'' انتہا پسندی کسی نظریے (Ideology) یا مذہب کی دَین نہیں، یہ ایک ذہنی ساخت (mindset) کا نام ہے‘‘۔
ایک عامی اگر یہ بات کہے تو اس سے صرفِ نظر کیا جا سکتا ہے۔ افواجِ پاکستان کا سالارِ اعلیٰ جب ان خیالات کا اظہار کرے تو پھرصرفِ نظر اور گریز ممکن نہیں۔ پھر یہ بات سنجیدہ غور و فکر کی متقاضی ہے۔ فیصلہ سازی کی اعلیٰ ترین سطح پر اگر ابہام ہو گا تو اس کا اثر دور تک پہنچے گا۔ 1979ء میں اسی سطح پر یہ واقعہ ہوا، قوم آج تک نتائج بھگت رہی ہے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب نے جمعرات کو ''انتہا پسندی کے رد میں نوجوانوں کا کردار‘‘ کے موضوع پر فکر انگیز خطاب کیا۔ اخبارات میں جس حد تک رپورٹ ہوا، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انتہا پسندی کے ہمہ جہتی تجزیے کے ساتھ، انہوں نے اس باب میں معاشرے کے مختلف طبقات کی ذمہ داریوں کا بھی ذکر کیا۔ افواج پاکستان کی خدمات پر بھی بات ہوئی۔ اس تجزیے سے فی الجملہ اختلاف کی گنجائش نہیں۔ فوج نے اپنے حصے کا کام احسن طریقے پر کیا۔ جس جواں مردی کے ساتھ ہمارے جوانوں نے یہ معرکہ لڑا ، تاریخ اس پر ہمیشہ انہیں خراجِ تحسین پیش کرتی رہے گی۔ جنرل صاحب نے صحیح کہا کہ اب کچھ کام دوسروں کو بھی کرنے ہیں۔ ایک کام انتہا پسندی کے فکری ماخذ تک رسائی اور اس کا رد ہے۔ یہ کام اہلِ دانش کو کرنا ہے۔ وہ یہ کام اسی وقت کر سکیں گے جب انہیں معلوم ہو گا کہ مذہبی انتہا پسندی صرف ذہنی ساخت کا نام نہیں۔ یہ ایک آئیڈیالوجی بھی ہے۔ درست تر الفاظ میں انتہا پسندیوں نے آئیڈیالوجی کو ایک ذہنی ساخت (mindset) میں بدل دیا ہے۔
میرا خیال ہے محترم جنرل باجوہ صاحب نے وہ خط ضرور پڑھا ہو گا جو تحریک طالبان پاکستان کے ذمہ داران نے پاکستانی علما کے نام لکھا تھا۔ یہ خط اس پوری آئیڈیالوجی کو بیان کر رہا ہے جس پر طالبان کی عمارت کھڑی ہے۔ اس خط میں طالبان نے اپنے موقف کو ایک دینی بیانیے کی صورت دی ہے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ کیسے یہ آئیڈیالوجی علمی اور تاریخی اساسات رکھتی ہے۔ میرے علم میں نہیں کہ علما کی طرف سے اس خط کا کوئی باضابطہ جواب سامنے آیا ہو۔
القاعدہ کے ذمہ داران نے بھی بارہا اپنی آئیڈیالوجی بیان کی۔ ایمن الظواہری نے تو خاص طور پر پاکستانی آئین کا تجزیہ کیا‘ اور بتایا کہ ان کے نزدیک کیسے پاکستان ایک غیر اسلامی ریاست اور آئینِ پاکستان ایک غیر اسلامی دستاویز ہے۔ ان کی اس کتاب کا اردو ترجمہ شائع ہو چکا ہے۔ یہی معاملہ داعش کا بھی ہے۔ داعش کی بنیاد جس آئیڈیالوجی پر ہے وہ ''عالمی خلافت‘‘ کے تصور پر مبنی ہے۔ یہ آئیڈیالوجی پاکستانی میڈیا پر بیان ہوتی ہے۔ اس کے دلائل دیے جاتے ہیں اور یہ بتایا جاتا ہے کہ ریاستوں کی موجودہ تقسیم غیر اسلامی اور استعمارکی چال ہے۔ مسلمان اس تقسیم کو ماننے کا پابند نہیں ہیں۔ مسلمانوں کی تکفیر اسی آئیڈیالوجی کی فرع ہے۔
