جمہوریت کیا ہے؟
یہ ایک تصورِ زندگی ہے جو اختلاف کے ساتھ جینے کے آداب سکھاتا ہے۔ جمہوریت ایک نظامِ حکومت ہے جس میں حکمرانی کا حق عوام کے پاس ہے۔ جمہوریت ایک عمل ہے جو زینہ زینہ اپنا سفر طے کرتا ہے۔ یہ سب باتیں پیش نظر نہ ہوں تو جمہوریت ثمر بار نہیں ہوتی۔ اس کو نتیجہ خیز بنانے کی کچھ ذمہ داری حکمران طبقے پر ہے اورکچھ عوام پر۔
پہلی بات حکمران طبقے سے۔ جمہوریت اختیارات کی تقسیم کا نام ہے ،ارتکاز کا نہیں۔ ارتکاز بادشاہت میں ہوتا ہے یا آمریت میں۔ ہمارا حکمران طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ عوام حکومت نہیں، بادشاہ کا انتخاب کرتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ جمہوریت میں حکمران (Ruler) نہیں ہوتا، حکومت (Govt) ہوتی ہے۔ جمہوریت میں حکومت سے مراد ایک نظمِ اجتماعی ہے جو فرائض کو تقسیم کرتا اور فرد کی جگہ اختیارات نظام کو تفویض کرتا ہے۔ اس میں افراد ایک نظام کے پرزے کے طور پر کام کرتے ہیں۔ اگر مرکز ہے تو وزیر اعظم محض ایک پرزہ ہے۔ اگر صوبہ ہے تو وزیر اعلیٰ ایک نظام کا حصہ ہے، زیادہ سے زیادہ ناظمِ اعلیٰ۔ ہمارے حکمرانوں کا تصورِ حکومت، جمہوریت کے اس تصور سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ 'پنجاب سول ایڈمنسٹریشن آرڈیننس2016 ئ‘ اس کا تازہ ترین مظہر ہے۔
یہ قانون کیا ہے؟ سادہ الفاظ میں سارے اختیارات ڈی سی کے پاس ہیں اور ڈی سی وزیر اعلیٰ کی جیب میں ہے۔ یہ ارتکازِ اختیار کی بد ترین صورت ہے۔ حکمرانی کا یہ تصور در اصل اس سوچ سے پھوٹا ہے کہ لوگوں نے وزیر ِاعلیٰ نہیں، حاکمِ اعلیٰ منتخب کر لیا ہے۔ اب لازم ہے کہ اسے مطلق اختیارات حاصل ہوں۔ یہ دراصل انگریزوں کا دیا ہوا نظام تھا، جس میں حاکم قوت کی نمائندگی ڈی سی کرتا تھا جو خود انگریز ہوتا تھا اور اس کا کام یہ تھا کہ وہ 'رعایا ‘ کو اپنے قابو میں رکھے تاکہ وہ ' حکمرانوں ‘ کے خلاف بغاوت نہ کریں۔ اس تصورِ حکومت کا جمہوریت سے دور کا واسطہ نہیں۔ یہ ایک بدیسی حکمرانوں کا وضع کردہ نظام ہے جسے انہوں نے ایک نو آبادی(colony) کے لیے بنایا تھا۔
مقامی حکومتوں کا مطلب یہ ہے کہ اختیارات کا ارتکاز ختم ہو اور اقتدار نچلی سطح تک کئی ہاتھوں میںتقسیم ہو جائے۔ ہمارے آئین میں بعض ترامیم کے بعد، مرکز اور صوبے میں بڑی حد تک اس تقسیم کو متشکل کر دیا گیا ہے۔ اب صوبائی حکومتوں کام ہے کہ وہ اسے مزید نچلی سطح تک پہنچائیں۔ پنجاب کم و بیش چھپن فیصد آبادی پر مشتمل ہے۔ اس کو ایک تختِ لاہور کے تابع رکھا گیا ہے۔ لازم ہے کہ اس کو کئی صوبوں میں تقسیم کیا جائے اور اختیارات کو ضلع اور تحصیل کی سطح تک پہنچایا جائے۔ جمہوریت اگر زینہ زینہ اترتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اختیار مرکز سے صوبے اور صوبے سے ضلع اور ضلع سے تحصیل تک پہنچے۔ یہاں تک کہ راولپنڈی میں رہنے والے کے مسائل ان کے شہر میں حل ہوں اور ملتان میں رہنے والا چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے لاہور آنے پر مجبور نہ ہو۔ ن لیگ طویل عرصے سے پنجاب پر حکمران ہے۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس دوران میں، اختیار نچلی سطح تک پہنچ چکا ہوتا۔اب 2016 ء میں آ کر یہ معلوم ہوا کہ اسے تو مزید سمیٹا جا رہا ہے، جیسے اس صوبے پر تا ابدالآباد شریف خاندان ہی نے حکمران رہنا ہے۔
