عمران خان کے سیاسی نصب العین، اسلوبِ سیاست اور حکمتِ عملی پر خود ان کے اپنے شب و روز اور نشست و برخاست ناطق ہیں۔ میں ان پر جو لکھتا رہا ہوں، اس میں مزید اضافے کی ضرورت نہیں۔ مجھے یہ اطمینان ہے کسی رائے پر نظر ثانی کی بھی حاجت نہیں۔ 2 نومبر کے بعد فرق صرف اتنا واقع ہوا ہے کہ جو بات میں چشمِ تصور سے دیکھ رہا تھا، لوگ اب بچشمِ سر دیکھ رہے ہیں۔ اس موضوع پر مزید وقت صرف کرنے کے بجائے ہمیں آگے بڑھنا چاہیے۔
یہ بات صدا بصحرا ثابت نہیں ہوئی کہ فیصلے بالآخر اداروں ہی میں ہونے ہیں‘ جنہیں اجتماعی شعور کے ارتقا نے سندِ اعتبار عطا کی ہے۔ خیر اس میں ہے کہ اس ارتقا کا ساتھ دیا جائے۔ قبائلی معاشرت کی طرف مراجعت، جب تلوار یا رجال کی جسمانی طاقت فیصلہ کن ہوتی تھی، تاریخ سے جنگ ہے۔ اس جنگ میں فتح ہمیشہ تاریخ کی ہوئی ہے۔ تاریخ نے جمہوریت کے حق میں اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔ جمہوریت میں فیصلے اداروں کے محاذ پر ہوتے ہیں، گلیوں اور بازاروں میں نہیں۔ کچھ لوگ تاریخی عمل کا پہیہ پیچھے کی طرف چلانا چاہتے ہیں۔ حسبِ توقع یہ کوشش کامیاب نہیں ہوئی۔ میں اس پر اﷲ کا شکر ادا کرتا ہوں۔
میرے نزدیک یہ بات اب بے معنی ہے کہ فیصلہ کیا ہوتا ہے۔ نواز شریف اگر سرخرو ہوتے ہیں تو جمہوری عمل جاری رہے گا۔ اگر فیصلہ ان کے خلاف آتا ہے تو پارلیمان نئے قائد کا انتخاب کرے گی۔ یہ بھی جمہوری عمل کے تسلسل کا باعث ہو گا۔ بامعنی بات یہ ہے کہ ہم نے اجتماعی طور پر آئین کو حاکم مان لیا۔ یہ ذہنی پختگی کی دلیل ہے۔ پیپلز پارٹی نے ابھی عدالتی عمل کو فیصلہ کن نہیں مانا۔ وہ یہ خیال کیے بیٹھے ہیں کہ عمران خان کی واپسی نے ان کے لیے احتجاج کا میدان خالی چھوڑ دیا ہے۔ ان کے لیے مشورہ یہ ہے کہ وہ عمران خان کی طرح تجربے سے کچھ سیکھنے کے بجائے، بہتر یہ ہے کہ دوسروں کے تجربے سے فائدہ اُٹھائیں۔ پہنچنا انہیں بھی یہیں ہے۔ تو کیا یہ ضروری ہے کہ اس سفر میں قوم کے مزید کچھ دن برباد کر دیے جائیں؟
اب حکومت ہو یا اپوزیشن، میڈیا ہو یا سول سوسائٹی، سب کا ہدف اگلے انتخابات ہونے چاہئیں۔ حکومت مخالف رجحان رکھنے والے طاقت ور میڈیا کی موجودگی میں اپوزیشن کو کسی خوف میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ اس کا موقف بلا کم و کاست بلکہ مبالغے کے ساتھ، عوام تک پہنچ رہا ہے۔ وہ اپنی تنقید اور متبادل پروگرام زیادہ مربوط انداز میں عوام تک پہنچا سکتے ہیں۔ اس لیے عوام کو کسی احتجاجی بخار میں مبتلا کیے بغیر بھی رائے عامہ کو ہموار کیا جا سکتا ہے۔ انہیں اب ساری توجہ اسی پر مرتکز کرنا چاہیے۔
حکومت کے پاس یہ موقع ہے کہ وہ ان اسباب کو مخاطب بنائے جو عوام میں ہیجان پیدا کرتے ہیں۔ گزشتہ تین سال میں جس گرمجوشی کا مظاہرہ اورنج ٹرین جیسے منصوبے کے بارے میں ہوا، اب ضروری ہے کہ وہی گرمجوشی سماجی ترقی کے محاذ پر بھی دکھائی جائے۔ پنجاب میں تین کام لازم ہیں: پولیس ریفارمز، تعلیم اور صحت۔ یہ امرِ واقعہ ہے کہ پنجاب کی صوبائی حکومت ان میدانوں میں وہ کارکردگی نہیں دکھا سکی جو عوام کے لیے اطمینان کا باعث بنے۔ اگر لاہور جیسے شہر میں شہری جدید طبی سہولتوں سے محروم ہیں تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ دیگر شہروں میں کیا صورتِ حال ہو گی۔ یہی معاملہ تعلیم کا بھی ہے۔ پولیس کی کارکردگی ناگفتہ بہ ہے۔ سٹریٹ کرائمز بہت بڑھ چکے ہیں اور لوگ عدم تحفظ کی فضا میں جیتے ہیں۔ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کے خاتمہ کے ساتھ اگر پنجاب میں صحت اور تعلیم کے شعبے میں حکومت بہتری لا سکے تو
