عمران خان اور طاہرالقادری صاحب ایک بار پھر ہم سفر ہیں۔ ان راہنماؤں سے اس قوم کو ایک سادہ سا سوال ضرور پوچھنا چاہیے۔ اگر وہ جواب نہ دیں تو پھر اپنے آپ سے۔ 2014ء میں اس گٹھ جوڑ نے پاکستان کو کیا دیا؟
یادداشت کے باب میں بطور قوم ہماری شہرت بہت اچھی نہیں۔ 2014ء کو گزرے مگر بہت دن نہیں ہوئے۔ ابلاغ کے جدید ذرائع نے ان شب و روز کے ایک ایک لمحے کو منکر نکیر کی طرح محفوظ کر دیا ہے۔ کتنے لوگ جمع ہوئے؟ کیا کیا کہا گیا؟ کس عزم کا اظہار ہوا؟ بات کہاں سے چلی اور کہاں تک پہنچی؟ پی ٹی وی پر حملہ۔ امپائر کی انگلی۔ ایک خاص لمحے میں چہرے پر مچلتی بشاشت۔ ہجوم کا چھٹنا۔ طاہرالقادری صاحب کے مریدوں کا موسم کی شدت میں کسی سائبان کے بغیر مشقت اٹھانا۔ نوجوانوں کا سڑکوں پر راتیں بسر کرنا، بچوں کا بلکنا اور اس پر راہنماؤں کے پُرتعیش کنٹینرز۔ یادداشت ناقابل بھروسہ سہی لیکن ایسی بھی نہیں کہ دو برس پہلے کے مناظر آنکھوں اور ذہن میں محفوظ نہ ہوں۔
اِن دنوں CPEC کا بہت شہرہ ہے۔ آرمی چیف نے بھی دبنگ لہجے میں بتا دیا کہ اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہونے دی جائے گی۔ کیا اس قوم کو یاد ہے کہ یہی دھرنے کے دن تھے جب چین کے صدر کو پاکستان آنا تھا اور وہ نہیں آ پائے تھے؟ اس قوم کا ایک سال سعیء لاحاصل کی نذر ہو گیا۔ عدالتی کمیشن بنا، اس نے فیصلہ دیا لیکن کسی نے مان کر نہ دیا۔ یہ کوئی ماضی بعید کا قصہ نہیں۔ فطری تقاضا یہی ہے کہ چھ سات سال کے بچے کو بھی یہ روداد یاد ہو۔ آخر اس ملک کے میڈیا نے کتنے پاپڑ بیلے کہ اس تاریخ ساز واقعہ کا ایک ایک لمحہ نہ صرف محفوظ کیا جائے بلکہ براہ راست پوری قوم کو دکھایا بھی جائے۔ کون کب کنٹینر پر چڑھا۔ کون کب اترا۔ کس نے کہاں ناشتا کیا، اس میں کیا کھایا۔ نوجوانوں نے کپڑے کیسے پہنے۔ اس اہتمام کے بعد اس قوم کو سب کچھ یاد ہونا چاہیے اور اگر ذرا ذرا بھی یاد ہے تو اُس کو ان راہنماؤں سے پوچھنا چاہیے کہ اس وقت جب لوگوں کو گھروں سے نکالا گیا۔ ملک کو ایک آزمائش میں مبتلا کیا گیا۔ اسلام آباد چار ماہ تک ایک شہر بے اقتدار کا منظر پیش کرتا اور جگ ہنسائی کا باعث بنا رہا۔ اس سب کچھ کے بعد اس قوم کو کیا ملا؟ کیا نواز شریف کا اقتدار ختم ہو گیا؟ کیا کرپشن کا خاتمہ ہو گیا؟ کیا ملک میں کوئی تبدیلی آئی؟ ایک بات کہی جاتی رہی ہے کہ عوام میں بیداری پیدا ہوئی۔ جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ جب صبح شام میڈیا پر اظہار خیال کی سہولت میسر ہے تو شعوری تبدیلی کے لیے، کیا یہ کافی نہیں؟ وہ خطبات جو دھرنے میں ارشاد فرمائے گئے، کیا ٹی وی کی زبانی پہلے بھی نہیں سنوائے جا رہے تھے؟ محض اس 'بیداری‘ کے لیے قوم کو اس عذاب میں ڈالنے کی کیا ضرورت تھی؟
اس دوران میں، قادری صاحب اور عمران خان نے اس قوم کی نفسیات پر جو منفی اثر ڈالا، اس کے اثرات سمیٹنے میں نہیں معلوم کتنے سال لگ جائیں۔ اس قوم کو جس طرح ہیجان میں مبتلا کیا گیا، کاش کوئی ماہر نفسیات اس کا تجزیہ کرے اور بتائے کہ اس نے نوجوانوں کے اصل اثاثے، قوت برداشت کو کس طرح پامال کیا۔ ان کی شخصیت کی باگ عقل سے چھین کر جذبات کو تھما دی۔ انہیں تعمیر کے بجائے تخریب کے راست پر ڈالا۔ گفتگو اور اختلاف کی اس روایت کو پامال کیا جو باہمی احترام پر مبنی ہے۔ جس میں اختلاف ہوتا ہے دوسروں کی توہین نہیں۔ یہ خسارے کا ایسا سودا ہے، جس کے اثرات مدتوں رہیں گے۔ مو لانا مودودی اور نواب زادہ نصراللہ خان کی برسوں کی محنت چار ماہ میں برباد کر دی گئی۔
