حلب کا فساد بہت دل سوز ہے۔ کچھ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اسے پاکستان اور عالمِ اسلام کے گلی محلے تک پھیلا دیا جائے۔ یہ اس کی مذہبی تعبیر کے بغیر ممکن نہیں۔
واقعہ سادہ ہے۔ خطے میںعرب بہار کی ہوا چلی تو آمریت و بادشاہت میں جکڑی انسانیت کی سوکھی ٹہنیوں پر، انسانی آزادی کے برگ و بار نمودار ہونے لگے۔ تیونس، مصر اور پھر شام۔ شام برسوں سے آ مریت کی زد میں ہے۔ ایک فوجی بغاوت کے بعد حافظ الاسد اقتدار پر قابض ہوئے اور پھر حسب روایت ان کا بیٹا۔ شام کے لوگوں کی اکثریت سنی ہے اور یہ خاندان شیعوں میں سے بھی ایک اقلیتی گروہ ہے۔حکمران عدل کرنے والے ہوں تو فقہ اور مسلک زیر بحث نہیں آتے۔ جب اکثریت کے ساتھ ظلم ہو تو حکمران ہر طرح سے زیر بحث آتے ہیں۔ وہ عوام سے الگ ایک گروہ شمار ہوتے ہیں۔ یوں ان کی نسل پر بات ہوتی ہے اور مسلک پر بھی۔
حلب سے پہلے 1982ء میں بھی ایک قیامت شام کے ایک دوسرے شہر،حماہ کے شہریوں پر ٹوٹی تھی۔ حافظ الاسد نے اپنے بھائی کے ساتھ مل کر اس شہر کے کم و بیش چالیس ہزار افراد کو قتل کر دیا تھا۔ لوگوں نے مظالم سے بھاگ کر ایک پائپ میں پناہ لی تو اسے تیل سے بھر کے آگ لگا دی گئی۔ یہ اہل وطن کے ساتھ شام کے حکمرانوں کا سلوک تھا۔ یہ حضرت بشارالاسد کے والد تھے۔ 2000ء میں باپ کے مرنے کے بعد اقتدار بیٹے کو منتقل ہو گیا۔ عرب بہار کی لہر اٹھی تو یہاں کی نئی نسل میں جوش پیدا ہوا۔ چند نوجوانوں نے جسارت کی اور ایک قصبے کی دیواروں پر کچھ نعرے لکھ دیے۔ بشارالاسد کو اچھا نہیں لگا۔ یہ وہ تھے جنہوں نے جوانی میں بس قدم ہی رکھا تھا۔ تشدد ہوا اور تیرہ سالہ حمزہ الخطیب کی جان چلی گئی۔ یہ آغاز جمہوری تھا مگر افسوس کہ اس کی باگ مسلح گروہوں کے ہاتھ میں چلی گئی۔
عراق اور خطے میں پہلے سے برپا فساد میں، جن پُر تشدد اور جنگجو تنظیموں نے جنم لیا، انہوں نے یہاں کا بھی رخ کر لیا۔ داعش وجود میں آئی تو شام اور عراق کا کچھ علاقہ اس کے قبضے میں چلا گیا۔ پھر بہت سی نئی تنظیمیں وجود میں آئیں۔ القاعدہ پہلے سے موجود تھی۔ عالمی اور علاقائی قوتیں بھی اقتدار کی کشمکش میں فریق تھیں۔ اس نئی صف بندی میں آج ایران، بشارالاسد اور روس ایک طرف ہیں اور سعودی عرب، قطر اور ترکی دوسری طرف۔ امریکہ ابتداء میں بشارالاسد کے خلاف تھا مگر اب گو مگو میں ہے۔ بشارالاسد کے خلاف داعش، القاعدہ کی مقامی تنظیم نصرت فرنٹ اور حرکۃ النورالدین زنگی جیسے مسلح گروہ برسر پیکار ہیں۔ حلب کے ایک حصے پر انہی کا قبضہ تھا۔ یہاں قریب سے ترکی کی طرف واحد سڑک جاتی ہے جسے داعش کے لوگ تیل کی سمگلنگ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یوں حلب کے قبضے میں اس کے جنگجو بھی شریک ہو گئے۔ امریکہ ان کی مدد کرنا چاہتا ہے اور کسی حد تک کرتا بھی ہے۔ اس کی مشکل مگر یہ ہے کہ ایک طرف بشارالاسد ہے اور دوسری طرف داعش اور القاعدہ۔ ایران، حزب اللہ اور روس مکمل یکسوئی کے ساتھ بشارالاسد کے مددگار ہیں۔ ایران اور حزب اﷲ نے زمینی کمک پہنچائی اور روس کی فضائیہ نے آسمان سے گولے برسائے۔ حلب میں انسان مر گئے۔ شہر پر بشار الاسد کا قبضہ ایک بار پھر قائم ہو گیا۔
یہ اقتدار کا بے رحمانہ کھیل ہے۔ اس میں دونوں طرف قاتل بھی ہیں اور مقتول بھی۔ حلب کے شہریوں کو یرغمال بنا کر جنگجوؤں نے شہر پر قبضہ کیا۔ والیٔ شام نے اس قبضے کو چھڑانے کے لیے یہاں کے مکینوں کے قتل کو روا رکھا۔ دونوں فریقوں میں سے کوئی ایک بھی جمہوریت پر یقین نہیں رکھتا۔ معلوم نہیں لوگوں نے جمہوری محاذ کہاں سے برآمد کر لیا۔ اسی طرح کچھ لوگ اس سے مذہب کو بھی برآمد کرنا چاہتے ہیں۔ جس معرکے میں دونوں فریق مسلمان ہیں،اسے صلیبی جنگ بنایا جا رہا ہے۔ سالوں پہلے اقتدار کے اس کھیل میں شدت آئی تو صدر بش کے ایک غیر حکیمانہ جملے سے دلیل پکڑی گئی۔ اب روس متحرک ہے تو صدر پیوٹن کو مسیحیت کا نمائندہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ انسانوںکے بعد اس معرکے کا دوسرا ہدف مذہب ہے۔ انسانوں کا قتل عام جاری ہے ا ور مذہبی تعلیمات کا بھی۔
