"KNC" (space) message & send to 7575

ٹرمپ، پاپولزم اور جمہوریت

امریکہ میں صدارتی انتخابات کا مرحلہ تمام ہوا۔ یہ عام انتخابی عمل نہیں تھا، ایک بڑا سیاسی معرکہ تھا۔ یوں سمجھیے کہ پانی پت کی تیسری لڑائی تھی۔ فرق یہ تھا کہ اِس میں انسانی جان کا ضیاع تو دور کی بات کسی کی نکسیر تک نہیں پھوٹی۔ یہ جمہوریت کا فیضان ہے۔ معاشرے اب انسانی جان و مال کی قربانی دیے بغیر بڑی تبدیلیوں سے گزر سکتے ہیں۔
رائے عامہ کے جائزے مختلف تھے۔ امریکہ کے طاقت ور حلقے بظاہر ہیلری کلنٹن کے ساتھ تھے۔ دونوں کے مابین جب آخری مباحثہ ہوا تو ہیلری کا پلڑا واضح طور پر بھاری تھا۔ اس کی بنیاد تکلم، دلیل اور رویے پر تھی۔ نتائج سے یہ معلوم ہوا کہ امریکی عوام نے آخری تجزیے میںان باتوں کو زیادہ اہم نہیں جانا۔ بدتمیز ہونا ٹرمپ کے لیے سیاسی خسارے کا باعث نہیں بنا۔ یہ نعرہ کامیاب نہیں ہوا کہ امریکہ کا کوئی نظامِ اقدار ہے جسے ٹرمپ سے خطرہ ہے۔ سیاست کو عوام نے اقدار سے الگ کر کے دیکھا۔ 
ایسا کیوںہوا؟ اس کے چند اسباب ہیں۔ ایک سبب تو 'پاپولزم ‘ کی لہر ہے جو اس وقت دنیا بھر میں آئی ہوئی ہے۔ امریکی معاشرہ بہت سے مسائل کا شکار ہے۔ ایک مسئلہ وہ تساہل اور بے عملی ہے جو خوش حالی اور آسودگی کا ایک نتیجہ ہوتی ہے۔ امریکہ میں ریاست نے شہریوں کے لیے ایک بہتر معیار زندگی طے کر دیا اور اس کے لیے وسائل بھی فراہم کر دیے۔ اگلا مرحلہ اس کو برقرار رکھنا تھا۔ عام امریکی شہری اب یہ چاہتا ہے کہ وہ زیادہ کام نہ کرے اوراسے زندگی کی تمام آسائشیں میسر رہیں۔ یہ قانونِِ قدرت کے خلاف ہے۔ ریاست کو اپنے معاملات چلانے کے لیے رجالِ کار یعنی ماہرین کی ضرورت ہوتی ہے۔ امریکہ کے شہری اس محنت کے لیے آمادہ نہیں جو ایسے ماہرین کی تیاری کے لیے ضروری ہے۔ اب امریکہ نے اپنے معاملات چلانے کے لیے دنیا بھر کی ذہانتوں کو اپنے ہاں پرکشش مراعات پر جمع کرنا شروع کر دیا۔ ایک وقت آیا کہ یہ لوگ امریکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی بن گئے۔
ان لوگوں کو جو معاوضہ دیا جاتا ہے، اس کا ایک حصہ امریکہ میں رہتا ہے اور ایک زرِ مبادلہ کی صورت میں ان ملکوں کو منتقل ہو جاتا ہے جہاں سے یہ ماہرین آتے ہیں۔ یہ عمل دو سطحوں پر ہو رہا ہے۔ ایک اعلیٰ ترین ذہنی سطح پر اور دوسرا روزمرہ کی مزدوری پر۔ عام امریکی ایک کام کا اہل نہیں ہے اور دوسرا کرنا نہیں چاہتا۔ اس خلا کو باہر سے آنے والے نے بھر دیا ۔ عام امریکی کی اس نا اہلی کے سبب اس کے لیے روزگار کے مواقع محدود ہونے لگے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں کوئی کسی سے ہمدردی نہیں کرتا۔ سرمایہ اسی کے ساتھ ہے جو اس کی بڑھوتی کا باعث ہے۔ 'سلیکان ویلی‘ بھارتی ماہرین سے بھری ہوئی ہے۔ بظاہر یہ امریکہ کا اعزاز ہے لیکن بھارتیوں کے دم سے قائم ہے۔ اس لیے سرمایہ دار انہی کو ترجیح دے گا۔
