جمعرات کی شام وزیر اعظم ہاؤس میں ایک تقریب برپا ہوئی۔ بلاشبہ یہ ایک تاریخ ساز تقریب تھی۔ ایک گھنٹے میں جیسے پاکستان نے سیاسی بلوغت کے کئی مراحل طے کر لیے۔ پاک فوج کے سربراہ اپنی آئینی مدت پوری کرکے رخصت ہو رہے تھے اور ملک کا منتخب وزیر اعظم انہیں پورے اعزازکے ساتھ الوداع کر رہا تھا۔ یہ بات دونوں کے لیے باعثِ عزت تھی۔ وزیر اعظم کے لیے بھی اور آرمی چیف کے لیے بھی۔ خزاں کے موسم میں جمہوریت کے پیڑ پر برگ و بار آرہے تھے۔
جنرل راحیل شریف کے تین برسوں میں بھی سول ملٹری تعلقات ہمیشہ کی طرح موضوعِ بحث رہے۔ اس دوران میں، انہیں معمول کے مطابق (normal) قرار دینا مشکل ہے۔ ان گنت واقعات ہیں جو گواہی دیتے ہیں کہ ان تین برسوں میں ہماری تاریخ ماضی سے مختلف نہیں تھی۔ طاقت کے مراکز میں وہی کھینچا تانی رہی جو ہماری سیاسی تاریخ کا ایک مستقل باب ہے؛ تاہم اس بار دونوں اطراف سے حدود کا خیال رکھا گیا۔ اسی احتیاط نے ہمیں شکر کے یہ لمحات عطا کیے کہ ہم وزیر اعظم اور آرمی چیف، دونوں کی تعریف کر رہے ہیں۔
ضربِِ عضب ہماری تاریخ کا ایک درخشاں باب ہے۔ یہ سیاسی اور عسکری قیادت‘ دونوں کا متفقہ فیصلہ تھا۔ نواز شریف اور راحیل شریف سے پہلے کی سول اور ملٹری قیادتیں متذبذب رہیں۔ اس سے ملک اور عوام کو نقصان ہوا۔ نواز شریف صاحب کو یہ کریڈٹ ملنا چاہیے کہ انہوں نے سیاسی سطح پر اتفاقِ رائے پیدا کیا‘ اور پھر فوج اور حکومت کے مابین اتفاق ہوا۔ فوج اس آپریشن کے عملی پہلو کی ذمہ دار تھی۔ اس میں شبہ نہیں کہ جنرل راحیل شریف کی قیادت میں فوج کے جوانوں نے یہ ذمہ داری احسن طور پر نبھائی۔ انہوں نے اپنی جانیں نچھاور کیں اور دہشت گردی کے مراکز کو بربادکر دیا۔
تاہم یہ اس آپریشن کا محض ایک پہلو تھا۔ اہلِ سیاست نے قوم کو اس کی پشت پر لا کھڑا کیا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اس ملک میں طالبان کے حامی کم نہیں۔ اُن کو اگر کسی بات نے بے اثر بنایا تو وہ اہلِ سیاست کی یک سوئی تھی۔ انہوں نے وہ سماجی دباؤ قائم کیا کہ طالبان کے حامیوں کو خاموش ہونا پڑا‘ ورنہ ہم جانتے ہیں کہ لوگ فوجی شہدا کے جنازے پڑھنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ طالبان راہنماؤں کو شہید قرار دیتے تھے۔ اے این پی نے بطورِ خاص مشکل وقت گزارا۔ اس کی قیادت نے اپنی جانیں دیں۔ دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی مشکلات کا سامنا رہا۔ خوف کی اس فضا میں سیاسی حکومت نے اتفاق رائے پیدا کیا‘ اور پوری قوم فوج کی پشت پر کھڑی ہو گئی۔
حکومت اور اہلِ سیاست کے اس کردار کے اعتراف میں بعض لوگوں نے بغض سے کام لیا۔ مجھے اس پر حیرت رہی کہ جنرل راحیل شریف نے بھی کبھی اہلِ سیاست کی قربانیوں کا ذکر نہیں کیا۔ انہوں نے میڈیا سمیت دیگر طبقات کو سراہا لیکن سیاست دانوں کی کبھی تحسین نہیں کی۔ یہ رویہ بھی اس سرد جنگ کی عکاسی کرتا ہے‘ جو ان تین برسوں میں جاری رہی۔ دوسری طرف سے البتہ فوج اور جنرل راحیل شریف کے کردار کو ہمیشہ سراہا گیا۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ میڈیا میں جو لوگ فوج کے سیاسی کردار کے ناقد ہیں اور اس وجہ سے ان کی حب الوطنی کو ہمیشہ مشکوک سمجھا جاتا رہا، انہوں نے بھی جنرل راحیل کی تعریف کی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قوم میں موجود اختلافِ رائے کو قومی مفاد کے تناظر میں دیکھنے کے بجائے، اختلافِ رائے ہی کے دائرے میں دیکھنا چاہیے‘ جو فطری ہے۔ اس کے بعد مکالمے کا امکان باقی رہتا ہے اور اتفاقِ رائے کا بھی۔
