خود احتسابی ہمار اقومی شعار نہیں۔ورنہ میڈیا ہاؤسز، چینلز اور اخبارات کے ذمہ داران کو اس سوال پر مل بیٹھنا چاہیے کہ گزشتہ تین سالوں میں انہوں نے قوم کو کیا دیا...اضطراب، ہیجان، افواہیں،قیاس آرائیاں اور ناامیدی یا پھراس کے سواکچھ ؟
سچ یہی ہے کہ گزرے تین سالوں میں،میڈیا کے ایک حصے نے، بحیثیتِ مجموعی، قوم کو مسلسل ہیجان میں رکھا۔افواہوں اور پیش گوئیوں کا بازار گرم رہا۔اِن چینلز کو چوبیس گھنٹے چلنا تھا۔ اپنا پیٹ بھر نے کے لیے انہوں نے قوم کو مضطرب رکھا۔وہ وہ لوگ دیکھنے کو ملے اور ایسی ایسی گفتگو سننے کو ملی کہ عقل و خرد ہی نہیں، تہذیب اور شائستگی بھی منہ چھپائے پھرتے تھے۔ایسے ایسے لوگ بطور دانش ور سامنے لائے گے کہ لفظ دانش ہی اپنی قدر کھو بیٹھا۔منتخب حکومت بطورِ خاص ہدف رہی۔جمہوریت کا وہ ناجائز فائدہ اٹھایا گیا کہ الامان و الحفیظ۔مجھے لوگ مدعو کر تے ہیں مگر بعض لوگوں کے شخصی احترام کے باوجود،ان پروگروموں میں جانے کو دل نہیں چاہتا۔ریٹائرڈ فوجی افسران کی ایک کھیپ ،ان تین سالوں میں سامنے آئی ہے جن کے تعارف میں دفاعی ماہرین لکھا جاتا ہے لیکن وہ دفاع کے علاوہ ہر موضوع پر گفتگو کرتے ہیں۔ان میں چند صاحبانِ علم بھی ہیں لیکن اکثریت صرف جمہوریت کو بدنام کر نے کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہے۔دلیل تو خیر کیا ہوگی،اسلوبِ گفتگو بھی ایسا کہ طبیعت مکدر ہو جائے۔
ان تین سالوں میںمیڈیا نے شیخ رشید کو جتنا وقت دیا،اس کاتو ضرور حساب ہو نا چاہیے۔عوامی تائید؟سیاسی فہم؟حالات پر نظر؟سیاسی تدبر؟آخر وہ کیامعیارتھا، جس پرپرکھتے ہوئے، انہیں اتنا وقت دیا گیا؟تفریح؟یقیناً یہ ایک معیارہو سکتا ہے مگر انٹرٹینمنٹ کے پروگراموں کے لیے الگ سے چینلز مختص ہیں یا پروگرام۔انہیں تو سیاسی پروگراموں میں مدعو کیا جاتا رہا ہے۔اس عدم توازن کے دوہی اسباب ہوسکتے ہیں۔ایک یہ کہ ٹی وی چینلز میں کوئی ایسا فرد موجود نہیں جو نفسِ مضمون(content)پر نظر رکھنے والا ہو۔یاپھر یہ ذمہ داران بھی سیاست کوتفریحِ طبع کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔وجہ جو بھی ہو، کم از کم الفاظ میں افسوس نا ک ہی قرار پائے گی۔
فوج اور جنرل راحیل شریف کو جس طرح متوازی سیاسی قوت کے طور پر پیش کیا گیا،یہ غیر ذمہ داری ہے۔جنرل راحیل شریف نے ا پنا دامن بچا لیا۔وہ اس آگ کا ایندھن نہیں بنے۔لیکن بظاہر ان کی مدح کرنے والوں نے ان کی ذات اور اس عظیم ادارے کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔فوج قوم کی نظر میں کبھی متنازع ادارہ نہیں رہا۔جس نے بھی اس کو سیاسی حریف بنا یا،اس نے اسے متنازعہ بنایا۔یہ کام ایوب خان نے کیا،جنرل ضیاالحق نے کیا اور جنرل مشرف نے کیا۔یہ کام ان لوگوں نے کیا جو ان جرنیلوں کے دست و بازو بنے۔یا پھر وہ جنہوں نے فوج کو سیاسی عمل میں شرکت کی دعوت دی۔ہمارے میڈیاکے ایک بڑے حصے نے گزشتہ تین سال یہی کیا۔
منتخب حکومت بطورِخاص میڈیا کا ہدف رہی۔یہ تنقید کا معاملہ نہیں تھا۔ یہ حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی ایک شعوری کوشش تھی۔آزادیٔ رائے کے نام پر اضطراب پیدا کیا گیا۔ حکومت کو فوج سے لڑایا گیا۔اسے قومی اداروں کے مقابلے میں ایک ولن کے طور پر پیش کیا گیا۔اس کے خاتمے کے لیے مہم چلائی گئی۔ایسے لوگوں نے اکثر اپنی بندوق فوج کے کندھوں پر رکھی۔انہوںنے اپنے بارے میں 'محرم ِ راز درونِ مے خانہ‘ ہونے کا تاثر دیا۔فوج کے خود ساختہ ترجمان بنے رہے۔ایسے لوگوں نے حکومت کے خلاف اُن سیاسی قوتوں کے غیر آئینی اقدامات کو بھی جائز کہا جو حکومت کے خاتمے کے لیے سب کچھ کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ان کا ایک نکاتی ایجنڈا تھا۔حکومت کا غیر آئینی طریقے سے خاتمہ۔