عام امریکی جب پیچھے رہ گیا اور اس کے لیے روزگار وغیرہ کے مسائل پیدا ہوئے تو اس نے خود کو غیر محفوظ محسوس کیا۔ اس کو اندازہ ہوا کہ یہ سب ان لوگوں کی وجہ سے ہے جو دوسرے ملکوں سے آئے ہیں اور انہوں نے ان کے حق پر ڈاکہ ڈالا ہے۔ دوسری طرف بطور استعمار، امریکہ کے توسیعی عزائم ہیں۔ افغانستان اورمشرقِ وسطیٰ میں اسے اپنا تسلط قائم رکھنا اور اسرائیل کی حفاظت کرنی ہے۔ یہ کام سر مایے کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ دنیا کا خلفشار اگر چہ اس کی اسلحے کی صنعت کے لیے ایک بڑی مارکیٹ فراہم کر تا ہے لیکن اس کے ساتھ اس پر خرچ بھی بہت اٹھتا ہے۔ اس کے لیے امریکہ کو بہت سر مایہ چاہیے۔ اس کے ایک ناگزیر نتیجے کے طور پر ریاست عوامی فلاح پر اتنی رقم خرچ نہیں کر سکتی جو لازم ہے۔ اس سے بھی عام آ دمی متاثر ہو رہا ہے۔ 
عام آدمی کی نفسیات یہی ہے کہ وہ اپنے مسائل کا ذمہ دار خارج میں تلاش کرتا ہے۔ اس کو یہ بات آسودہ کرتی ہے کہ اپنے مسائل کا سبب وہ خود نہیں کوئی اور ہے۔ وہ ریاست کے پیچیدہ معاملات میں الجھے بغیر اپنے مسائل کا کوئی سادہ حل چاہتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ان عوامی جذبات کو زبان دے دی ہے۔ وہ عام آدمی کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ اس نے اسے بتایا کہ تم درست کہتے ہیں۔ اگر یہ عرب اور مسلمان امریکہ سے نکل جائیں تو یہاں امن قائم ہو جائے گا۔ اگر میکسیکو اور امریکہ کے درمیان دیوار کھڑی کر دی جائے تو امریکہ کے لوگوں کو روزگار مل جا ئے گا۔ پورپ کو اپنا دفاع خود کرنا چاہیے۔ 'پاپولزم ‘ یہی ہوتا ہے۔ ٹرمپ عام امریکی کو یہ باورکرانے میں کامیاب رہا کہ اس کے مسائل کا حل خارج میں ہے۔
یہ تجزیہ درست نہیں ہے۔ امریکہ میں دوسرے ملکوں کے لوگوں نے موجود خلا کو بھرا ہے جو ایک فطری عمل ہے۔ یہ کام صرف امریکہ نہیں، یورپ کے بہت سے ممالک میں بھی ہو رہا ہے۔ برطانیہ کے لوگ بھی یہی سمجھتے ہیں اور اسی لیے انہوں نے خود کو یورپی یونین سے آزاد کیا۔ یہ لوگ یہ نہیںجان رہے کہ عالمگیریت کے تحت بعض باتیں ناگزیر ہیں۔ یہ کبھی یک طرفہ عمل نہیں ہو سکتا۔ دوسرا یہ کہ دوسرے ممالک کے باصلاحیت لوگ ان کی ناگزیر ضرورت ہیں۔ ذرا تصور کیجیے کہ کل بھارت کے آئی ٹی کے ماہرین اور پاکستان کے ڈاکٹر امریکہ سے نکل جائیں تو امریکہ میں کیسا بحران پیدا ہو گا؟ اگر عرب اپنا سرمایہ امریکی بینکوں سے نکال لیں تو امریکی معیشت کا کیا بنے گا؟ 
'پاپولزم‘ کو ان باتوں سے غرض نہیں ہوتی۔ اِس نے قیادت کے تصورکو الٹ دیا ہے۔ قیادت عام آ دمی کے جذبات کی ترجمانی کا نام تو ہے، سوچ کی ترجمانی کا نام نہیں۔ عام آ دمی چاہتا ہے کہ اسے ضروریاتِ زندگی میسر آئیں۔ یہ اس کے جذبات ہیں۔ لیڈر اس کو قبول کرتا ہے لیکن وہ ان ضروریات کی فراہمی کے لیے اپنی بصیرت سے کوئی حل تجویز کرتا ہے جو ضروری نہیں کہ عوامی سوچ کے مطابق ہو۔ قیادت اسی کا نام ہے کہ وہ عوامی سوچ کو اپنی فکر کے تابع کرے۔ 'پاپولزم‘ کے نتیجے میں جو لوگ سامنے آتے ہیں، ان کی قیادت کے دو ہی نتائج ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ وہ برسرِ اقتدار آکر زمینی حقائق کے سامنے سر نگوں ہو جائیں ۔ دوسرا یہ کہ وہ اس نظام کو بیک جنبشِ قلم تبدیل کرنا چاہیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو عام لوگ جلد مایوس ہو نا شروع ہو جائیں گے جن کو انہوں نے باور کرایا ہوتا ہے کہ ان کے پاس مسائل کا ایک سادہ حل موجود ہے اور یہ دنوں کا معاملہ ہے۔ اور اگر وہ ایسا کرنے کی کوشش کریں گے تو ان کی ناکامی یقینی ہے۔ دنیا میں مثبت تبدیلی کا کوئی طریقہ ارتقا کے علاوہ ایجاد نہیں ہوا۔ ارتقا وقت طلب عمل ہے۔ ہیجان میں انتظار نہیں ہوتا۔ عام طور پر لوگ پہلے طریقے ہی کو اختیار کر تے ہیں۔ ٹرمپ کے بارے میں میرا خیال یہ ہے کہ وہ بھی یہی کریں گے۔ امریکہ کی داخلی اور خارجہ پالیسی میں کوئی جوہری تبدیلی شاید ممکن نہ ہو۔
ان انتخابی نتائج اور پاپولزم کی لہرسے دو باتیں ہم سب کی توجہ چاہتی ہیں۔ ایک یہ کہ سرمایہ دارانہ نام کو پھر ایک نئے چیلنج کا سامنا ہے۔ پہلا چیلنج کیمونزم کا تھا۔ سرمایہ داری نے فلاحی ریاست کے تصور کوکسی حد تک قبول کرتے ہوئے،کامیابی سے کیمونزم کا توڑ کر لیا۔ اب ایک بار سرمایہ دار کو اپنے منافع کا کچھ حصہ مزید نکالنا ہو گا۔ ہوسِ زر پر نئی قید ناگزیر ہو چکی ہے۔ دوسرا یہ کہ اگر جمہوریت نہ ہوتی تو امریکی معاشرے میں اٹھنے والا غبار کسی خانہ جنگی پر منتج ہوتا۔ امریکہ کسی بڑے فساد سے گزرے بغیر ایک تبدیلی سے گزر گیا۔ مجھے حیرت ہے جو بات جمہوریت کے حق میں جاتی ہے، لوگ اس کو جمہوریت کا عیب بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ اگر امریکی عوام نے غلط فیصلہ کیا تو چار سال بعد ان کے پاس موقع ہوگا کہ وہ اس کی تلافی کر دیں۔غلط فیصلہ کسی نظام میںبھی ہو سکتا ہے لیکن تلافی کا راستہ صرف جمہوریت میں ہوتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں