ایک خبر کے مطابق، حکومتِ پنجاب نے حکم دیا ہے کہ نوازشریف صاحب کی داستانِ حیات پر مبنی کتاب خریدی اور پھراسے پبلک لائبریریوں کی زینت بنایاجائے۔ظاہر ہے کہ سرکاری پیسے سے۔ اس خبر نے ذہن کے بہت سے دریچے وا کر دیے۔
مو لانا امین احسن اصلاحی مرحوم کی بے مثل تفسیر ''تدبرِ قرآن‘‘ مکمل ہوئی تو ممتاز صحافی اور کالم نگار عطاالرحمن صاحب ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اوریہ تجویز پیش کی کہ تفسیرکی تشہیر اور پذیرائی کے لیے ایک تقریب منعقد کی جائے۔عطاالرحمن صاحب کے مو لانا سے دیرینہ نیاز مندانہ تعلقات تھے۔وہی مولانا سے یہ بات کہہ سکتے تھے۔مولانا نے اس تجویز کو قبول نہیں کیا۔فرمایا کہ اگر اس کتاب میں کوئی خوبی ہے تو یہ خود کو منوالے گی۔پھر یہ کسی رونمائی کی محتاج نہیں۔اور اگر اس میں کوئی خوبی نہیں تو کوئی تقریبِ رونمائی اسے زندگی نہیں دے سکتی۔(روایت بالمعانی)۔ مولانا آج دنیا میںنہیں ہیں۔ اہلِ علم مگر جانتے ہیں کہ 'تدبرِ قرآن‘ کو زوال نہیں ہے۔ہر آنے والا دن اس کے عجائب سے پردہ اٹھا رہا ہے۔ قرآن فہمی کی ایک نئی دنیا ہے جو اس تفسیر کی برکت سے دریافت ہوئی اور اس کی بنیا دپر فکر و نظر کی کتنی دنیائیں ہیں جو ابھی دریافت ہونا باقی ہیں۔دل سے دعا نکلتی ہے کہ اللہ ہرامام فراہی کو مولانا اصلاحی جیسے شاگردنصیب کرے۔
ماضی میں جھانکیے تو ہماری وزارتِ اطلاعات ،نہیں معلوم کتنی کتابوں کا مدفن ہے۔مثال کے طور پر لاکھوں روپے خرچ کر کے،ایک وزیراعظم یا صدر کی تقاریر کے مجموعے شائع کیے جاتے تھے۔ ان گناہ گار آنکھوں نے ایسے مجموعوں کو فٹ پاتھوں پر رلتے دیکھا ہے۔ایوب خان بزعمِ خویش ،فیلڈ مارشل تھے۔''جس رزق سے آتی ہو...،، لکھوائی، اردو اور انگریزی، دونوںزبانوں میں۔بارہا اتوار کے دن راولپنڈی صدر میں ڈھیر پڑے دیکھے۔اب تو وہاں بھی نہیں پائی جاتی۔ بھٹو جیسی شخصیت پر جب 'دیدہ ور‘ جیسی کتابیں لکھی گئیں تو ان کا انجام بھی ایسا ہی ہوا۔تاہم بھٹو کی شخصیت میں جان تھی۔وہ سرکاری سوانح نگاروں کے محتاج نہیں تھے۔سٹنلے والپوٹ جیسے مصنفین نے جب انہیں موضوع بنایا تو لوگ اپنی جیب سے پیسے خرچ کر کے، ان کے بارے میں لکھی ہوئی کتابوں کوخریدنے اور پڑھنے لگے۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جن کے اکثر محاسن ان کے مرنے کے بعد معلوم ہوئے۔خرابیاں البتہ زندگی ہی میں مشتہر ہوگئی تھیں۔
یہ شوق بعض اور شخصیات کو بھی تھایا ان کے مصاحبین نے انہیں بتا یا کہ وہ تاریخ کی بہت اہم شخصیت ہیں اور لوگ ان کے بارے پڑھنا اور جاننا چاہتے ہیں۔ایک دور میںقذافی صاحب کی 'گرین بک‘ کا بھی اردو میں ترجمہ ہوا اورپھر بہت جلدوہ بھی فٹ پاتھ کی زینت بن گئی۔واقعہ یہ ہے کہ تاریخ میں کسی شخصیت کا کردار بقلم خود، متعین نہیںکیا جاتا،یہ فیصلہ وقت کر تا ہے۔قذافی کی گرین بک سے کسی کو دلچسپی نہیں تھی لیکن اگر آج کوئی ان کے آخری ایام کے بارے میں کتاب لکھے تو یقیناً شوق سے پڑھی جائے گی۔یا کوئی صدام حسین پر کتاب لکھنا چاہے توتاریخ کے ایک اہم باب کے طور پر اسے بھی پڑھا جا ئے گا۔اگر کسی کو تاریخ میں زندہ رہنے کا شوق ہے تو اسے کوئی تاریخ ساز کام کر نا چاہیے۔اس کے بعد اسے سرکاری طور پر کتاب لکھوانے یا خریدنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
