"KNC" (space) message & send to 7575

30 ستمبر کے بعد!

'' ہر دروازے پہ دستک دے کر دیکھ لیا۔ ہمیں کہیں سے انصاف نہیں ملا۔ ہر ادارہ وزیر اعظم کے ہاتھوں بک چکا۔ بہت احتجاج ہو گیا۔ آج کے بعد احتجاج نہیں ہوگا۔ اب اگر وزیراعظم نے خود کو احتساب کے لیے پیش نہیں کیا تو اسلام آباد کو بندکر دیا جائے گا۔ ہم کسی کو حکومت نہیں کر نے دیں گے‘‘۔
تھوڑی دیر کے لیے یہ بھول جائیے کہ یہ مقدمہ کسی عمران خان کا ہے اور اس ملک میں نوازشریف نام کا کوئی آ دمی وزیراعظم ہے۔ پھر بتائیے کہ یہ الفاظ کس سوچ کی عکاسی کر رہے ہیں؟ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ متکلم کسی آئین پر یقین رکھتا ہے؟ کیا آئین کسی جائز مطالبے کے لیے بھی دارالحکومت کو بند کر نے کی اجازت دیتا ہے؟ یہ الفاظ جرأت کی علامت ہے یا لاقانونیت کی؟ 30 ستمبر کے بعد، میرے نزدیک سیاسی بحث کا مو ضوع تبدیل ہو چکا۔ احتجاج ہونا چاہیے یا نہیں، اب ایک متروک بحث ہے۔ اس باب میں جو کہا جا سکتا تھا، دونوں اطراف سے کہا جا چکا۔ ان انگوروں میں مزید رس باقی نہیں۔ اب نئے سوالات ہمارے سامنے ہیں جن کو میں نے ابھی ذکر کیا ہے۔ اہلِ دانش کو اب ان پر قوم کی راہنمائی کرنی ہے۔
یہ مقدمہ اگر سو فیصد درست مان لیا جائے تو یہ حکومت پر نہیں، ریاست اور آئین پر عدم اعتماد کا اظہار ہے۔ یہ فردِ قراردادِ جرم عدلیہ کے خلاف بھی ہے جو ریاست کا ادارہ ہے۔ یہ ہم جانتے ہیں کہ جج خواتین و حضرات کا تقرر اب حکومت کے ہاتھ میں نہیں۔ اس پر بہت بات ہو سکتی ہے کہ اس دعوے میں کتنی صداقت ہے کہ ''ہر دروازے پر دستک دی جا چکی‘‘۔ میں اسے مان کر آگے بڑھ رہا ہوں کہ یہ بھی ہو چکا۔ کیا اس کے بعدکسی فرد یا گروہ کو یہ حق حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ ایک آئینی حکومت کو ماننے سے انکار کر دے؟ کیا ہمارے آئین میں دارالحکومت پر قبضے کے اس عمل کو جائز مانا گیا؟ 
میرا جواب واضح ہے۔ یہ نقطہ نظر آئین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ ہمارا آئین اس کی اجازت نہیں دیتا۔ اگر کسی فرد یا گروہ کو انصاف نہیں ملتا تو اس کو یہ حق حاصل نہیں ہو جاتا کہ وہ حکومت اور ریاست کے اداروں پر عدم اعتماد کا اظہار کر کے دارالحکومت پر قبضہ کر لے۔ شہر کو بند کرنے کا مطلب اس پر قبضہ کرنا ہے۔ ریاستی اداروں کو مفلوج بنانا ہے۔ اگر اس روش کو قبول کر لیا جائے یا اس کی تائید کی جائے تو دنیا میں کسی معاشرے اور کسی ریاست کا وجود ممکن نہیں۔ پھر طالبان کی مذمت کا جواز بھی باقی نہیں رہتا۔ میں پورے استدلال کے ساتھ بتا سکتا ہوں کہ مذہب اس کو قبول کر تا ہے نہ اخلاق اور نہ قانون۔ اس بات کی تائید کا مطلب انسان کے اس فکری ارتقا کی نفی ہے جس کے تحت اس نے اداروں کی تشکیل تک کاسفر کیا ہے۔ اس کا نتیجہ معاشرے کو فساد کے حوالے کرنا ہے۔ اس نقطہ نظر کو جدید سیاسیات میں بغاوت کہا جاتا ہے۔ ایک فوجی آمر بھی یہی کرتا ہے: کرپشن کے خاتمے کے لیے ریاستی اداروں کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان۔
اس کے جواب میں صرف دوباتیں کہی جا سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ یہ موقف آئین اور اخلاق کے مطابق ہے۔ دوسرا یہ کہ آئین اورقانون کا وظیفہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ با اثر لوگوں کے مفادات کا تحفظ کریں۔ یہ دراصل وہ ہتھیار ہیں جو مراعات یافتہ گروہ نے اپنے دفاع کے لیے تراشے ہیں۔ پہلی بات کہنا ممکن نہیں۔ آئین کی کسی شق کی یہ تاویل نہیں کی جا سکتی کہ ریاست کو مفلوج کر دینا کسی فرد یا گروہ کا حق ہے۔ دوسری بات کے حق میں البتہ بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔ یہ ایک نقطہ نظر ہے جو آج سے نہیں صدیوں سے مو جود ہے۔ اسی نے کیمونزم کو پیدا کیا۔ اسی نے انقلابی جد وجہد کو جواز بخشا۔ اسی کے تحت دنیا بھر میں تبدیلی کی تحریکیں اٹھیں، کہیں مذہب کے نام پر اور کہیں اشتراکیت کے عنوان سے۔
