اگر محمد نواز شریف ابتدا ہی میں عدالت کے دائرہ اختیار کو چیلنج کر دیتے تو؟
عدالت عظمیٰ کا فیصلہ یہی ہے کہ یہ مقدمہ ابھی ابتدائی تحقیقات کا تقاضا کرتا ہے۔ اس کے لیے تفتیشی اداروں کی مدد کے بغیر معاملہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اگر ابتدا ہی میں یہ بات طے ہو جاتی کہ عدالتِ عظمیٰ ایک تفتیشی عدالت (Trial Court) نہیں ہے تو عدالت کا وقت ضائع نہ ہوتا اور اس کے ساتھ قوم بھی اس اضطراب سے بچ جاتی جس کی سولی پر ایک سال تک لٹکتی رہی۔ 22 اپریل 2016ء کو نواز شریف صاحب نے تحقیقاتی کمیشن کے قیام کے لیے سپریم کورٹ کو خط لکھنے کا اعلان کیا تھا۔ ایک سال بعد سپریم کورٹ بھی اسی نتیجے تک پہنچی کہ ایک جے آئی ٹی کی ضرورت ہے اور یہ کام وہی ریاستی ادارے کریں گے جن پر ہمیشہ سوال اٹھایا جاتا رہا۔ گویا دائرے کا ایک سفر تھا جسے طے کرنے میں ہم نے ایک سال لگا دیا۔
عدالتِ عظمیٰ کے پاس دو راستے تھے۔ ایک یہ کہ وہ آئین اور قانون کے ساتھ ساتھ، ان شواہد کو دیکھتی جو اس کے سامنے پیش کیے گئے۔ دوسرا راستہ یہ تھا کہ وہ اس فضا کو پیش نظر رکھتی جو ملک بھر میں بنا دی گئی تھی۔ میڈیا کے ایک طبقے کی معاونت سے، تحریک انصاف نے یہ تاثر گہرا کر دیا کہ انصاف کا صرف ایک مفہوم ہے اور وہ ہے محمد نواز شریف کے خلاف فیصلہ۔ شیخ رشید نے اسے ایک جملے میں سمیٹ دیا: قانون یا نون۔
20اپریل کی صبح اتفاقاً ایک ٹی وی چینل پر نظر پڑی۔ ایک 'صحافی‘ شیخ رشید سے پوچھ رہے تھے: آپ نے کمیٹی چوک میں جشن منانا ہے یا کہیں اور؟ دوسرا سوال تھا: بتائیں کیا نواز شریف کو لینے کے لیے طیارہ پہنچ گیا ہے؟ تحریک انصاف کے حامیوں میں اس فیصلے کے بارے میں ایسا تیقن تھا، جیسے کسی دوسرے فیصلے کا کوئی امکان ہی نہیں۔ یہی ماحول انہوں نے ملک بھر میں بنا دیا تھا۔ عدالت نے بحیثیت مجموعی اس تاثر کو قبول نہیں کیا اور پہلے راستے پر چلنے کا فیصلہ کیا۔ پہلا راستہ آئین اور شہادتوں کا راستہ تھا۔
اپوزیشن اب وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ اس میں پیپلز پارٹی بھی شامل ہے جس نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اسے عوام اور انصاف کے ساتھ مذاق قرار دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جس فیصلے کو آپ قبول ہی نہیں کرتے اس کی بنیاد پر استعفے کا مطالبہ کیوں؟ تحریک انصاف البتہ اس مطالبے کا حق رکھتی ہے۔ اس نے عدالتی فیصلے کو مانا ہے؛ تاہم اس کی طرف سے احتجاج کا فیصلہ قابلِ فہم نہیں ہے۔
جب سپریم کورٹ نے ایسا فیصلہ دے دیا جس پر آپ کو اطمینان ہے تو پھر اس احتجاج کی کیا ضرورت ہے؟ تحریک انصاف کا نقطۂ نظر ہمیشہ یہ رہا ہے کہ اس نظام میں سرے سے کوئی خیر نہیں۔ اب اس کی خاک اڑا دینی چاہیے۔ عدلیہ اسی نظام کا حصہ ہے۔ وہ ایک فیصلہ دیتی ہے جسے آپ درست سمجھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نظام کے بارے میں آپ کی رائے درست نہیں تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عدالتِ عظمیٰ نے معاملات کو ایک بار پھر اسی ایف آئی اے اورنیب کے سپرد کر دیا ہے، جس پہ آپ کو بھروسہ نہیں تھا۔ چلیے آپ نے مان لیا تو پھر احتجاج کیوں؟
یہ احتجاج دراصل اس کی سابق پالیسی کا تسلسل ہے۔ تحریک انصاف یہ سمجھتی ہے کہ اس نے محض اپنے دباؤ سے عدالتِ عظمیٰ کو مجبور کر دیا کہ وہ ایک ایسے مقدمے کو سنے جس کے بارے میں یہ قانونی بحث موجود ہے کہ عدالت اس کی سماعت کی مجاز تھی بھی یا نہیں۔ ابتدا میں رجسٹرار سپریم کورٹ نے فنی بنیادوں پر ان درخواستوں کو خارج کر دیا۔ بعد میں جسٹس جمالی صاحب نے اپیل منظور کرتے ہوئے ان کی سماعت کا فیصلہ کیا۔ تحریکِ انصاف کا خیال یہ ہے کہ وہ اس کے دباؤ کا نتیجہ تھا۔ دو جج صاحبان کے اختلافی نوٹ کی بھی وہ یہ تاویل کر سکتی ہے کہ یہ بھی اس کے دباؤ کا اثر ہے۔ اب ان کی حکمتِ عملی یہ دکھائی دیتی ہے کہ اس دباؤ کو برقرار رکھا جائے‘ شاید دو ماہ بعد وہ عدالت کو ایک بار پھر متاثر کرنے میں کامیاب ہو جائے۔
