عمران خان اور قادری صاحب کے وصل و فراق کی داستان میں بہت سبق ہے، ان لوگوں کے لیے جو غور کرتے ہیں۔
2014ء میں جب یہ اتحاد سامنے آیا تو اکثر کے لیے حیرت کا ایک دروازہ کھل گیا۔ یہ تو بعد میں معلوم ہوا کہ کوئی لندن پلان تھا جس نے انہیں یکجا کیا۔ حیرت انہیں ہوئی جو عمران خان سے حسن ظن رکھتے تھے۔ یہ زیادہ تر تحریک انصاف میں بیٹھے، سوچنے سمجھنے والے وہ لوگ تھے جو اپنے خوابوںکی تعبیر کے لیے ان کے ہم سفر بنے تھے۔ پارٹی کی صفوں میں اضطراب کی لہریں اٹھیں لیکن اس جنوں خیز طوفان میں دب گئیں۔ یوں کہیے کہ سونامی نے انہیں بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ہیجان میں سب سے پہلے عقل ہے جو ساتھ چھوڑتی ہے۔
یہ کیوں ہوا؟ لندن پلان کے خالقوں نے ایسے ہی چاہا تھا۔ طاہرالقادری پیپلز پارٹی کے عہد میں اپنی اس قوت کا عملی اظہار کر چکے تھے کہ وہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو مع اہل و عیال، گھروں سے نکال سکتے اور سڑکوں پر بٹھا سکتے ہیں۔ عمران خان نے اس میدان میں اپنے کارکنوں کو ابھی آزمایا نہیں تھا۔ یوں ان کے سامنے یہ سوال تھا کہ اگر دھرنا طوالت اختیار کرتا ہے تو کیا ان کے کارکن حوصلہ دکھا سکیں گے؟ اس کا ایک جواب طاہرالقادری تھے۔ اگر عمران خان کے کارکن اس امتحان میں ناکام بھی ہوتے ہیں تو قادری صاحب کے لوگ بھرم رکھنے کے لیے موجود ہیں۔ بعد میں حالات نے یہ ثابت بھی کیا۔ یہ انہی کے کارکن تھے جنہوں نے دھرنے کا بانکپن کسی حد تک بر قرار رکھا۔ یوں نظریہ ضرورت نے کزنز کے اس رشتے کو وجود بخشا۔ کزنز کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ ان کا دادا ایک ہوتا ہے۔
دھرنے سے قبل ماڈل ٹائون میں چودہ افراد پولیس کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ دوسری رائے نہیں ہو سکتی کہ مقتولین کے ورثا کو انصاف ملنا چاہیے۔ میں آج تک یہ نہیں جان سکا کہ کوئی سیاسی حکومت ایسی حرکت کیوں کرے گی؟ ایک وزیر نے، جن کی دیانت پر میں اعتبار کرتا ہوں، مجھے بتایا کہ اس واقعے کے بعد ایک اجلاس میں وزیر اعظم نے سختی کے ساتھ شہباز شریف صاحب سے باز پرس کی۔ وہ اس پر رونے لگے اور اس واقعے سے مکمل لاعلمی کا اظہار کیا۔ کیا معلوم کہ آنے وا لے دنوں میں کیا انکشافات ہوتے ہیں؟ قادری صاحب کا یہ کہنا قابلِ توجہ اور تحقیق طلب ہے کہ اس سانحے کے ملزموں کو ملک سے باہر بھجوایا جا رہا ہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ حقیقت سامنے لائے۔ اسی طرح اس قیادت کی بصیرت بھی زیرِ بحث آنی چاہیے جس نے کارکنوں میں اشتعال پیدا کیا اور ایک سیاسی عمل کو حق و باطل کے معرکے میں بدلنا چاہا۔
یہ جنوں خیز موسم گزرا اور ایک سعی لاحاصل اپنے انجام کو پہنچی تو تحریکِ انصاف نے ناکامی کے اسباب پر غور کیا۔ یہ سوال بھی اٹھا کہ قادری صاحب کی رفاقت سے کیا ملا؟ اس سوال نے اُس گروہ کو اپنا مقدمہ پیش کرنے کا موقع دیا جو انہیں اثاثے (asset) کے بجائے، ایک بوجھ (liability) سمجھتا تھا۔ اس نے باورکرایا کہ قادری صاحب ایک پورے پیکج کا نام ہے۔ قادری صاحب کو ان کے ماضی کے ساتھ قبول کرنا پڑے گا۔ عید سے چند دن پہلے تحریک انصاف کے ایک نیک طینت رکن قومی اسمبلی سے ملاقات ہوئی۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ روزِ اوّل سے اس اتحاد کے خلاف تھے۔ محسوس ہوتا ہے کہ ان جیسوں کی سن لی گئی۔ تحریکِ انصاف کے اس طبقے کو ہزیمت اٹھانا پڑی جو عمران خان کی حبِ عاجلہ کی کمزوری کا استحصال کرتا اور انہیں وہ راہ دکھاتا ہے جس میں ناکامی اور بدنامی کے سوا کچھ نہیں۔ خان صاحب کو بھی جلد بھڑک اٹھنے والے منصوبے اچھے لگتے ہیں۔