لوگ خمینی صاحب کا حوالہ دیتے ہیں۔ ان کی جد وجہد آئینی یا قانونی نہیں، انقلابی تھی۔ یہ کسی منتخب حکومت کے نہیں، شہنشاہیت کے خلاف تھی۔ یہی نہیں، انہیں کم و بیش پوری قوم کا اعتماد حاصل تھا۔ خمینی صاحب ملک میں جلسے نہیں کر سکتے تھے۔ وہ سالوں سے فرانس میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ ایران میں ٹی وی چینلز اور اخبارات میں وزیراعظم کو گالیاں دینے کی اجازت نہیں تھی۔ وہاں عوام کو ووٹ کا حق میسر نہیں تھا۔ پاکستان کے ساتھ شہنشاہِ ایران کا موازنہ وہی کر سکتا ہے جو دنیا کی تاریخ سے واقف نہ سیاسی حرکیات سے۔ یا پھر وہ سادہ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنا چاہتا ہے۔
عمران خان کے بارے میں، میں سالوں سے اپنی اس رائے کا اظہار کر رہا ہوں کہ وہ سیاست دان نہیں، احتجاج پسند ہیں۔ آپ چاہیں تو انہیں انقلابی بھی کہہ سکتے ہیں، اگرچہ انہوں نے اپنی عمر کا ایک دن بھی کسی انقلابی کی طرح نہیں گزارا۔ انقلابی اگر کسی کو کہا جا سکتا ہے تو وہ چی گویرا ہیں یا اسامہ بن لادن۔ وہ لوگ جو اپنے مقصد کے لیے زندگی کی آسائشوں کو تج سکتے ہیں۔ میں اس نظریاتی اورعملی تفاوت سے صرفِ نظر کرتے ہوئے، اگراپنی بات حکمتِ عملی کی حد تک محدود رکھوں تو عمران خان کا شمار سیاست دانوں کی نہیں، انقلابیوں کی فہرست میں کیا جا سکتا ہے۔ ان کے حامی بھی در اصل انہیں ایسا ہی سمجھتے ہیں۔ ان کے ایک غالی معتقد نے سنیچر کو اپنے کالم میں، ان کے اجتماع کو ماؤ کے حوالے سے بیان کیا ہے۔ ان کے حامی عام لوگ ان کے ساتھ رومانوی تعلق رکھتے ہیں۔ ایسا تعلق عام طور پر انقلابیوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ عمران خان نے بھی انہیں یہ سکھایا ہے کہ ریاست اور اس کے ادارے بے معنی ہیں، اگر آپ کی خواہشوں کے راستے میںحائل ہیں۔ 
میں اسی لیے یہ کہتا ہوں کہ عمران خان اگر آئینی جد وجہد کرنا چاہتے ہیں تو ان کا طرزِ سیاست آئین سے ہم آہنگ نہیں۔ اگر وہ انقلابی جد وجہد کرنا چاہتے ہیں تو پھر انہیں کھل کر بتانا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ اس کے بعد ان پر وہ تنقید نہیں کی جا سکتی جو اس وقت کی جا رہی ہے۔ یہ مقدمہ تو کسی جمہوری ذہن کے لیے قابلِ قبول نہیں ہو سکتا۔ اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ آئین کو مانتے ہیں تو پھر ان کے افکار اور طرزِ عمل کو آئین کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا۔ پھر ان سے سوال کیا جائے گا کہ سول نافرمانی کی آئین کہاں اجازت دیتا ہے؟ پھر سوال ہو گا کہ دارالحکومت کو مفلوج کر نے کی گنجائش آئین میں کہاں ہے؟
انقلابی مقدمہ ہمیشہ مقبول ہوتا ہے۔ انقلاب ایک رومان ہے۔ اس پر ان لوگوں کو جمع کیا جا سکتا ہے جو مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔ انقلاب کے لیے انتہا پسندی ناگزیر ہے۔ یہی عمران خان سکھا رہے ہیں۔ شیخ رشید کا استعمال اس کے سوا کیا ہے کہ لوگوں کے دلوں میں اہلِ اقتدار کے خلاف نفرت اس طرح بھر دی جائے کہ وہ ان کے گھروں پر حملہ آور ہو جائیں۔ عمران خود بھی اس کے لیے کافی ہیں لیکن تنقید سے بچنے کے لیے، جو وہ خود نہیں کہنا چاہتے، اس کے لیے انہوں نے شیخ صاحب کو رکھا ہوا ہے۔ اپنی اس حکمتِ عملی میں وہ پوری طرح کامیاب ہیں۔ نوجوانوں کے دلوں میں انہوں نے نفرت اس طرح بھر دی ہے کہ اب وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں، اسلام آباد پر قبضہ بھی۔
حکومتیں اس فضا کو پیدا کرنے میں 'انقلابیوں‘ کی کتنی مدد گار ہوتی ہیں، یہ اس وقت میرا موضوع نہیں۔ اس وقت میں صرف یہ سوال اٹھا رہا ہوں کہ 30 ستمبر کو عمران خان نے جو اعلان کیا ہے،کیا آئین اس کی اجازت دیتا ہے؟ان کے حامی رائے سازوں پر لازم ہے کہ وہ اس مسئلے پر قوم کی راہنمائی فرمائیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں