پاکستان نے، تادمِ تحریر، دو بار افغانستان کی سرزمین پر بمباری کی۔ مقدمہ یہ ہے کہ افغانستان میں کچھ ایسے دہشت گرد موجود ہیں جو پاکستان کو ہدف بناتے ہیں۔ ہمارے شہریوں کے جان و مال سے کھیلتے ہیں۔ ہم نے بارہا افغان حکومت سے مطالبہ کیا کہ انہیں ہمارے حوالے کیا جائے لیکن وہ اس پر آمادہ نہیں۔ اب ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہم خود ان کے خلاف اقدام کریں۔ افغان حکومت نے اس پر احتجاج کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں دو افغان شہری مارے گئے۔ افغانستان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہم بھی ایسی ہی ایک فہرست پاکستان کو دے چکے۔ ہمارے مجرم ابھی تک ہمارے حوالے نہیں کیے گئے۔
ریاست کے اس اقدام کو خارجہ امور کے کم از کم ایک ماہر کی تائید بھی حاصل ہے۔ ایک صاحب‘ جو اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے سفیر رہ چکے، نے اتوار کو ایک انگریزی اخبار میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں یہ استدلال پیش کیا کہ اگر افغان حکومت اور وہاں موجود امریکی کمانڈر یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ افغانستان کے ایک بڑے علاقے پر ان کی عمل داری قائم نہیں ہے تو پھر ان سے یہ کہا جائے کہ وہ پاکستان کو اقدام کی اجازت دیں تاکہ وہ افغانستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کو ختم کر دے۔ اگر وہ اس پر بھی آمادہ نہ ہوں تو پھر پاکستانی ریاست اور فوج کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ یک طرفہ طور پر افغانستان میں ان گروہوں کے ٹھکانوں پر حملہ کرے۔ ان کے الفاظ ہیں:
If Kabul and the US refuse to act, or to facilitate a Pakistani operation, Pakistan may be left with no option but to take unilateral action against these safe havens and the terrorist hiding there.
یہی وہ استدلال ہے جو امریکہ نے9/11 کے بعد افغانستان پر حملے کے لیے اختیار کیا تھا۔اس کا کہنایہی تھا کہ افغانستان میں کچھ 'دہشت گردوں‘ نے مرکز بنا رکھا ہے جہاں سے امریکہ کے خلاف حملے اور ان کی منصوبہ بندی ہوتی ہے۔ان سے امریکی شہریوں کے جان و مال کو خطرہ ہے۔9/11 کے واقعات اس کے گواہ ہیں۔امریکہ نے ایک فہرست طالبان حکومت کو دی اور یہ کہا کہ انہیں ہمارے حوالے کیا جائے۔ بصورتِ دیگرہم خود افغانستان میں موجود دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو برباد کر دیں گے۔طالبان حکومت اس پر آمادہ نہیں ہوئی اور پھر افغانستان کو جس طرح 'تورا بورا‘ بنایا گیا،وہ تاریخ کا ایک افسوسناک باب ہے۔یہ بات بھی واضح رہے کہ امریکہ کو اس حملے کے لیے اقوام متحدہ نے اجازت دی اور ایک دنیا اس کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔ سوال یہ ہے کہ موجودہ حالات کی روشنی میں،9/11 کے باب میںہمارا موقف وہی ہے یا تبدیل ہو گیاہے؟
یہاں ایک اور سوال بھی اہم ہے۔ افغانستان بہرحال ایک مسلمان ملک ہے۔ اس کا موجودہ آئین اسلامی ہے۔ گویا ریاست نے بھی کلمہ پڑھ رکھا ہے۔گل بدین حکمت یار جیسے راہنما کی اسلامی تحریک اس حکومت کا حصہ ہے۔ہم اس ملک پر حملے کو درست سمجھ رہے ہیں۔گویا ہمارے نزدیک ممالک کے تعلقات کی اساس 'قومی مفاد‘ پر ہے جو مذہب سے ماورا ایک تصور ہے۔اس سے میں یہ استدلال کرتا ہوں کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات کے ضمن میں، ریاست سلامتی کے جس بیانیے کو قبول کیے ہوئے ہے،وہ ایک 'قومی ریاست‘ کا بیانیہ ہے نہ کہ ایک اسلامی یا مذہبی ریاست کا۔سوال یہ ہے کہ ایک ریاست کے لیے کیا یہ ممکن ہے کہ وہ بیک وقت قومی سلامتی کے دو بیانیے اختیار کرے۔ایک وہ جو بھارت کے لیے ہے اور دوسرا وہ جو افغانستان کے لیے؟
یہ سوالات میں نے اس لیے اٹھائے ہیں کہ ہم ان ابہامات سے واقف ہوں، جن میں،ہم بطور ریاست اور سماج، اس وقت مبتلا ہیں۔اس کے جواب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ افغان انتظامیہ افغان عوام کی حقیقی نمائندہ نہیں۔یہ امریکی ایجنٹ ہیں‘ لہٰذا ہم اسے جائز حکومت نہیں مانتے؟ بطور ریاست ہمارا موقف یہ نہیں ہے؟ ہم نہ صرف اسے ایک جائز حکومت مانتے ہیں بلکہ ہم نے اس بات کی کوشش بھی کہ افغانستان کے انتخابات میں اشرف غنی کامیاب ہوں۔ ہم نے احتجاج کے لیے اسی حکومت کے سفارتی نمائندے کو جی ایچ کیو طلب کیا۔ اس کی حکمت بھی مجھ پر واضح نہ ہو سکی کہ دفترِ خارجہ کے بجائے جی ایچ کیو بلا کر ہم افغانستان کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟
یہ صورت حال بتا رہی ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی بالعموم اور افغانستان کے باب میں بالخصوص، غلطی ہائے مضامین کا مجموعہ ہے۔ بر سبیلِ تذکرہ، ہم یہ مان لیتے ہیں کہ افغانستان میں سوویت یونین کا راستہ روکنا ہمارے لیے ضروری تھا۔ سوال یہ ہے کہ 1989ء کے بعد، ہم کیوں ایک متوازن پالیسی نہیں اختیار کر سکے؟ سوویت یونین کو ختم ہوئے، ستائیس سال گزر گئے مگر ہم ہر آنے والے دن اس دلدل میں پھنستے چلے جا رہے ہیں۔ اس پالیسی کا حاصل یہ ہے کہ پہلے ہمیں صرف مشرقی محاذ پر خطرہ لاحق تھا، آج مغربی محاذ اس سے زیادہ پُرخطر ہو چکا۔ افغان انتظامیہ کے ساتھ، اب ہم افغان عوام کو بھی ناراض کر چکے۔ اب وہاں پاکستان مخالف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ کیا یہ معمولی المیہ ہے کہ جس قوم کے لاکھوں افراد کو ہم نے پناہ دی، آج وہی ہمیں اپنی بربادی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں؟ ہمیں اس پر غور و خوض کرنا ہو گا تاکہ ماضی کی غلطیاں پھر سے نہ دہرائی جائیں۔
اب ناگزیر ہو چکا کہ افغانستان کے باب میں ہم اپنی خارجہ پالیسی کا نئے سرے سے تعین کریں۔ خارجہ پالیسی فی الجملہ اصلاح طلب ہے لیکن افغانستان کے ساتھ معاملات کو ہم مزید موخر نہیں کر سکتے۔ ہمیں اس پر فوری توجہ دینی ہے۔ اس وقت ہماری ریاست پر غصہ غالب ہے۔ سفارت کاری بصیرت اور حکمت کا تقاضا کرتی ہے۔ غصہ دونوں کی نفی ہے۔ غصے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ہم خود احتسابی کے اہل نہیں رہتے۔ میری نزدیک ہمیں افغانستان کے ساتھ تین امور پر اپنے تعلقات کو آگے بڑھانا ہے۔ سب سے پہلے ہمیں ایک دوسرے کی خود مختاری کا احترام کرنا ہے۔ ہم بڑے بھائی کا کردار اسی وقت نبھا سکتے ہیں جب چھوٹا بھائی ہمیں بڑا سمجھتا ہو۔ یہ محبت سے ہو سکتا ہے‘ زور اور طاقت سے نہیں۔ دوسرا‘ مجرموں کا تبادلہ۔ تیسرا‘ دونوں ممالک کی سرزمین کو پراکسی جنگوں سے پاک کرنا۔ ان تین نکات پر پاکستان اور افغانستان میں دوٹوک مذاکرت ناگزیر ہیں‘ اور اس میں تاخیر نہیں کرنا چاہیے۔ اس وقت ملک کے جو حالات ہیں اس میں کسی قسم کی مزید تاخیر ہم برداشت نہیں کر سکتے۔
مذہبی اور ثقافتی یگانگت اس ضمن میں معاون ہو سکتی ہے۔ یہ واضح ہو چکا کہ ایسی یگانگت خارجہ پالیسی کی بنیاد نہیں بن سکتی۔ ایسا ہوتا تو ایران اور عراق ایک دوسرے کے خلاف صف آرا نہ ہوتے اور پاکستان اور افغانستان بھی متصادم نہ ہوتے یا ایران بھارت کی نسبت پاکستان سے زیادہ قریب ہوتا؛ تاہم اس مذہبی و ثقافتی ہم آہنگی کا اضافی فائدہ ضرور ہو سکتا ہے۔ اس کی بنیاد پر پاکستان کو بھارت پر برتری حاصل ہو گی۔ افغان عوام بھی یقیناً پاکستان کو ترجیح دیں گے۔ ایک افغان مریض علاج کے لیے دلی کے بجائے پشاور آنا پسند کرے گا‘ جو قریب ہے اور جہاں وہ کسی طرح کی اجنبیت محسوس نہیں کرتا۔
آج افغانستان کو دشمن نہیں، دوست بنانے کی ضرورت ہے۔ آج پاکستان کا مسئلہ بھارت نہیں، افغانستان ہے۔ بھارت سے نمٹنے کے لیے ہمارے پاس سو راستے ہیں۔ یہ کئی سالوں سے ہمارے دفاعی اور خارجہ امور کا مرکز ہے۔ مسئلہ افغانستان کا ہے جس سے ہم صحیح طرح نمٹنے میں کامیاب نہیں ہو رہے۔ طاقت اگر ایسے مسائل حل کرنے کی اہل ہوتی تو امریکہ افغانستان میں کامیاب ہو چکا ہوتا۔ حکمت ہی واحد راستہ ہے جس میں خیر ہے۔