بارہا لکھا گیا کہ سماج کی مضبوطی اور تعمیر کے بغیر، کوئی سیاسی عمل تنہا حالات میں جوہری تبدیلی کا باعث نہیں بن سکتا۔ وہاڑی اور جہلم کے انتخابات اسی کا اظہار ہیں۔ عوام کو روایتی خاندانوں اور دھڑوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ ماضی میں ن لیگ کے مقابلے میں یہ دھڑا پیپلز پارٹی کے جھنڈے تلے جمع تھا۔ آج اسے تحریک انصاف کا بینر میسر ہے۔ تحریک انصاف نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ دوسرے دھڑے کو اپنا کندھا پیش کر دیا ہے۔ ن لیگ کے بارے میں تو ہمیں معلوم ہے کہ وہ روایتی سیاست کی علامت ہے۔ تحریک انصاف نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ وہ بھی اسی سیاست کا حصہ ہے۔ کیا ایسی تبدیلی کے لیے پورے ملک کو اضطراب میں مبتلا کرنا چاہیے؟ کیا اس کے لیے لوگ گھروں سے نکلیں اور ایک انتشار کا حصہ بنیں؟ کیا کرپشن اس طرح ختم ہوتی ہے؟
CPEC کا منصوبہ پاکستان کی معاشی سالمیت کے لیے بے پناہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں جو سیاسی مفادات مضمر ہیں، وہ معاشی مفادات سے بھی اہم تر ہیں۔ قوم کو پہلی بار ایک تعمیراتی سوچ کے ذریعے مجتمع کیا جا رہا ہے۔ یہ تعمیر اور ترقی کی ایک نہر ہے جو پانچوں صوبوں کو سیراب کر ے گی۔ گوادر پاکستان کے ایک جدید ترین شہر کی صورت میں ابھر رہا ہے۔ ترقی کی یہ شاہراہ خیبر پختون خوا اور بلوچستان سے گزرے گی۔ سندھ، پنجاب اور گلگت سے بھی۔ اگر صوبے صرف اپنے اپنے مفاد میں سوچیں تو بھی یہ منصوبہ انہیں مجبور کر دے گا کہ وہ اپنی بھلائی کے لیے دوسرے صوبوں کا خیر چاہیں۔ پھر امن سب کی مشترکہ ضرورت بن جا ئے گا۔ یوں سب ایک دوسرے کے دست و بازو ہوں گے۔ کوئی چاہے تو اس کا کریڈٹ نواز شریف یا موجودہ حکومت کو نہ دے۔ چاہے تو یہ ہار کسی اور کے گلے میں ڈال دے۔ لیکن اُسے اس منصوبے کی افادیت کا اعتراف ضرور کرنا چاہیے۔
اگر یہ مقدمہ درست ہے تو مان لینا چاہیے کہ اس کی کامیابی کے لیے سیاسی استحکام ناگزیر ہے۔ سیاسی استحکام کے بغیر یہ منصوبہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اس میں چین شامل ہے۔ چین وہ ملک نہیں جو ہماری طرح وقت کی قیمت سے بے خبر ہے۔ اس کے لیے ایک ایک دن اہم ہے۔ یہ وہ قوم ہے جو سالوں کا سفر دنوں میں طے کر رہی ہے۔ اگر ہم نے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا تو اس کا نقصان ہم ہی کو اٹھانا ہے۔ پھر کیا ہم اس سے بھی بے خبر ہیں کہ اس منصوبے کے حوالے سے بھارت اور دوسرے ہمسایہ ممالک کیا سوچ رہے ہیں؟ تاریخ کے کٹہرے میں کتنے بڑے مجرم ہوں گے وہ لوگ جو ان نازک لمحوں میں، امکان کے روشن چراغوں کو اپنی پھونکوں سے بجھانے کی کوشش کریں گے۔
ایک سوال وہ ہے جو ماضی کے بارے میں ہے: 2014ء میں کزنز کے اس گٹھ جوڑ نے پاکستان کو کیا دیا؟ ایک سوال مستقبل کے حوالے سے ہے: اس مر حلے پر احتجاجی تحریک کا مقصد کیا ہے؟ کیا اس سے کرپشن ختم ہو جائے گی؟ سب جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہو گا۔ عمران بہت زور لگائیں تو بھی اس تحریک میں سال گزر جائے گا۔ ایک آدھ مہینہ تو عید کی نذر ہو جائے گا۔ بات 2017ء تک جا پہنچے گی۔ تو کیا یہ مناسب نہیں کہ اس دوران میں وہ پُرامن طور پر اپنا مقدمہ عوام کے سامنے پیش کریں؟ اس کارِ خیر میں میڈیا ان سے چار قدم آگے ہے۔ وہ اس دوسرے کزن کی مدد سے رائے عامہ پر اثر انداز ہوں اور انتخابات کے ذریعے چہروں کو تبدیل کر دیں۔ تین کزنز مل جائیں تو کیا نہیں کر سکتے۔؟
آج مسئلہ نواز شریف صاحب کا اقتدار نہیں، پاکستان کا استحکام ہے۔ CPEC کا انحصار اسی پر ہے۔ پاکستان کی نئی نسل کا مستقل بھی اسی میں ہے کہ اسے ہیجان کے بجائے عقل و بصیرت کے راستے پر ڈالا جائے۔