فوج کی نئی قیادت کے لیے بھی یہ طرزِ عمل لمحہ فکریہ ہے۔فوج کو اپنے طور پر بھی یہ دیکھنا ہوگا کہ فوج اور حکومت کے مابین محاذ آرائی کا تاثر کون اور کیوں پیدا کرتا ہے؟ان اداروں کے درمیان اختلافِ رائے کا ہونا کوئی انہونی بات نہیں،اس بات کو مگر بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا تا ہے۔میڈیا کا ایک حلقہ مسلسل سول حکومت اور فوج کو متحارب گروہ کے طور پر پیش کر تا ہے۔اس کے ساتھ وہ یہ تاثر بھی دیتا ہے کہ جیسے انہیں فوج کی تائید حاصل ہے۔یہ لوگ اکثر یہ کام قومی سلامتی کے خود ساختہ محافظ کے طور پر سر انجام دیتے ہیں۔جیسے اس بات کی مسلسل تشہیر کہ نوازشریف مودی یا بھارت سرکار کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور یہ بات فوجی قیادت کو پسند نہیں۔تعلقات کو بہتر بنانے کی خواہش اور نرم گوشہ دو مختلف باتیں ہیں۔یہاں انہیں ایک مفہوم میں پیش کیا جاتا ہے۔
فوجی قیادت کو اب دیکھنا ہوگا کہ ان تین سالوں میں سول میڈیا تعلقات کے باب میں میڈیا کا رویہ کیا رہا؟کون لوگ بے پر کی اڑاتے رہے۔میرے نزدیک منتخب عوامی حکومت اور فوج میں غلط فہمی پیدا کرنا فوج کو متنازع بنانا ہے جو سنگین جرم ہے۔فوج کومنتخب عوامی حکومت کے بالمقابل لا کھڑا کرنے کا مطلب،قوم کے اُس طبقے میں فوج کو متنازع بنانا ہے جس نے ایک جماعت کو برسرِ اقتدار لانے کے حق میں اپنی رائے دی۔ضیاالحق صاحب نے پیپلزپارٹی کے خلاف ہونے کا تاثر دے کر فوج کو پیپلزپارٹی کے حلقوں میں متنازع بنایا۔یہی کام جنرل مشرف نے ن لیگ کے حامیوں کے لیے کیا۔میڈیا کا کوئی حصہ اگر یہ کام کر تا ہے تو وہ فوج کو متنازع بناتا ہے۔ فوج کو اس عمل کا تنقیدی جائزہ لینا چاہیے اور مستقبل میں اس پر نظر رکھنی چاہیے کہ یہ لوگ خود کو فوج کا ترجمان بنا کر پیش نہ کریں۔
آنے والے دنوں میںسول ملٹری تعلقات کا بڑا انحصار اس باب میں میڈیا کے کردار پر ہے۔ایسے لوگ خاموش نہیں بیٹھنے والے۔چند دن سستانے کے بعد، وہ ایک بارپھر تازہ دم ہو کر اس محاذ پر سرگرم ہو جائیں گے۔جنرل راحیل شریف جس با وقار انداز میں رخصت ہوئے،اس نے فوج کی مقبولیت کو ایک بار پھرعروج پر پہنچا دیا ہے۔اس مقبولیت کو بر قرار رکھنافوج کی نئی قیادت کا سب سے بڑا امتحان ہوگا۔اس کے لیے میڈیا کے اس حصے پر نگاہ رکھنی ضروری ہے جو بزعمِ خویش فوج کا ترجمان بن کرسول اور فوجی قیادت میں غلط فہمیاں پیدا کر تا ہے۔اس کی سب سے بڑی نشانی فوجی قیادت کو سیاسی قیادت کا متبادل بنا کر پیش کر نا ہے۔
2013ء میں ایک منتخب حکومت کے ہاتھوں دوسری منتخب حکومت کو اقتدار کی منتقلی اور2016ء میں فوج کی قیادت، ایک ہاتھ سے، بغیر کسی توسیع کے،دوسرے ہاتھ کو منتقلی، ہماری جدیدتاریخ کے دواہم ترین واقعات ہیں۔یہ سیاسی استحکام کے سفر میں دو انتہائی اہم سنگ ہائے میل ہیں۔ موجودہ سیاسی اور فوجی قیادت کو یقینی بنانا ہے کہ یہ سفر اسی تسلسل کے ساتھ جاری رہے۔سیاسی استحکام ان شااللہ معاشی اور سماجی استحکام کے راستے کھولے گا۔