عمران خان حکومت گرانے نکلے ہیں۔ ان کا مقدمہ اخلاقی ہے۔ کیا وہ جانتے ہیں کہ اس سفرمیں انہیں افراد کے ساتھ بطور زادِ راہ ،اخلاقی برتری کی بھی ضرورت ہے؟
ان کا تازہ ترین ارشاد،وہی رشتے والا،بتا رہا ہے کہ اخلاقیات کے باب میں ان کا کھیسا خالی ہو چکا ۔ قانون کی عدالت میں ان کا مقدمہ کمزور ہے، آج سے نہیں ہمیشہ سے ہے۔ دھاندلی سے لے کرپاناما تک، کسی عدالت کے سامنے وہ اپنا دعویٰ ثابت نہیںکر سکے۔ اس سے صرفِ نظر کیجیے کہ سیاست میں ایک عدالت عوامی بھی ہوتی ہے۔ اگر آپ عوام کو باور کرا سکیں کہ آپ کا حریف اخلاقی طور پر کم تر ہے تو اس عدالت میں آپ جیت سکتے ہیں۔ زرداری صاحب نے اپنا مقدمہ قانون کی کسی عدالت میں نہیں، عوامی عدالت میں ہارا ہے۔ عمران خان اخلاقی میدان میں اپنا مقدمہ ہار رہے ہیں۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے جب خلافتِ الٰہیہ کے قیام کی جدوجہد کو خیرباد کہا اور کانگرس کے فورم پر قومی سیاست کے لیے متحرک ہوئے تو مولانا مودودی نے لکھا کہ یہ بیسویں صدی کی سب سے بڑی ٹریجڈی ہے۔ عمران خان کا اخلاقی زوال میرے نزدیک ہمارے عہد کی سب سے بڑی ٹریجدی ہے۔ قوم کو ایک موقع ملا تھا کہ وہ روایتی سیاست سے خود کو آزاد کرتی۔ اسے عمران خان کی صورت میں ایک متبادل دکھائی دیا تھا۔ ان کی اخلاقی برتری ہی اصل برتری تھی۔ افسوس کہ انہوں نے اسے بے رحمی سے اقتدار کی بے مہار خواہش پر قربان کردیا۔ اخلاقی برتری کا مقدمہ وہ ہار چکے۔ سیدنا علیؓ نے فرمایا! آدمی اپنی زبان کے پیچھے چھپا ہوا ہے۔ یہ بھی آپ ہی کا فرمان ہے کہ گفتگو کرو تاکہ پہچانے جاؤ۔ عمران خان کی گفتگو ہمارے سامنے ہے۔ انہیں تو اس قوم پر یہ ثابت کرنا تھا کہ وہ دوسرے راہنماؤں سے زیادہ اخلاقی روایت کا احترام کرنے والے ہیں۔ وہ اب بھی کہتے ہیں: لیڈر کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ ان کا غالی سے غالی معتقد کیا یہ کہہ سکتا ہے کہ عمران خان کا کلام کذب سے پاک ہے؟ وہ بلا تحقیق الزام لگاتے اور پھر دہراتے ہیں۔ توجہ دلانے پر بھی متوجہ نہیں ہوتے۔ہماری روایت میں تو جھوٹ کی تعریف یہی ہے کہ بلا تحقیق بات کی تشہیر کی جائے۔
پھر اخلاقیات کی جو تعریف انہوں نے معاشرے میں متعارف کرائی ہے، میری روایت اور مذہب اسے بھی قبول نہیں کرتا۔ اخلاقیات محض یہ نہیں ہے کہ کوئی آدمی پیسے روپے کے معاملے میں کرپٹ ہو۔ میرے اخلاقیات کا دائرہ میرے سارے رویے کی تہذیب کرتا ہے۔ وہ میری جبلتوں کو ایک نظم کا پابند کرتا ہے۔میرے اخلاقیات کے نظام کے لیے یہ بات قابلِ قبول نہیں کہ بھوک لگے تو سامنے پڑی چیز اُٹھا لوں اور شکم سیری کا سامان کروں۔مجھے پہلے یہ دیکھنا ہے کہ یہ میری ہے بھی یا نہیں۔میرا اخلاقی نظام گفتگو کے آداب سے لے کر چھوٹے بڑے کی تمیز کو محیط ہے۔اخلاقیات کو محض پیسے ٹکے کے معاملہ تک محدود کرنا مغرب کا درس ہے۔ میری اخلاقی روایت میرے پورے وجود کی تطہیر کا مطالبہ کرتی ہے۔
اب مالی معاملات پر بھی ایک نظر ڈال لیجیے!پہلے آف شور کمپنیوں کی بات ہوئی۔معلوم ہوا کہ جناب نے اُس وقت یہ کمپنی بنائی جب پاکستان میں گنے چنے لوگوں کو اس حیلے کاعلم تھا۔پھر جائداد کی تفصیلات کا ذکر ہوا۔عمران خان نے ہمیں بتا یا کہ بنی گالہ کا گھر ان کے لیے جمائما کا تحفہ ہے۔اب جمائما کا بیان حلفی سامنے آگیا ہے کہ گھر عمران ہی کا تھا۔بے نامی میں میرے نام تھا۔اب چونکہ طلاق ہو چکی،اس لیے میں اسے واپس کر رہی ہوں۔اس خستہ اخلاقی پیرہن کو مروجہ سیاست نے خستہ تر کر دیا ہے۔سیاست ایک بے رحم کھیل ہے۔اگر آپ دوسروں کو بے لباس کر نا چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ آپ کی کھال ہی آپ کا اپنا لباس ہو۔جب تک کھال قائم رہے،کوئی آپ کو بے لباس نہ کر سکے۔اللہ سب کے ستر کو قائم رکھے۔
