قلم رواں ہیں اور زبانیں بھی۔ حاصل مگر کیا ہے؟ شخصی ناآسودگی میں لپٹی ہوئی ایک مشق؟ بے معنی بحثیں؟ زوالِ علم و عرفاں؟ قومی مسائل سے المناک عدم دلچسپی؟ ؎
تیرے محیط میں کہیں گوہرِِ زندگی نہیں
ڈھونڈ چکا میں موج موج، دیکھ چکا صدف صدف
مسائل گمبھیر ہیں اور فوری توجہ چاہتے ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ آبادی ہے۔ تا حدِ نظر انسانوں کے سر ہیں جو شمار نہیں کیے جاسکتے۔ یہ حدِ نگاہ بھی اُس مسافر کی ہے جو ایک طیارے میں، کسی سمندر کے اوپر محو پرواز ہو۔ وہ خیال کرتا ہے کہ چاروں طرف پانی ہی پانی ہے۔کہیں زمین کا وجود نہیں ہے۔ یا پھرگاڑی کا ایک سوار جو ایک صبح اپنا سفر شروع کرتا ہے ۔کئی دن اور شامیں گزر جاتی ہیں اور اسے چاروں طرف پھیلے انسانوں کے جنگل کا کوئی آغاز دکھائی دیتا ہے اور نہ اختتام۔ یہ مبالغہ نہیں ہے۔ آزمائش شرط ہے۔
سکولوں کی کمی، شفاخانوں کی عدم دستیابی، برباد امن و امان، بد انتظامی۔۔۔ یہ اس بے ہنگم آبادی کے چندناگزیر نتائج ہیں۔ ان سے کسی کو مفر نہیں ہو سکتا۔ اب ہر شہر کراچی ہے۔ ایک محلے میں گھس جائیں تو واپسی کا راستہ نہیں ملتا۔ کیا معلوم کہ آپ کسی دوسرے شہر میں جا نکلیں اور آپ کو خبر ہی نہ ہو۔ شہروں سے شہر اس طرح جڑے ہوئے ہیں جیسے کسی جنگل میں شاخوں سے شاخیں۔ کوئی جدا کرنا چاہے تو اس کے پاس اعترافِ عجز کے سوا کوئی چارہ نہ ہو۔ انہی گنجان بستیوں میں جرم پناہ لیتا ہے۔ امراض کے جراثیم کو یہی فضا راس آتی ہے۔ جہالت کو یہی ماحول سازگار ہے۔ منشیات یہیں بنتی ہیں۔ جعلی ادویات کے کارخانے انہی محلوں میں کھلے ہیں۔
اسی سے متصل دوسرا مسئلہ تیزی سے کم ہوتی زرعی زمین ہے۔ شہروں کی توسیع در توسیع ہو رہی ہے۔ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے نام پر سیمنٹ اور پتھروں کے انبار کھڑے ہو رہے ہیں۔ ان پتھروں نے نہیں معلوم کتنی زرخیز زمین کو کچل ڈالا۔ وہ جگہ جہاں بھوک کا علاج تھا، جہاں سبزہ اگتا تھا، اجناس پیدا ہوتی تھیں، وہ زمین کہاں گئی؟ ہمارے دیکھتے دیکھتے اسے بڑے گھروں نے نگل لیا۔ شیطان کی آنت بھی شاید ہی اتنی لمبی ہو جتنی یہ نئی بستیاں ہیں۔ نیا تو میں نے اس لیے کہہ دیا کہ ابھی آباد ہوئی ہیں۔ ورنہ بستیاں یہ پرانی ہی ہیں۔ صرف مکان نئے ہیں۔
تعمیرات کے ماہرین بہت سیانے ہیں۔ انہوں نے شہروں کے قرب میں موجود کسانوں کی زمینوں کا نرخ زیادہ لگایا۔ ان کی نظر میں دس سال بعد کا منظر نامہ تھا جب ان زمینوں کی قیمت میں کئی گنا اضافہ ہو جانا تھا۔ سادہ کسان کاروباری عیاریوں کو کیا جانے! دام میں آگیا۔ خوشی سے اپنی زرعی زمین بیچ دی کہ قیمت اس کی توقع سے زیادہ تھی۔ اب جہاں گندم اگتی تھی، 'کوٹھیاں‘ بن گئی ہیں۔ جہاں لہلہاتے کھیت تھے، آج ایستادہ پلازے ہیں۔ یہاں کا کسان ان فلسطینیوں کی طرح ہے جس نے یہودی عیاری کو نہ پہچانا اور برسوں پہلے اپنی زمینیں لالچ میں آکر یہودیوں کو بیچ دیں۔ آج وہاں اسرائیل آباد ہے اور فلسطین ایک ایسا ملک ہے جو صرف کتابوں کے صفحات میں ملتا ہے۔ معلوم نہیں کب یہاں سے بھی کھرچ ڈالا جائے۔
ہمارے ساتھ یہ حادثہ دو اسباب سے ہوا۔ ایک سبب یہ ہوا کہ حکومتیں آبادی میں اضافے اور شہروں کی توسیع میں چھپے سنگین نتائج سے بے خبر رہیں۔ یہ ذہنی افلاس کا اظہار تھا۔ آبادی میں بے انتہا اضافے کی طرف انہیں مغربی حکومتوں نے متوجہ کیا۔ بہت سے وسائل فراہم کیے۔ اس کے بعد کچھ حرکت پیدا ہوئی۔ پیسے آنا بند ہوئے تو پھر جمود نے آ لیا، جیسے یہ مغرب کی درد سری ہے، ہماری نہیں۔ ہم نے آبادی میں اضافے کے ساتھ وہی معاملہ کیا جو دہشت گردی کے ساتھ کیا۔ ارشاد ہوا یہ ہماری نہیں، امریکہ کی دردسری ہے۔ ہم دوسروں کی لڑائی کیوں لڑیں؟ کسی نے نہیں سوچا کہ جو جنگ ہماری سرزمین پر لڑی جارہی ہے، وہ دوسروں کی جنگ کیسے ہو سکتی ہے؟ ہمیں یہ بات سمجھ میں تو آئی مگر بعد از خرابیٔ بسیار۔ آبادی میں کمی کے تصور کو بھی ہم مغربی سازش سمجھتے رہے، یہاں تک کہ ہمارے شہر انسانوں سے ابل پڑے۔ اب لوگوں کو احسا س ہوا ہے لیکن اس دوران میں بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکا۔
دوسرا مسئلہ یہ ہوا کہ لینڈ مافیا نے سیاسی جماعتوں ہی میں نہیں، طاقت کے دیگر مراکز میں بھی بہت عیاری سے نقب لگائی۔ حیلوں بہانوں اور اپنی شاطرانہ چالوں سے انہیں اپنے دامِ فریب کا اسیر بنایا۔ ان کی نبض پر ہاتھ رکھا اور ان کی کمزویوں کو اپنی مٹھی میں بند کر لیا۔ اب کوئی سیاسی جماعت اس کی روا دار نہیں کہ وہ شہروں کی توسیع کو روکے اور زرعی زمین کو محفوظ بنائے۔ ان کے منشور میں ایسی باتوں کا کوئی گزر نہیں۔ جب لینڈ مافیا کے لوگ ان کی قیادت کا حصہ ہوں اور ان کے وسائل جماعتی سرگرمیوں میں کام آئیں تو ان کے خلاف کوئی حکمتِ عملی کیسے بنائی جا سکتی ہے؟ دیگر ریاستی اداروں کے معاملات کو اسی پر قیاس کیجیے۔ سول سوسائٹی کا قصہ یہ ہے کہ مغرب سے پیسے آئیں اور کبھی ایجنڈا بھی تو اس میں حرکت پیدا ہو۔اس مقصد کے لیے مقامی سطح پر نہ فنڈ میسر ہیں نہ سوچ۔ یوں زرعی زمین کی بربادی کے خلاف کوئی سماجی تحریک نہیں اٹھ سکی۔