اس سیاسی حکمتِ عملی کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ تحریکِ انصاف نے ایک روایتی اپوزیشن کی طرح حکومت کو تین سال سے زچ کر رکھا ہے۔ پہلے دھرنا اور پھر پاناما۔ جب سے پاناما کیس کا آغاز ہوا ہے، وزیر اعظم نواز شریف صرف عدالت ہی نہیں، میڈیا کے سامنے بھی ملزم بنے کھڑے ہیں۔ حکومت کی تمام تر توجہ اپنے دفاع پر ہے۔ میڈیا اور دیگر فورمز پر بحث صرف ایک نکتے کے گرد گھو رہی ہے اوروہ ہے پاناما۔ اس کے علاوہ وہ تمام اچھی خبریں پس منظر میں چلی گئی ہیں‘ جن سے حکومت اور وزیر اعظم کی ساکھ بہتر ہو سکتی تھی۔ بطور اپوزیشن یہ تحریکِ انصاف کی کامیابی ہے۔ شیخ رشید کی یہ بات درست ہے کہ دھرنے نے نواز شریف کو وہ نقصان نہیں پہنچایا جو پاناما کے مقدمے نے پہنچایا ہے۔
عمران خان کی حکمتِ عملی اب بھی یہی ہے کہ نواز شریف عدالت، میڈیا اور سیاست کے کٹہرے میں کھڑے رہیں۔ اس سے ملک و قوم کا وقت ضائع ہوتا ہے تو یہ ان کا مسئلہ نہیں ہے۔ دھرنے سے ان کی حکمتِ عملی واضح ہے کہ انہیں اپنے اقتدار کے راستے میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ وزیر اعظم نواز شریف کو ہٹانا ہے۔ ملک و قوم اس کی جو قیمت ادا کریں، انہیں اس سے زیادہ دلچسپی نہیں۔ لگتا یہ ہے کہ وہ 2018ء تک اسی حکمتِ عملی پر عمل پیرا رہنا چاہتے ہیں۔ گویا قوم نے متبادل سیاسی قوت کے ابھرنے کا ایک اور موقع گنوا دیا۔
اس مقدمے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ ملک کی تاریخ میں شاید پہلی بار، اختلافی نوٹ بھی فیصلے کے ساتھ پڑھ کر سنایا گیا۔ بالعموم صرف عدالتی فیصلہ ہی سنایا جاتا ہے۔ اس کی حکمت کیا تھی، مجھ پر واضح نہیں ہو سکا۔ عدالتِ عظمیٰ کے اس فیصلے کا آغاز بھی میرے لیے اچنبھے کا باعث ہے۔ یہ ایک ناول کا جملہ ہے کہ 'ہر خوش بختی کے پیچھے کوئی جرم ہوتا ہے‘۔ میں کل سے بل گیٹس اور سٹیو جوبز کی کامیابی کے پیچھے موجود کسی جرم کی تلاش میں ہوں۔ اس حوالے کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ عدالتی فیصلہ اور فکشن دو متضاد چیزیں ہیں۔ عدالتی فیصلہ حقیقی دنیا کا واقعہ ہے جس سے انسانوں کی جان بھی لی جاتی ہے۔ اس کی بنیاد زمینی حقائق اور شواہد پر ہوتی ہے۔ فکشن سر تا پا تخیل ہے۔ کردار فرضی اور نتائج بھی مصنف کی مرضی کے۔ مجھے حیرت اس پر ہوئی کہ ایک مفروضے پر ایک حقیقی واقعے کو قیاس کیا جا رہا ہے۔ پھر یہ کہ اختلافی رائے سے فیصلے کا آغاز ہو رہا ہے، بالعموم عدالتی فیصلے کا انداز یہ ہوتا ہے کہ پہلے مقدمے کی تفصیل بیان ہوتی ہے۔ شواہد کے رد و قبول کی دلیل دی جاتی ہے اور پھر فیصلہ سنایا جاتا ہے۔ اس بار عدالت نے فکشن سے آغاز کیا۔ شاید اس کا تعلق جج صاحبان کے ذوق سے ہو کہ وہ فیصلے کے لیے کیا اسلوب اختیار کرتے ہیں؟
فیصلہ آ چکا۔ بطور قوم ہم اسے قبول کریں گے کہ قانون و آئین کی بالادستی کا یہی مفہوم ہے؛ تاہم اس فیصلے کے مضمرات برسوں زیرِ بحث رہیں گے۔ یہ ابھی طے ہونا ہے کہ اسے صدیوں یاد رکھا جائے گا یا نہیں۔ اور اگر رکھا جائے گا تو کس عنوان کے ساتھ۔ میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ اگر وزیر اعظم نواز شریف ابتدا میں ہی عدالت کے دائرہ اختیار کو چیلنج کرتے تو کیا قوم کا ایک سال بچ سکتا تھا؟