کیا 2018ء کے بعد بھی ملک کی باگ ن لیگ ہی کے ہاتھ میں رہے گی؟ کیا یہ اس سماج کے سیاسی بانجھ پن کی علامت ہے؟
تاریخ کا عمل،خیال یہی ہے کہ ارتقا کے اصول پر منحصر ہے جو مسلسل حرکت کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ ہیگل نے اسے بیان کیا اور نطشے نے اصلاحات کا لبادہ پہنا دیا۔ ہر دعوے(Thesis) کا ایک جوابِ دعویٰ (Antithesis)ہوتا ہے۔ دعویٰ ایک وقت کے بعد غیر متعلق ہونے لگتا ہے تو جوابِ دعویٰ نمودار ہوتا ہے۔ پھر دونوں کے مابین ایک امتزاج(Synthesis) وجود میں آتا ہے۔ یہ سفر یہاں تھم نہیں جاتا۔ یہ امتزاج پھر ایک دعویٰ میں ڈھل جاتاہے۔ پھر اس کا جوابِ دعویٰ اور یوں زندگی کا سفر اعلیٰ ترین حقیقت کی دریافت کے لیے جاری رہتا ہے۔ فوکویاما نے دورِ حاضر پراس اصول کا انطباق کیا اور فیصلہ سنایا کہ اس وقت جو دعویٰ وجود میں آچکا، اس کا کوئی جوابِ دعویٰ نہیں ہے۔ اس طرح تاریخ کا عمل اپنے اختتام کو پہنچا۔ فلسفی کو بہت جلد اپنی غلطی کا احساس ہوا اور اسے اپنی رائے سے رجوع کرنا پڑا۔
ن لیگ پاکستان کی سیاست میں ایک دعوے کا عنوان ہے۔ زندگی اگر رواں دواں ہے تو پھر اس کا جواب ِ دعویٰ بھی وجود میں آنا چاہیے تھا۔ ماضی میں جھانکیے تو ایک دور میں پیپلزپارٹی ایک 'دعویٰ‘ تھی۔ اس کی کمزوریوں سے ایک جوابِ دعویٰ نمودار ہوا جو ابتدا میں جماعت اسلامی کی صورت میں تھا۔ پھر اس نے قومی اتحاد اور اسلامی جمہوری اتحاد کی شکل اختیار کی۔ ان دونوں کے تضادات اوراختلافات سے ن لیگ برآمد ہوئی جو میرا خیال ہے کہ 'امتزاج‘ تھا۔ گزشتہ بیس بائیس سال سے ن لیگ دعویٰ بن چکی۔ آج تک اس کا کوئی جوابِ دعویٰ سامنے نہیں آ سکا۔
جوابِ دعویٰ کے لیے لازم ہے کہ وہ دعوے میں موجود خلا اورکمزوریوں کا جواب ہو۔ پیپلز پارٹی جوابِ دعویٰ نہیں بن سکتی تھی۔ تحریک انصاف نے ابتدا میں یہ تاثر دیا۔ فطری اصول کے تحت اس کی پذیرائی بھی ہوئی۔ بعد میں مگر وہ اپنے خواص کھوتی چلی گئی، یہاں تک کہ اس کے تمام امتیازات ختم ہو گئے جو اسے جوابِ دعویٰ بنا سکتے تھے۔ اب وہ اسی سیاست کی عَلَم بردار ایک جماعت ہے جس کا عَلَم پہلے ہی مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی نے تھام رکھا ہے۔ آج صورتِ حال یہ ہے کہ ایک ہی 'دعوے‘ کے تین نمائندے ہیں۔۔۔۔ ن لیگ، پیپلزپارٹی اور تحریکِ انصاف۔ تینوں اقتدار کا حصہ ہیں۔ تینوں کے تصورِ سیاست یا اسلوبِ حکومت میں کوئی جوہری فرق سامنے نہیں آ سکا۔ ن لیگ چونکہ اس دعوے کی سب سے موثر نمائدگی کی صلاحیت رکھتی ہے، اس لیے یہ سمجھا جا رہا ہے کہ 2018ء میں بھی میدان اسی کے ہاتھ رہے گا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی اور یہ امکان بھی موجود ہے کہ کے پی میں تحریک انصاف ہی ایک بار پھر صوبائی حکومت بنا لے۔
یہ اس بات کی علامت ہے کہ پاکستان کی سیاست ایک مدت سے جمود کا شکارہے۔ یہ کسی ارتقا کا مظاہرہ نہیں کر سکی۔ کے پی کی سیاست میں قدرے حرکت رہی لیکن تحریکِ انصاف کی روایتی سیاست نے اسے پھر سے غیر متحرک کردیا ہے۔ پر ویز خٹک صاحب نے سیاسی بقا کے لیے صوبائی عصبیت میں پناہ لینے کی کوشش کی ہے۔ شایدآئندہ انتخابات میں وہ اسی کو استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ن لیگ بدقسمتی سے اپنی پنجابی شناخت سے باہر نہیں نکل سکی۔ اگلے انتخابات میںاس کی یہی کمزوری کے پی میں تحریک انصاف کی قوت بن سکتی ہے۔
یہ پاکستان کی سیاست کے لیے کوئی نیک شگون نہیں ہے۔ ن لیگ کی سیاست روایتی سیاست ہے۔ سیاسی کامیابی کے لیے اس کا انہی پرانے ہتھکنڈوں پر انحصار ہے جو ہمیشہ حلقہ جاتی سیاست پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔ بلدیاتی اداروں پر، پنجاب کی حد تک اس نے اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے۔ یہی ادارے اگلے عام انتخابات میں اس کی قوت بنیں گے۔ اس طرح یہ انتخابات بھی ماضی کے انتخابات کا عکس ہوں گے۔ اسے دھاندلی کہا جائے گا حالانکہ یہ دھاندلی نہیں، روایتی سیاست کا اظہار ہوگا۔