ان مسائل کا ایک پہلو نفسیاتی بھی ہے۔ 'اپنا گھر‘ بالخصوص ہماری خواتین کی نفسیاتی گرہ ہے۔ اس کے ساتھ بڑا گھر دولت کے اظہار کا ذریعہ بھی ہے۔ اب تو گاؤں میں بھی وسائل کی فراوانی کا سب سے بڑا مظہر گھر ہے۔ جب کہا جا تا ہے کہ 'یہ فلاں کی کوٹھی ہے‘ تو لوگوں کے جذبہ تفاخر کو تسکین ملتی ہے۔ ہاؤسنگ سکیموں کے لوگ اسی نفسیاتی کمزوری کا استحصال کرتے ہیں اور ان کی مد دکے لیے 'مارکیٹنگ‘ اور میڈیا والے ہر وقت مو جود ہیں۔
حل ایک ہی ہے، اگرچہ آسان نہیں: نئے شہروں کی تعمیر۔ اس کے لیے روزگار اور معاش کے وسائل کو پھیلانا ناگزیر ہے۔ کراچی میں آبادی کے ارتکاز کا سب سے بڑا سبب، روزگار کے وسائل کا یہاں سمٹ آنا ہے۔ موٹروے اور اب CPEC پر روزگار کے اسباب کو پھیلا دیا جائے اور اس طرح نئی شہر اور بستیاں آباد کی جائیں۔ اس وقت مسئلہ اُن کا ہے جو دنیا میں آ چکے۔ ان کو ہمیں روزگار فراہم کرنا ہے اور اچھی زندگی بھی۔ موجود شفاخانوں اور سکولوں کی حالت کو بہتر بنا کر کچھ بہتری لائی جا سکتی ہے۔ تاہم یہ طے ہے کہ موجود شہروں پر آبادی کا مزید بوجھ ڈالا گیا تو یہ زندگی کو مزید اجیرن بنا دے گا۔
جس نے دنیا میں آنا ہے، اس کو کئی روک نہیں سکتا۔ تاہم انسان تدبیر کا پابند ہے اور اسے یہ دیکھنا چاہیے کہ بچوں کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی اس کا فرض ہے۔ وہ اتنے بچوں کی ذمہ دار قبول کرے جسے وہ نبھا سکتا ہے۔ ورنہ اولاد کے حق میں اس کی پکڑ ہو سکتی ہے۔ اس باب میں لوگوں کو مسلسل تعلیم اور تربیت کی ضرورت ہے۔ حکومت اس کے لیے مغربی امدادکا انتظار نہ کرے بلکہ اپنے وسائل سے اس مسئلے کو حل کرے۔
آج کم و بیش بیس کروڑ کے لیے ہم نے اچھی زندگی کا انتظام کرنا ہے۔ اگر ہم نے زرعی زمین پر سیمنٹ سریے کے پہاڑ کھڑے کر دیے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آنے والی نسلوں کے کے لیے رزق کے امکانات کو ہم نے مزید کم کر دیا۔ دیگر مسائل اس پر مستزاد ہیں۔
لازم ہے کہ آج ان معاملات کو ترجیحی بنیادوں پر مخاطَب بنایا جائے۔ ریاست، سول سوسائٹی اور میڈیا کو اس باب میں اپنی ذمہ داری نبھانا ہوگی۔ میڈیا کو آگے بڑھ کر حکومت پر دباؤ بڑھا نا ہوگا۔ کسی ایک ہسپتال میں بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی پر نوحہ گری، اگر زخموں کی سوداگری نہیں ہے تو پھر ان بڑے مسائل کو ایک مہم کا حصہ بننا ہوگا۔ آبادی میں کمی اور نئی بستیوں کا قیام۔ ان مسائل کو مخاطب بنائے بغیر تعمیر کا ایجنڈا آگے نہیں بڑھ سکتا۔