دوسری بات عوام سے۔ عوام نے جمہوریت کا مطلب یہ سمجھا ہے کہ ''احتجاج ہمارا حق ہے‘‘۔ بجا ارشاد، لیکن اگر ہر فرد یا طبقہ اس تصورِ جمہوریت کا قائل ہو جائے اور اسے روز مرہ بنالے تو کیا کسی نظم اجتماعی کا قیام ممکن ہو سکتا ہے؟ احتجاج جمہوری حق ہے لیکن ہر حق آداب کا پابند ہوتا ہے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ سڑکوں کی مسلسل توسیع کے باوجود، گاڑیوں کی تعداد کے سامنے اُن کی وسعت آئے دن سمٹ رہی ہے۔ یوں شہر کے اندر دس منٹ کا سفر، آدھ اور کبھی ایک گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ اگر دس افراد بھی کہیں احتجاج کے نام پر اس ٹریفک کو روک لیں تو میلوں لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ یوں دس منٹ کا سفر دو گھنٹے طویل ہو جاتا ہے۔ آج کل آئے دن احتجاج ہوتے ہیں۔ کبھی ڈاکٹر ،کبھی استاد، کبھی مذہبی تنظیمیں ، کبھی سول سوسائٹی ، کبھی بینا کبھی نابینا۔ سیاسی جماعتوں میں سے بعض ایسی ہیں جو سال کا بڑا حصہ سڑکوں پر ہی گزارتی ہیں کیونکہ '' احتجاج ہمارا جمہوری حق ہے‘‘۔
جمہوریت کی اس تفہیم نے زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ اب ناگزیر ہو چکا کہ احتجاج کا یہ حق جمہوری روایات کا پابند بنے۔ احتجاج کو تہذیب کے سانچے میں ڈھلنا ہی ہو گا۔ احتجاج دراصل وہاں ہوتا ہے جہاں اپنی بات حکمران طبقے تک پہنچانے کا کوئی ذریعہ نہ ہو۔ آزادعدالتوں کے ساتھ میڈیا کی موجودگی میں ، اب یہ امکان ختم ہو گیا ہے کہ مطالبات کا ابلاغ نہیں ہوگا۔ جہاں گائے کسی گڑھے میں گر جائے اور وہ بریکنگ نیوز بن جائے وہاں کیسے ممکن ہے کہ کسی مطالبے کو ابلاغ سے روکا جا سکے۔ اس کے بعد سڑکوں پر نکلنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ اس کے باوجود اگر کوئی جوشِ خطابت کا مظاہرہ کرنے پر بضد ہے تو پھر اس کے لیے جگہ مخصوص کر دینی چاہیے۔ اس کے لیے ہر شہر کی انتظامیہ کو بروئے کار آنا چاہیے۔ انتظامیہ کے ساتھ اب ضروری ہو گیا ہے کہ عدالت بھی اپنا کردار ادا کرے۔ جب آئین ہر کسی کو حرکت کی آزادی دیتا ہے اور اسے بنیادی حقوق میں شمار کرتا ہے تو کسی کا یہ حق کیسے قبول کیا جا سکتا ہے کہ وہ دوسرے کے بنیادی حقِ حرکت کو معطل کر دے؟دوسروں کے معمولات کو متاثر کرے؟
جمہوریت کو ثمر بار ہونا ہے تو لازم ہے کہ حکمران طبقہ اور عوام ، دونوں جمہوریت کے آداب سے واقف ہوں۔ معاشرہ مذہب جیسی نعمت کی برکات سے بھی محروم رہ جاتا ہے اگر اس کا نفاذ کرتے وقت، اس کے مالہ وما علیہ کا لحاظ نہ رکھا جائے۔ 1979ء سے ہمارے ہاںحدود قوانین نافذ ہیں۔ جرائم ابھی تک ختم ہوئے ہیں نہ ان میں کمی آئی ہے۔ سب کہتے ہیں کہ ان میں اضافہ ہوا ہے۔ انسانی تفہیم پر مبنی اس قانون کی ناکامی کا ایک سبب یہ ہے کہ ہم نے انہیں وہ ماحول فراہم ہی نہیں کیا جن میں ان کی برکات سامنے آتیں۔ یہی معاملہ جمہوریت کا ہے۔ اگر ہم اسے نتیجہ خیز بنانا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ اس کی روح کو جانیں اور اس کی ضروریات کا لحاظ کریں۔
حکمران طبقے کو یہ سمجھنا ہو گا کہ وہ حکمران نہیں، نظمِ اجتماعی کا محض ایک پرزہ ہیں۔ ان کو یہ حق نہیں کہ وہ اختیار کو اپنی ذات یا اپنے خاندان میں جمع کر دیں۔ اگر وہ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں تو لازم ہے کہ مقامی حکومتوں کو مالی اور انتظامی خود مختاری دیں۔ عوام بھی اگر جمہوریت سے مستفید ہونا چاہتے ہیں تو ان پرلازم ہے کہ وہ جمہوریت کے آداب سے واقف ہوں۔ جمہوریت عوامی ووٹ کی بنیاد پر بادشاہت قائم کرنے کا نام نہیں۔ شتر بے مہار معاشرے کو جنم نہیں دیتی۔ یہ ایک فرد کی آزادی کو اس طرح یقینی بناتی ہے کہ دوسرے فرد کی آزادی متاثر نہ ہو۔ جمہوریت زندگی گزارنے کا سلیقہ ہے، اسے بے ترتیب کرنے کا تصور نہیں۔جمہوریت ہیجان پیدا نہیں کرتی، یہ جذبات کو تہذیب کے دائرے میں لاتی ہے۔