عمران خان نے یہ جان لیا کہ طاہرالقادری صاحب کی رفاقت سے ان کی اخلاقی ساکھ کمزور تر ہوئی ہے۔ وہ ان سے گریزاں رہنے لگے۔ قادری صاحب نے اب اس کو راز نہیں رہنے دیا اور کھلے لفظوں میں بیان کر دیا ہے۔ قادری صاحب نے رائے ونڈ مارچ کے مسئلے پر جو اخلاقی جواز تراشا ہے، وہ ملفوف تنقید ہے۔ قادری صاحب جانتے ہیں کہ وہ کوئی سیاسی قوت نہیں۔ پاکستان کی ہر مذہبی جماعت کی طرح وہ اشتعال اور بدامنی پیدا کر سکتے ہیں لیکن رائے عامہ ان کی ہم نوا نہیں ہے۔ دوسری طرف تحریک انصاف اصلاً ایک سیاسی قوت ہے۔ وہ رائے عامہ کو متاثر کر رہی ہے۔ بدقسمتی سے اس کی قیادت اس کو ایک کم تر، پاکستان عوامی تحریک کی سطح پر رکھنا چاہتی ہے۔
طاہرالقادری صاحب کو شاید یہ باور کرایا گیا تھا کہ وہ ایک انقلاب آفریں قائد بن سکتے ہیں، اگر اس نظام ہی کو لپیٹ دینے کی بات کریں۔ قصاص تو اِن دنوں اُن کا نعرہ ہے ورنہ انہوں نے دھرنوں کا آغاز پیپلز پارٹی کے دور میں کیا تھا۔ وہ یہ تجزیہ کرنے میں ناکام رہے کہ پاکستان کی فضا کسی انقلاب کے لیے سازگار نہیں۔ انہوں نے اس بات کو فراموش کیا کہ پاکستان میں ایک آئین ہے۔ یہاں ادارے موجود ہیں۔ یہاں میڈیا آزاد ہے۔ اُس ملک میں کیسے انقلاب آ سکتا ہے جہاں لوگ ایک سو چھبیس دن جی بھر کر حکومت کو گالیاں دیں اور میڈیا انہیں براہ راست دکھائے۔ جہاں رات دن تجزیے کے نام پر حکومت کے خاتمے کا اعلان ہوتا ہو اور کوئی کسی کی زبان پکڑ سکے‘ نہ ہاتھ۔
یہی بات عمران خان بھی نہیں سمجھ سکے۔ لندن پلان کا حصہ بنتے وقت انہوں نے مقامی اور عالمی حقیقتوں کو نظر انداز کیا۔ وہ یہ نہیں جان پائے کہ محض ایک سال بعد کسی حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک اخلاقی جواز سے محروم ہوتی ہے۔ جہاں انتخابات میں دھاندلی ہو، وہاں ردِعمل فوری اور عوامی ہوتا ہے جیسے 1977ء میں ہوا تھا۔ قومی اسمبلی میں دھاندلی ہوئی تو صوبائی اسمبلی کے انتخاب سے پہلے عوام اس عمل کو مسترد کر چکے تھے۔ ایک سال بعد کے احتجاج کو پسِ مرگ واویلا کہا جا تا ہے۔ یہاں تو معاملہ یہ تھا کہ 'مرگ‘ کا معاملہ بھی ثابت نہیں تھا اور بعد میں سپریم کورٹ نے اس کی تصدیق کر دی۔ انہیں یہ بھی اندازہ نہیں ہو سکا کہ نادیدہ ہاتھ بھی اسی وقت بروئے کار آ سکتے ہیں جب ان کے پاس کوئی اخلاقی دلیل ہو۔ دوسرا امکان یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے کسی ایجنڈے پر آپ کو استعمال کر رہے ہوں۔ اگر عمران خان کے پیش نظر یہ دو پہلو ہوتے تو شاید وہ طاہرالقادری صاحب سے دور رہتے اور احتجاج سے بھی۔
قادری صاحب کے پاس تو انقلابی سیاست کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں تھا اور وہ بھی اس صورت میں جب کوئی لندن پلان بنا کر دے۔ عمران خان کے پاس بہت سے راستے تھے۔ احتجاج تو آخری راستہ ہونا چاہیے تھا۔ افسوس کہ وہ قاضی حسین احمد مرحوم کے مقلد نکلے۔ دنیا بھر میں ملین مارچ آخری قدم ہوتا ہے جس کے بعد انقلاب یقینی ہوتا ہے۔ قاضی صاحب نے اپنی تحریک کا آغاز ہی ملین مارچ سے کیا تھا اور وہ بھی ایک جمہوری معاشرے میں۔ انجام ہمارے سامنے ہے۔ یہی عمران خان نے کیا۔ انہوں نے آخری قدم سب سے پہلے اٹھایا۔ اس کی ناکامی کے بعد وہ آگے جا سکتے ہیں نہ پیچھے۔ ان کے سمٹتے اجتماعات بتا رہے ہیں کہ وہ آگے نہیں جا سکتے۔ اگر پیچھے جاتے ہیں تو یہ بھی ڈھلوان کا سفر ہے۔
وصل و فراق کی اس داستان میں ایک اہم سوال باقی ہے: تو کیا ان قوتوں نے اس اتحاد سے ہاتھ اٹھا لیا جنہوں نے 2014ء میں انہیں جمع کیا تھا؟ ایسے سوالات کے قطعی جواب نہیں ہوتے۔ سیاسی حرکیات پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سوال کا جواب اثبات میں ہے۔ عمران خان سے بڑھتی مایوسی نے انہیں یہ راستہ دکھایا ہے کہ وہ اہلِ سیاست کے قافلے کو فی الجملہ ناقابلِ اعتبار ثابت کریں، یہاں تک کہ ان کی حب الوطنی کو بھی مشتبہ بنا دیں۔ اس کے بعد متبادل کیا ہے؟ یہ جاننے کے لیے بقراط ہونا ضروری نہیں؛ تاہم اس وقت یہ 'مدعی سست گواہ چست‘ کا معاملہ دکھائی دے رہا ہے۔