میڈیا کے ایک طبقے نے ان تین برسوں میں جنرل راحیل شریف کو متبادل سیاسی قیادت کے طور پر پیش کیا۔ یہ ایک غیر ضروری اور غیر آئینی تقابل تھا۔ جنرل راحیل کا تقابل اگر ہو سکتا تھا تو جنرل اشفاق کیانی سے‘ یا جنرل مشرف سے۔ نواز شریف کا تقابل بھی کسی سیاست دان سے ہونا چاہیے۔ یہ رویہ غیر سیاسی ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی حرکیات سے بھی عدم واقفیت کی دلیل ہے۔ جب ہم فوجی قیادت کو متبادل سیاسی قیادت کے طور پر پیش کرتے ہیں تو دراصل مارشل لا کی وکالت کر رہے ہوتے ہیں۔ اس ملک کے میڈیا میں ایک گروہ نے بڑے ذوق و شوق کے ساتھ یہ مقدمہ پیش کیا۔ اللہ کا شکر ہے کہ جنرل راحیل شریف اس سے متاثر نہیں ہوئے۔ یہ ان کے لیے بہتر ہوا اور پاکستان کے لیے بھی۔
جنرل راحیل شریف کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے پاکستان کی سلامتی کو درپیش اصل خطرے کو درست طور پر سمجھا۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے آرمی چیف بننے سے پہلے یہ تجزیہ کیا تھا کہ پاکستان کی سلامتی کو درپیش پہلا خطرہ بھارت نہیں، دہشت گردی ہے۔ اس نے بطور ادارہ فوج کے کردار کی تفہیمِ نو کی۔ اس کے بعد، گرین بک میں خطرات کی فہرست میں درج ترجیحات تبدیل ہوئیں۔ خطرات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے۔ ایک دور میں اگر بھارت سب سے بڑا خطرہ تھا تو لازم نہیں کہ کچھ وقت بعد بھی صورتِ حال وہی ہو۔ فوج کو وقتاً فوقتاً حالات کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے اور ترجیحات پر نظرثانی کرنا چاہیے۔ جنرل راحیل شریف نے یہ ذمہ داری ادا کی اور اس کا نتیجہ ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے مراکز کو ختم کیا۔ اب فوج بھارت کے خطرے سے زیادہ بہتر انداز میں نبرد آزما ہو سکتی ہے۔ ترجیحات کی یہ تبدیلی جنرل راحیل شریف کو پاک فوج کی تاریخ میں ایک منفرد مقام دلانے کے لیے کافی ہے۔
نواز شریف صاحب نے ان تین سالوں میں جس طرح سول ملٹری تعلقات کے توازن کو برقرار رکھنے کی کوشش کی، اس کو بھی سراہا جانا چاہیے۔ ناخوشگوار لمحات میں بھی، انہوں نے ضبط کا دامن نہیں چھوڑا۔ انہوں نے سول بالادستی کو قائم کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے ساتھ فوج کے وقار کو بھی مجروح نہیں ہونے دیا۔ بعض بہت نازک مواقع آئے لیکن انہوں نے محاذ آرائی سے گریز کیا۔ دو وزیروں کی قربانی دی‘ لیکن تعلقات کو تلخ تر ہونے سے بچایا۔ بہت سی بے اعتدالیوں کو نظرانداز کیا۔ اہم بات یہ ہے کہ جنرل راحیل شریف نے بھی جواباً اِسی روح کے ساتھ معاملات کو دیکھا۔ جب سیاسی حکومت نے تعاون کیا تو انہوں نے کسی معاملے کو انا کا مسئلہ نہیں بننے دیا۔ اسی طرح توسیع کے معاملے کو بھی انہوں نے باوقار انداز میں نمٹایا۔
نواز شریف صاحب نے جس حکمت کے ساتھ سول بالادستی کو قائم کرنے کی کوشش کی، یہ جمہوریت کے مستقبل کے لیے نیک شگون ہے۔ آئینی مدت کی تکمیل کے بعد، آرمی چیف کی شاندار رخصتی کے اثرات بہت دیرپا ہوں گے۔ اس سے یقیناً یہ سوچ آگے بڑھ کر ایک روایت میں ڈھلے گی کہ اگر عوام کو جواب دہی کی ذمہ داری وزیر اعظم اور منتخب حکومت پر ہے تو پھر یہ حق بھی انہیں کو ملنا چاہیے کہ وہ آئین کے دائرے میں بنیادی فیصلے کریں۔ وزیر اعظم نواز شریف نے گزشتہ سالوں میں جائز سول بالادستی کے لیے جو کوشش کی، میرا خیال ہے کہ اس کا اعتراف تو کیا جائے گا مگر بھٹو صاحب کی طرح پسِ مرگ۔ جو لوگ بھٹو صاحب کو جیتے جی قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے رہے، ان کے مرنے کے بعد ان کو بڑا نیشنلسٹ لیڈر مانتے ہیں۔
جنرل راحیل شریف نے جس باوقار انداز میں اپنی ذمہ داری نبھائی، قوم کے دلوں میں ہمیشہ اس کی قدر رہے گی۔ ایک پیشہ ور فوجی کے طور پر ان کا احترام باقی رہے گا۔ آج جنرل پرویز مشرف اور جنرل راحیل شریف کا موازنہ کرکے دیکھا جا سکتا ہے کہ جب کوئی آئین اور قانون کو محترم جانتا ہے تو اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں کو اس کے احترام سے بھر دیتا ہے۔ آپ آئین اور عہد کو پامال کرکے اپنے عہدِ اقتدار میں تو اضافہ کر سکتے ہیں، اپنی عزت میں نہیں۔ بلاشبہ اس میں بڑی عبرت ہے ان کے لیے جو آنکھیں رکھتے ہیں۔