افغانستان سے فلسطین تک پھیلی المیوں کی داستانیں،اس حقیقت پر مہرِ تصدیق ثبت کر رہی ہیں کہ قائد اعظم کے بعد، مسلمانوں کی سیاسی قیادت کسی صاحبِ بصیرت کے ہاتھ نہیں آئی۔
بیس سال بعد،گل بدین حکمت یار کابل تشریف لائے تو اس طرح کہ ان کے ایک طرف اشرف غنی تھے اور دوسری طرف حامد کرزئی۔یہ اس مفاہمت کا ایک باب ہے جس کاآغازکچھ وقت پہلے ہوا۔اس کے نتیجے میں گل بدین کی جماعت موجودہ حکومت کا حصہ بنی اورامریکہ نے ان کا نام دہشت گردوں کی فہرست سے خارج کیا۔گویا انہوں نے امریکہ کو یہ ضمانت دے دی کہ وہ اب 'اچھے بچے‘ بن کر رہیں گے۔4مئی کووہ کابل میں داخل ہوئے تو لوگوںکی ایک بڑی تعداد نے ان کا استقبال کیا۔یہ اس کا اظہار ہے کہ وہ بدستور ایک قابلِ ذکر سیاسی قوت ہیں۔
یہ ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔یہ عسکریت پسندی سے سیاسی عمل کی طرف مراجعت ہے جس کا خیرمقدم کر نا چاہیے۔افسوس مگر اس بات کا ہے کہ جو کام انسانی جانوں کے غیر معمولی ضیاع اور افغانستان کی بربادی کی قیمت پر ہوا، وہ اس کے بغیر بھی ہو سکتا تھا۔آج گل بدین کو جو کچھ ملاہے،اس سے کہیں زیادہ انہیں اس سے پہلے بھی مل سکتا تھا۔اگر وہ احمد شاہ مسعودسے صلح کر لیتے تو کابل کھنڈرات میں تبدیل ہوتا اورنہ افغانوں پر خانہ جنگی کا عذاب اترتا۔آج بھی انہوں نے امریکہ سے مفاہمت کی۔اگر وہ یہ کام 1990ء کی دھائی میں کر لیتے تو نہ صرف افغانستان بلکہ دنیا کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔
سوویت یونین کی شکست وریخت کے بعد،اگر افغانستان میں مجاہدین کی قیادت بصیرت کا مظاہرہ کرتی اور مستحکم حکومت کی بنیاد رکھتی تو 9/11 ہوتا نہ عالمِ اسلام بر باد ہوتا۔آج مشرقِ وسطیٰ اور ہمارے گھر میں جو فساد برپا ہے،اس کی اساس افغانستان کی خانہ جنگی ہے۔اگر گلبدین اور دوسرے راہنما دور بین ہوتے تو آج کی دنیا کہیں زیادہ پرامن ہوتی۔افسوس کہ انہوں نے بیت اللہ میں کیے عہد و پیمان کابھی احترام نہیں کیا۔
گل بدین حکمت یار کے پاس تیسرا موقع وہ تھا جب وہ طالبان کے ساتھ معاملہ کر سکتے تھے۔جس حیثیت میں آج وہ اشرف غنی کی حکومت میں شریک ہیں،اس سے کہیں زیادہ بہتر طور پر طالبان کے ساتھ شریکِ اقتدار ہوسکتے تھے اگروہ ملا عمر کی قیادت کو تسلیم کر لیتے۔یہ احمد شاہ مسعود ہوں یا ملا عمر، اشرف غنی سے تو بہر حال بہتر انتخاب ہو تے۔ یہی وہ بے بصیرتی ہے جس کا رونا ہے۔اسی نے آج افغانستان کو بر باد کر دیا اور امریکہ جیسی قوتوں کو یہ موقع دیا کہ وہ اپنے سامراجی عزائم کے لیے مسلمان ملکوں کو میدان ِ جنگ بنائیں۔
کچھ ایسا ہی معاملہ فلسطین میں بھی ہوا۔حماس نے چند دن پہلے اپنے بنیادی لائحہ عمل پر نظر ثانی کرتے ہوئے،ایک ترمیم شدہ چارٹر جاری کیا ہے۔اس میں انہوں نے فلسطین کی اس ریاست کو قبول کر نے کا اعلان کیا ہے جس کی سرحدیں 1967 ء کی عرب اسرائیل جنگ سے پہلے طے کرد ی گئی تھیں۔اگرچہ انہوں نے ابھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا لیکن یہ اقدام اس سمت ہی میں پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔حماس اس سے پہلے فلسطین اسرائیل تنازع کو مسلمانوں اور یہودیوں کی جنگ کہتی تھی اور خود کو اخوان المسلمون ہی کا حصہ شمار کرتی تھی۔ تبدیل شدہ چارٹر میں ایسے الفاظ نکال دیے گئے ہیں جن سے اخوان کے ساتھ کسی تعلق کا اظہار ہوتاہو۔
حماس کے سبک دوش ہونے والے راہنما خالد مشال نے دوحہ میں اس نئی دستاویز کا اعلان کیا۔ان کا کہنا تھا کہ ان کی جنگ صیہونیوں سے ہے جو ان کے علاقوں پر قابض ہیں۔یہودیوں یایہودی مذہب سے ان کی کوئی دشمنی نہیں۔حماس کے ترجمان نے بھی کہا کہ وہ بنیاد پرست نہیں۔ ایک اور اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ حماس کے نئے منتخب راہنما اسماعیل ہنیہ نے بھی چند ماہ پہلے مصر کا دورہ کیا۔یہ صدر مرسی کی حکومت کے خاتمے اور جنرل سیسی کے اقتدار پر قبضے کے بعد حماس کے کسی راہنما کا پہلا دورہ ء مصر ہے۔یہ پیش رفت بتا رہی ہے کہ حماس بھی اب سیاسی جدو جہد کا رخ کر رہی ہے۔اس سے پہلے پی ایل او نے اس حقیقت کا اعتراف کیا تھا کہ عسکری جد وجہد مسئلے کا حل نہیں ہے۔پی ایل او بھی مروجہ مفہوم میں ایک دہشت گرد تنظیم شمار ہوتی تھی۔مسیحی فلسطینی جنگجو لیلیٰ خالد کا تعلق بھی پی ایل او سے تھا جس نے جہاز اغوا کیا تھا۔یاسر عرفات کو عمر کے آخری حصے میں اندازہ ہوگیا کہ اس دور میں عسکری جدو جہد کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔یوں انہوں نے امریکہ اور مغرب کے ساتھ مذاکرات اور سیاسی عمل میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔اس پروہ فلسطینیوں کے غدار قرار پائے لیکن اب حماس نے بھی زبانِ حال سے بتا دیا ہے کہ ان کا فیصلہ ہی درست تھا۔
دو عشرے پہلے امریکہ کی طرف سے مسئلہ فلسطین کا دوریاستی حل پیش کیاجا رہا تھا۔صدر بل کلنٹن کا فارمولہ سب سے بہتر حل تجویز کرتا تھا۔ اس میں1967 ء کی عرب اسرائیل جنگ سے پہلے کی سرحدوں کے مطابق دو ریاستوں کے قیام کی بات کی گئی تھی اور اس کے ساتھ یروشلم کو کھلا شہر(open city)قرار دیا گیا تھا۔اس کا مطلب یہ تھا کہ اسرائیل کو وہ علاقے خالی کرنا پڑتے جن پر اس نے 1967ء کی جنگ میں قنضہ کر لیا تھا۔افسوس کہ اس فارمولے کو اس وقت قبول نہیں کیا اور آج بیس سال بعدحماس اسی فلسطین ریاست کو قبول کر رہی ہے۔
اس سارے عرصے میں فلسطینیوں کی تین نسلیں بر باد ہوگئیں۔افغانیوں کی تیسری نسل ہے جوخانہ جنگی، بدامنی اور در بدری کا عذاب سہہ رہی ہے۔اب گل بدین بھی سیاسی عمل کا حصہ بن رہے ہیں اور حماس بھی اس سمت میں آگے بڑھ رہی ہے۔واقعہ یہ ہے کہ نو آبادیاتی دور کے خاتمے اور جمہوریت کے آنے کے بعد، دنیا میں عسکری جد وجہد کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیاہے۔اس کے نتیجے میں صرف فساد برپا ہو سکتا ہے۔قائداعظم کواس کا اندازہ تھا۔یہی وجہ ہے کہ جب ہندوستان میں مذہبی راہنما مسلمانوں کو عسکری جد وجہد اور انگریزوں سے تصادم پر ابھار رہے تھے، قائداعظم نے انہیں سیاسی جدو جہد کا راستہ دکھایا اور ایک انسانی جان قربان کیے بغیرانہیں آزادی جیسی نعمت دلوائی ۔افسوس کہ دنیا بھر میں پھر مسلمانوں کو ایسا صاحبِ بصیرت راہنما نہیں مل سکا۔جو ملا ان کے جذبات سے کھیلنے والا ملا۔
اس افسوس کے ساتھ،اللہ کا شکر ہے کہ بعد از خرابی بسیار لوگ سیاسی جد وجہد کا رخ کر رہے ہیں۔اب دیکھنا ہے کہ باقی لوگ اس حقیقت کو جلدسمجھتے ہیں یا حسب ِ توفیق مسلمانوں کی بر بادی میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ افسوس در افسوس کہ مسلمانوں کوخالی ہاتھ ٹکرانے کا مشورہ وہ لوگ دے رہے ہیں جو خود اور ان کی اولاد جدید دنیاکے تما م لوازمات سے متمتع ہو رہے ہیں۔ )
(پس نوشت: کالم اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا تھا کہ افغانستان کے جواں سال دیوبندی عالم مولاناعبدالغفور پیروز کی شہادت کی خبر ملی۔انہیں آج سات مئی کو قندہار میں قتل کر دیا گیا۔ ان کا تعلق ایک علمی خانوادے سے تھا ۔وہ فساد کے لیے دین کے استعمال کو غلط کہتے تھے۔انہوں نے پشتو میں اعلیٰ علمی کتب کے ترجمے کی روایت قائم کی اور اس زبان کا دروازہ علمی مباحث کے لیے کھولا۔ان کے' جرائم ‘میں یہ بھی شامل تھا کہ انہوں نے جاوید احمد غامدی صاحب کی کتب کا پشتو میں ترجمہ کیا ہے۔اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور عالم انسانیت بالخصوص مسلمان معاشروں کو اس ظلم ا ور فساد سے نجات دلائے۔)