2018ء کے انتخابات میں اسے شکست دینا مشکل ہو جائے گا۔
یہ بھی ضروری ہے کہ میڈیا کی ترجیحات کا از سر نو تعین ہو۔ اسے بھی ہیجان برپا کرنے کے عمل سے نکلنا چاہیے۔ فوج کا راستہ دیکھنے والوں کو اب سوچنا چاہیے کہ ان کی پکار پر کان دھرنے والا کم از کم اس وقت کوئی نہیں ہے۔ اگر وہ سماجی تبدیلی کو اپنا ہدف بنا سکیں تو معاشرتی تعمیر میں کردار ادا سکتے ہیں۔ سماجی ترقی وہ میدان ہے جس میں ان کی تنقیدی حس کی تسکین کا بہت سامان موجود ہے۔ اگر اس حوالے سے وہ حکومت کو اپنا نشانہ بنائیں تو اس سے ایک خیر بر آمد ہو سکتا ہے۔ میڈیا کو اس پہ بھی غور کرنا چاہیے کہ اس کے ادارتی معاملات اصلاح طلب ہیں۔ زبان و بیان سے لے کر مندرجات تک، معلوم یہ ہوتا ہے کہ ایڈیٹر نام کا کوئی فرد کہیں موجود نہیں۔ میڈیا ہاؤسز مختلف سیاسی جماعتوں کے ترجمان بن چکے۔ پروگرام دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ پیشہ ور صحافی بھی مالکان کے اشارہء ابرو کے منتظر ہوتے ہیں۔ حسین نقی صاحب کی وہ تنقید بر محل ہے جس میں وہ میڈیا کو جہالت کے فروغ کا ادارہ قرار دے رہے ہیں۔
اجتماعی سیاست کی اس ناکامی سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں؛ تاہم ایک خدشہ ہے جو بدستور دامن گیر ہے۔ عمران خان لوگوں کو گھروں سے نہیں نکال سکے۔ یا یوں کہیے کہ ان کو چند ہزار ایسے جاں نثار بھی میسر نہیں آ سکے جو سر پر کفن باندھ کر نکلیں۔ ان کی ناکامی سے انقلاب کا تصور ختم نہیں ہوا۔ یہ خیال کئی ذھنوں میں اس وقت بھی مچل رہا ہو گا کہ اگر وہ چند ہزار انقلابیوں کے ساتھ دارالحکومت کا محاصرہ کر لیں تو حالات کو بدل سکتے ہیں۔ اگر یہ احساس مذہبی سوچ کے ساتھ مل کر ظہور پذیر ہوتا ہے تو یہ پاکستان کی سالمیت اور امن کے لیے اس سے کہیں بڑا خطرہ بن سکتا ہے جو عمران خان نے پیدا کیا تھا۔ میں جماعت اسلامی میں اس کے امکانات دیکھ رہا ہوں۔
جماعت اسلامی کی نئی نسل اسی انقلابی فکر کے تحت پروان چڑھی ہے جس کو جماعت اسلامی کی سوچ اور لٹریچر نے فروغ دیا ہے۔ انتخابی عمل میں مسلسل ناکامی نے ان نوجوانوں میں مایوسی کو جنم دیا ہے جس کے باعث ان میں سے بعض نے القاعدہ جیسی جماعتوں کا رخ کیا۔ عمران خان نے اب ایک تیسرا راستہ دکھا دیا ہے۔ اب وہ اس امکان پر غور کر سکتے ہیں کہ عوامی قوت کے اظہار کا کوئی طریقہ انتخابات کے علاوہ بھی اختیار کیا جا سکتا ہے۔ طاہرالقادری صاحب اور عمران خان کے تجربات سے اب یہ ناممکنات میں سے نہیں رہا۔ جماعت اسلامی فکری اور عملی طور پر ان کمزوریوں سے بڑی حد تک محفوظ ہے‘ جو قادری صاحب کی جماعت یا تحریک انصاف میں پائی جاتی ہے۔
جماعت اسلامی کی تاریخ آئینی اور جمہوری جدوجہد کی تاریخ ہے۔ مولانا مودودی کے دور میں اس کی قابل رشک مثالیں قائم کی گئی ہیں۔ جماعت اسلامی کا دستور بھی اسے آئینی جدوجہد ہی کا راستہ دکھاتا ہے؛ تاہم تبدیلی کی خواہش اور مسلسل ناکامیاں‘ نئے راستوں کی تلاش پر اکساتی ہیں۔ ایسا ہی ایک راستہ پاکستان اسلامک فرنٹ کا قیام بھی تھا۔ یہ جمہوری جدوجہد کا راستہ تھا جس پر آئینی یا اخلاقی اعتراض نہیں اٹھایا جا سکتا‘ لیکن اب میں جماعت اسلامی کے نوجوانوں میں اس جہاد اور انقلاب کی آمیزش سے ایک نئے احساس کو ابھرتا دیکھ رہا ہوں۔ جماعت اسلامی کی قیادت کو اس حوالے سے متنبہ رہنے کی ضرورت ہے۔
ہم سب کو 2 نومبر کے بعد بطور خاص یکسو ہو جانا چاہیے کہ پاکستان کی سلامتی آئین کی پاسداری اور اس کی روشنی میں پُرامن تبدیلی کی جدوجہد میں ہے۔ اس کے علاوہ ہر راستہ بربادی اور تباہی کی طرف جاتا ہے۔