوچی یا مہاجر عصبیتیں تہذیبی دائرے میں زندہ رہنا چاہئیں لیکن سیاسی دائرے میں صرف ایک ہی عصبیت ہونی چاہیے اور وہ پاکستان کی عصبیت ہے۔ اس کا سادہ مطلب قومی سیاسی جماعتوں کی مضبوطی ہے جن میں ملک کے ہر علاقے کے لوگ شامل ہو تے ہیں۔ یہی جماعتیں قومی وحدت کی ضمانت ہو سکتی ہیں۔
مہاجر اگر قومی سیاست کا حصہ بنیں گے تو پورا ملک ان کے مطالبات کے لیے ان کا ہم نوا ہو جائے گا۔اس لیے میرا مشورہ یہی ہو گا کہ مہاجر ایک بار پھر قومی دھارے میں شامل ہو جائیں۔ قومی سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مہاجروں کو یہ احساس دلائیں کہ وہ ان کے مفادات کی نگہبانی کریں گی۔