سوانح یا آپ بیتی ،وہ مو ضوع ہے جس پر لکھی گئی کتابیں،دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جاتی ہیں۔ بڑے لوگوں کی زندگی سے دلچسپی فطری ہے۔ایسی کتابیں دو اسباب سے مقبول ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ کسی نے ایک فن میں کمال حا صل کیا اورلوگ جاننا چاہتے ہیں کہ یہ کیسے ہوا۔یا پھر تاریخ کے کسی نازک موڑ پر اس نے کوئی کردار ادا کیا جس کی تفصیلات پردئہ غیب میں ہیں۔جیسے اگر نوازشریف یہ کہانی بیان کریں کہ 12 اکتوبر کو ان کے ساتھ کیا سلوک ہوا یا وہ سعودی عرب کیسے پہنچے؟ محترم سہیل وڑائچ نے نوازشریف صاحب کا ایک انٹرویو کیا جو بہت مقبول ہوا۔ سبب یہی تھا کہ وہ ہماری تاریخ کے چنداہم ابواب کی پردہ کشائی کر تا تھا۔ مشرف صاحب کی کتاب بھی پڑھی گئی کہ لوگ 9/11کے بعد کی 'پاک بیتی‘ سننا چاہتے تھے۔
دنیا بھر میں یہ رواج رہا ہے کہ اہم مناصب پررہنے والی شخصیات آپ بیتی لکھتی ہیں۔ لکھنا ایک فن ہے جو ہر کسی کو نہیں آتا۔یہ ممکن ہے کہ ایک فرد کی زندگی بہت سے اہم واقعات کی گواہ ہو لیکن اسے بیان کا سلیقہ نہ آتا ہو۔اس کا ایک حل یہ نکالا گیا کہ فرد واقعات بیان کردے اور اسے لکھنے کے لیے کسی دوسرے کی خدمات مستعار لی جائیں جو تحریر کے فن سے واقف ہو۔مغرب میں یہ طریقہ عام ہے۔وہاں تو خیرہر ناشر ایڈیٹر کا اہتما م کر تا ہے۔کوئی کتاب فنی ایڈیٹنگ کے مرحلے سے گزرے بغیر شائع نہیں ہوتی۔ مشرف صاحب کی کتاب بھی الطاف گوہر صاحب کے بیٹے نے لکھی جو پیشہ ور لکھاری ہیں۔ والد گرامی نے یہ خدمت ایوب خان کے لیے سرانجام دی۔ مشرف صاحب کی کتاب، ہمیں معلوم ہے کہ پاکستان سے شائع نہیں ہوئی تھی۔
پاکستان میں اور خاص طور پر اردو کی کتابوں میںاس کا بہت کم اہتما م ہوتا ہے۔ یہاں ناشرایڈیٹر پرپیسہ خرچ کرنا کو وسائل کا ضیاع سمجھتا ہے۔ پاکستان میں تو رائیلٹی کا کوئی رواج نہیں۔ مصنفین کااستحصال ایک درد ناک موضوع ہے جس پر الگ سے لکھا جا نا چاہیے۔یہاں جیسا چاہیں مسودہ ناشر کو تھما دیں۔چند دن میں برائلر مرغ کی طرح کتاب تیار ہوتی ہے۔اس کا 'ذائقہ‘ بھی ظاہر ہے برائلر جیسا ہی ہو تا ہے۔ناشر تو پروف ریڈنگ کی زحمت بھی کم ہی اٹھاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ویسی کتابیں لکھی گئیں نہ شائع ہوئیں جو اپنے اسلوب کی بناپر دلچسپی کے ساتھ پڑھی جائیں۔
نوازشریف ہماری سیاست کے اہم کردار ہیں۔وہ تین بار ملک کے وزیراعظم رہ چکے ہیں۔وہ پاکستان کی تاریخ میں پیش آنے والے کئی اہم واقعات کے عینی گواہ ہیں۔پاکستان جب اعلانیہ ایٹمی قوت بنا تو وہ پاکستان کے وزیراعظم تھے۔یہ ہماری تاریخ کا ایک دلچسپ اور پُر اسرار باب ہے۔ اس میں بہت سے سیاسی اور فنی سوالات ابھی تک جواب طلب ہیں۔ مثال کے طو رپر اس وقت عالمی دباؤ کی نوعیت کیا تھی؟ایٹمی دھماکوں اور ایٹم بم کے بنانے میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا کتنا حصہ ہے؟کیا وہ کسی سرکاری دعوت کے بغیر،نجی طور پرچاغی گئے تھے؟یہ محض ایک واقعہ ہے۔ایسے ان گنت واقعات ہیں جو اگر بیان کیے جائیں تو نوازشریف صاحب کی داستان بہت دلچسپی سے پڑھی جائے گی۔ایسا لیکن تب ہوگا جب وہ اپنی آپ بیتی لکھیں یا بیان کریں اور کوئی غیرسرکاری پبلشر اسے شائع کرے۔سر کاری خرچ سے ایسی کتاب اگرزبردستی مسلط کی جائے گی تو اس کا حشر وہی ہو گا جوایوب خان پر لکھی گئی کتاب کا ہوا۔اس کے علاوہ بھی ایک پہلو ہے۔لوگ جب اقتدار میں ہوتے ہیںتو خوشامد بطور مضمون، سیاسی نصاب کا حصہ بن جاتی ہے۔لوگ اپنے طور پر حکمرانوں پر کتابیں لکھتے اور پھرانعام چاہتے ہیں۔اس کی ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ اُن کی کتاب سرکاری طور پر خرید کر پبلک لائبریریوں میں بھیج دی جا ئے۔ایسی کتاب پڑھتا کون ہے مگر مصنف کو اپنی محنت کا صلہ ضرور مل جاتا ہے۔
میرا خیال ہے کہ حکمران طبقہ اس طریقہ واردات سے واقف ہوتا ہے۔ اس کے باوجود،نہ جانے کیوں،یہ لوگ گناہِ بے لذت پر آمادہ رہتے ہیں؟