شریف خاندان کے اسلوبِ حکومت میں اختیارات کا ارتکاز بنیادی اصول ہے۔ پنجاب میں مقامی حکومتیں تو وجود میں آگئی ہیں لیکن وسائل کے لیے وہ صوبائی حکومت کی مرہونِ منت رہیں گی۔ کے پی میں بلدیاتی اداروں کو نسبتاً زیادہ مالی آزادی میسر ہے۔ تاہم وہاں بھی ان کی باگ صوبائی حکومت کے ہاتھ میں ہے۔ سندھ میں بھی اسی بنیاد پر پیپلزپارٹی صوبائی حکومت بنا نے میں کامیاب رہے گی۔ انہی اسباب کی وجہ سے یہ کہا جا رہا ہے کہ 2018 ء کے انتخابات میں بھی ملکی سیاست میں کسی جوہری تبدیلی کا کوئی امکان نہیں۔
2013 ء کے بعد اس بات کی ضرورت تھی کہ ملک کے سیاسی نظام میں موجود بنیادی قانونی اور انتظامی سقم دور کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی جاتی۔ پارلیمنٹ کو صحت مند تنقید کا مرکز بنا کر نوازشریف کے بجائے نظام کو مخاطب بنایا جاتا۔ یہ ذمہ داری تمام سیاسی جماعتوں کی تھی۔ افسوس کہ کسی نے اس حوالے سے اپنا کردار ادا نہیں کیا۔ حکومتی جماعت کے مفاد میں یہی تھا کہ جو نظام مو جود ہے، وہ باقی رہے۔ یہ اپوزیشن کا کام تھا کہ وہ اس باب میں آواز اٹھاتی۔ حزب ِ اختلاف کی جماعتیں چو نکہ اسی نظام کا حصہ ہیں اس لیے انہوں نے حکومت کو گرانے پر توجہ مرکوز رکھی اور روایتی ہتھکنڈوں ہی کام لیا۔ وہ تھرڈ امپائرکو آواز دیتے رہے۔ اب جنرل مشرف نے سب پردے اٹھادیے کہ کس طرح یہ لوگ استعمال ہوئے اور لوگوں نے ان کی مدد سے اپنا کام نکالا۔ اس کے بعد بھی ان کا اصرار ہے کہ قوم ان کی بصیرت پر اعتبار کرے۔
جمہوریت کی نتیجہ خیزی صرف حزبِ اقتدار پر منحصر نہیں۔ اس میں حزبِ اختلاف کا کردار بھی کسی طور کم نہیں۔ حزبِ اختلاف نے یہ موقع گنوا دیا۔ معاملہ پھر2018 ء کے انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے اور اس کے نتائج ماضی جیسے ہی ہوں گے۔ اس کی وجہ دھاندلی نہیں ہوگی۔ دھاندلی2013ء میں بھی نہیں ہوئی۔ تحریک انصاف کی قیادت روایتی لوگوں پر مشتمل ہے یا اناڑیوں پر جو سیاسی حرکیات سے پوری طرح بے خبر ہیں۔ روایتی لوگوں نے حکومت کو زچ کرنے کے لیے اپوزیشن کے روایتی ہتھکنڈوں کو آزمایا اور اناڑیوں نے چاہا کہ محض زور آزمائی سے وہ حکومت کو بدل ڈالیں گے۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ پانچ سالوں میں ن لیگ کاجوابِ دعویٰ سامنے نہیں آ سکا۔ اب بھی اگر نواز شریف لوگوں کا انتخاب ہوںگے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ مروجہ سیاست ان کا بہتر متبادل پیش کرنے میں ناکام رہی۔
اہلِ دانش کو یہاں بروئے کار آنا چاہیے تھا۔ انہوں نے یہی سمجھا کہ اہلِ اقتدارکو کو سنا ہی ان کی ذمہ داری ہے۔ ان کا کردار اس کے سوا تھا۔ انہوں نے تجزیہ کر کے بتانا تھا کہ سیاسی حرکیات کن امور کے تابع ہیں۔ سیاست میں کوئی جواب دعویٰ کیسے وجود میں آتا ہے؟ ان کے فکری افلاس کا یہ عالم رہا کہ تحریک انصاف کو ن لیگ اور پاک سر زمین پارٹی کو ایم کیو ایم کا جوابِ دعویٰ قرار دیتے رہے۔ ان تجزیوں کاانجام ہمارے سامنے ہے۔ نئی جماعت کے ابھرنے سے یہ ممکن ہوتا ہے کہ اقتدار ایک گروہ سے دوسرے کو منتقل ہو جائے لیکن اس سے سیاست یا معاشرے میں کسی جوہری تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔
سردست میں پاکستان کی سیاست میں کسی جوہری تبدیلی کا امکان نہیں دیکھ رہا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ تبدیلی کی ضرورت یا خواہش موجود نہیں۔ پریشانی کی بات یہ ہے کہ مو جود نظام اس خواہش یا ضرورت کو امرِ واقعہ بنانے میں ناکام ہے۔ اسی سے مایوسی پیدا ہوتی ہے اور وہ کسی بڑے حادثے کا باعث بن سکتی ہے۔