میں جانتا ہوں کہ اس کے جواب میں کیا کہا جا ئے گا:نوازشریف کون سا پارسا ہے؟شریف خاندان کی اخلاقیات کیا ہیں؟عمران خان کے الفاظ دہرائے جائیں گے :چور ،ڈاکو ،کرپٹ وغیرہ وغیرہ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ جوابی الزام تراشی ہمیشہ شکست کا اعلان ہوتی ہے۔یہ اس بات کا اظہار ہے اپنے دفاع میں آپ کے پاس کہنے کو کچھ نہیں۔دوسرا یہ کہ فرض کیجیے دوسرے بھی ایسے ہی ہیں تو پھریہ برائیوں میں انتخاب کا معاملہ ہے،مثالی قیادت اور کرپٹ قیادت میں چناؤ نہیں ہے۔تیسرا پہلو ایک اور ہے اور وہ مجھ جیسے لکھنے والوں کے لیے ہے:عمران خان کے خلاف تنقید کرتے وقت تمہاراقلم خوب رواں ہوتا ہے مگر نوازشریف کی بات ہوتی ہے تو لگتا ہے قلم کا رہرو کسی بے ہموار سڑک پر آ نکلا ہے۔مجھ پر اس سوال کا جواب واجب ہے۔
نوازشریف صاحب کے بارے میں جو سوال بھی اٹھ رہے ہیں، لازم ہے کہ وہ ان کا جواب دیں۔یہ سوال اہم ہے کہ ان کے بچوں کے پاس لندن کے فلیٹس خریدنے کے لیے پیسے کہاں سے آئے؟یہ درست ہے کہ پاناما لیکس میں ان کا نام نہیں۔یہ دلیل قانون کی عدالت کے لیے کفایت کرتی ہے لیکن عوام کی عدالت کے لیے کافی نہیں۔کم سن بچوں کی دولت،سب جانتے ہیں کہ والد ہی کی عطا ہے اگر اس کا کوئی دوسرا معلوم ماخذ نہیں ہے۔ نوازشریف صاحب کو لازماً اس سوال کا جواب دینا چاہیے۔ہم جانتے ہیں کہ وہ اس کا جواب دے چکے۔قوم کے نام خطاب اور پارلیمنٹ میں،انہوں نے اپنا مؤقف پیش کر دیا۔اب ایک فریق مطمئن نہیں۔اس کا کہنا ہے کہ اس میں سچ کو چھپایا گیا ہے۔سوال یہ ہے کہ ایسے معاملات میں جب اختلاف ہو جائے،کیا کرنا چاہیے؟
ہر آدمی اس کا یہ جواب دے گا کہ پھر انہیں عدالت سے رجوع کرنا چاہیے۔میں بھی یہی کہتا ہوں۔تحریک انصاف ،جماعت اسلامی اور پیپلزپارٹی نے اس کے لیے عدالتِ عظمیٰ میں درخواست دی۔عدالت نے منگل کو ان درخواستوں کو قابلِ سماعت قرار دے کر حکم دیا ہے کہ یہ مقدمہ کھلی عدالت میں چلا یا جا ئے۔اس کا مطلب ہے کہ ریاستی ادارے کام کر رہے ہیں۔عمران خان کا مقدمہ یہ ہے کہ ادارے غیر فعال ہیں۔یہ نوازشریف کے خریدے ہوئے ہیں۔میں اس موقف کو درست نہیں سمجھتا۔ سماجی اخلاقیات کا شعور یہ کہتا ہے کہ نظم اجتماعی کو باقی رکھنے کے لیے اداروں ہی سے رجوع کر نا چاہیے۔ہم ان کے فیصلوں پر عدم اعتماد کا اظہار کر سکتے ہیں مگر ہم انہیں بے توقیر نہیں کر سکتے۔ہم سب جانتے ہیں کہ اب ججوں کا انتخاب حکومت کے ہاتھ میں نہیں ہے۔
اس معاملے کا ایک پہلو وہ ہے جس کا تعلق سیاسی ارتقا سے ہے۔ اس قوم کو ایک نئی قیادت کی ضرورت ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ شریف خاندان اس قوم کو جو دے سکتا تھا،وہ دے چکا۔جو لے سکتا تھا،وہ بھی لے چکا۔اس قوم کو ایک نئے وژن،ایک نئی قیادت کی ضرورت ہے۔عمران خان متبادل قیادت ہو سکتے تھے۔اس لیے نہیں کہ وہ غلطیوں اور گناہوں سے پاک ہیں،اس لیے کہ وہ روایتی سیاست کا حصہ نہیں تھے۔ان کی اخلاقی بنیادیں نسبتاً مضبوط تھیں۔افسوس کہ انہوں نے اس امتیاز کو ختم کر دیا۔آج وہ سر تا پا روایتی سیاست کا حصہ ہیں۔اگر انتخاب روایتی سیاست دانوں ہی میں کر نا ہے توجھگڑاکس بات کا ؟
عمران خان نے اخلاقی برتری کو گنوادیا۔یہ شایدہمارے عہد کی سب سے بڑی ٹریجڈی ہے۔وہ روایتی سیاست کے سفر میں اتنا آگے نکل چکے کہ ان کی پہچانی ہوئی صورت بھی اب پہچانی نہیں جا تی۔جب ساری جد دجہدچہرے بدلنے کی ہے تو پورے ملک کو فساد میں کیوںمبتلاکیا جائے ؟اس کارِ خیر کے لیے 2018ء کا انتظار کیوں نہ کیا جائے۔