اگر حلب میں یہ صلیبی جنگ ہے تو مسلمانوں کا نمائندہ کون ہے؟داعش؟ نصرت فرنٹ؟بشارالاسد؟ کون ہے جو ان میں کسی کو اسلام کا نمائندہ کہہ سکے؟ جس معرکے میں اسلام فریق ہے نہ مسلمان بطور ایک اکائی، اس کا مسلمانوں سے بحیثیت ایک مذہبی گروہ کیا تعلق ہو سکتا ہے؟ اسی طرح پاکستانیوں کا بھی اس سے کوئی براہ راست تعلق نہیں۔ جو لوگ عالمی سطح پر مسلمانوں کو فریق بنا کر انہیں فساد میں جھونکنا چاہتے ہیں وہ اسے صلیبی جنگ قراردے رہے ہیں اور جومقامی سطح پرفرقہ وارانہ آگ بڑھکانا چاہتے ہیں وہ اسے شیعہ سنی رنگ دے رہے ہیں۔ مجھے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس میں مسلمان بطور ایک مذہبی گروہ شریک ہیں نہ سنی اور شیعہ بطور مسلک۔
مشرقِ و سطیٰ میں دو مسلمان ممالک طاقت کے کھیل میں حریف ہیں۔ یہ اتفاق ہے کہ دونوں کا تعلق دو مختلف مسالک سے ہیں۔ جنگ اور محبت میں چونکہ سب کچھ جائز ہو تا ہے،اس لیے دونوں اس معرکے میں مسلک کو بطور ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔ یہ ان ممالک کے حامی ہیں جو پاکستان میں میں تحفظ حرمین یا بحرین کی بات کر رہے ہیں یا 'ندائے حلب‘ بلند کر رہے ہیں ۔جس جنگ میں ہر اخلاقی قدر پامال ہو رہی ہو، دونوں فریق انسانوں کے قتلِ عام کو روا رکھے ہوئے ہوں،اس میں اسلام کسی طرح فریق نہیں ہو سکتا کیونکہ اللہ کے آخری رسولﷺ کی بعثت کا ایک مقصد مکارم ِاخلاق کی تکمیل ہے۔ اسی طرح جس جنگ سے بطور ملک پاکستان کے مفادات وابستہ نہ ہوں وہ بطور پاکستانی کسی طرح ہماری جنگ نہیں ہو سکتی۔ اس لیے بطور مسلمان اور بطور پاکستانی ہمیں اس سے دور رہنا چاہیے۔ دونوں حیثیتوں سے ہمارا کردار بس اتنا ہے کہ ہم ثالث بالخیر بن جائیں۔ یہ بھی ریاست کی ذمہ داری ہے کسی فرد کی نہیں۔
یہ وہ دائرہ ہے جس میںنیشنل ایکشن پلان کو بروئے کار آنا ہے۔ تمام ریاستی اداروں کے جائزے یہی کہتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ کی صورتِ حال سے پاکستان میں فرقہ واریت میں اضافہ ہوا ہے جو دہشت گردی کا سب سے بڑا محرک ہے۔ پاکستان میں بہت سے مذہبی جماعتیں حلب کے نام پرلوگوں کے جذبات کومشتعل کر رہی ہیں۔ میں نہیں جان سکا کہ حکومت اس معاملے میں کیوں خاموش ہے؟
بادشاہتوں کے خلاف جمہوری جدو جہد تیونس میں ہوئی ہے یا پھر مصر میں۔ تیونس میں راشد الغنوشی جیسے بیدار مغز لوگ مو جود تھے جنہوں نے جمہوری جدو جہد کو ضائع ہو نے سے محفوظ رکھا۔ مصر میں بدقسمتی سے صدر مرسی حالات کی نبض پر ہاتھ نہ رکھ سکے۔ جنرل سیسی جیسے لوگوں کے اقتدار کے غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہونے میں کوئی شبہ نہیں مگر جب ایسے لوگ بالمقابل ہوں جو کسی اخلاقی قدر اور قانون کو تسلیم نہ کرتے ہوں تو پھر زیادہ حکمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ افسوس کہ مصر میں اس کا اہتمام نہ ہو سکا اور ظلم کا ایک نیا باب کھل گیا۔ رہا شام تو اس میں اس وقت کوئی جمہوری جدو جہد نہیں ہو رہی۔ اقتدار کا بے رحمانہ کھیل جاری ہے جو کسی اخلاقی اور قانونی ضابطے کا پابند نہیں۔
عام شہریوں کو اس کھیل کا ایندھن بنانے سے بچانا،اس وقت اقوامِ متحدہ اور انسانیت پر یقین رکھنے والوں کی ذمہ داری ہے۔ ہمیں بطور ریاست اور قوم اس کے لیے آواز اٹھانا چاہیے۔اس معرکے میں فریق بننا یا اس جنگ کو اپنے گھر لانا نہ بطور مسلمان ہماری ذمہ داری ہے نہ بطور پاکستانی اس میں ہمارا مفاد ہے۔