آج عالم اسلام میں، سعودی عرب سے لے کر پاکستان تک اہل علم کا ایک بڑا طبقہ ہے جس نے اس آئیڈیا لوجی کے رد میں وقیع علمی لٹریچر تیار کیا ہے۔ سعودی حکومت نے تو اس کے خلاف ایک علمی اور نظریاتی مہم شروع کر رکھی ہے۔ پاکستان میں جماعت الدعوۃ نے اس آئیڈیالوجی کی تردید میں بہت سی کتابیں شائع کی ہیں۔ طاہرالقادری صاحب نے ایک ضخیم فتویٰ مرتب کیا ہے جس میں بتایا ہے کہ یہ جدید عسکری گروہ خوارج کی آئیڈیالوجی کو ماننے والے اور اس کی تشکیلِ نو ہے۔ اگر انتہا پسندی کوئی آئیڈیالوجی نہ ہوتی تو جوابی بیانیے کی بحث غیر ضروری مشق کے سوا کچھ نہ تھی۔
محترم آرمی چیف نے اپنی تقریر میںداعش کا ذکر کیا اور نوجوانوں کو اس سے دور رکھنے کی بات کی۔ نوجوانوں میں اگر ان تحریکوں کا گزر ہوا ہے تو اس لیے کہ اس آئیڈیالوجی نے انہیں قائل کیا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ کیسے 'حزب التحریر‘ اور دوسرے گروہ بطور خاص یونیورسٹیوں اور کالجوں میں متحرک رہے ہیں۔ 'حزب التحریر‘ کے لوگوں نے پاکستان میں بندوق نہیں اٹھائی۔ اس کے باوجود انہیں کالعدم قرار دیا گیا۔ ان کا کام تو صرف فکری سطح پر تھا۔ ایک لٹریچر ہے جسے وہ پھیلا رہے تھے۔ یہ لٹریچر میری نظر سے گزرا ہے۔ یہ ایک مکمل آئیڈیالوجی ہے جس کو کسی طرح ''ذہنی ساخت‘‘ نہیں کہا جا سکتا۔
معاملہ اگر صرف ''ذہنی ساخت‘‘ کا ہو تو پھر ماہرینِ نفسیات کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر آئیڈیالوجی کا ہو تو پھر فکری راہنماؤں اور اہل علم کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب بھی انتہا پسندی کی بات ہوتی ہے، ریاست اہل علم کو جمع کرتی ہے، علما کو پکارتی اور ان سے مدد کے لیے کہتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لاشعور کی سطح پر وہ اسے آئیڈیالوجی ہی سمجھتی ہے۔ اس وقت ضرورت ہے کہ ریاست کی اعلیٰ ترین سطح پر شعور اور لاشعور کے درمیان فاصلہ ختم ہو۔ اسی سے ابہام پیدا ہوتا ہے۔ اس سے پہلے محترم وزیر داخلہ نے بھی بارہا اس مو ضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ مجھے ہمیشہ یہ خیال ہوا کہ ہماری ریاستی قیادت پر یہ معاملہ اپنے صحیح سیاق و سباق کے ساتھ واضح نہیں۔
ہمارا سامنا محض انتہا پسندی سے نہیں، مذہبی انتہا پسندی سے ہے۔ انتہا پسندی کو اگر ایک سماجی عمل کے طور پر دیکھا جائے تو پھر یہ بات درست ہے کہ یہ ایک ''ذہنی ساخت‘‘ کا نام ہے۔ کبھی انصاف کی عدم فراہمی لوگوں کو انتہا پسند بنا دیتی ہے‘ اور کبھی محرومیاں ان کو ایسی ذہنی کیفیت میں لے جاتی ہیں جو انتہا پسندانہ رویوں میں ظہور کرتی ہیں۔ مذہبی انتہا پسندی کی معاملہ یہ نہیں ہے۔ معاشی طور پر آسودہ اور سماجی طور پر معتدل لوگ ''مذہبی انتہا پسند‘‘ بن جاتے ہیں۔ یہ محض ذہنی ساخت نہیں تھی جو اسامہ بن لادن کو عشرت کدوں سے نکال کر تورا بورا کے پہاڑوں اور افغانستان کی سنگلاخ سرزمین تک لے آئی تھی۔
یہ صلاحیت صرف آئیڈیا لوجی میں ہوتی ہے جو انسان کو اتنا بڑا قدم اٹھانے پر مجبور کرتی ہے۔ دنیا میں جتنی بڑی انتہا پسندانہ تحریکیں اٹھیں، ان کی بنیاد کسی نہ کسی آئیڈیالوجی پر تھی۔ یہ اشتراکیت کی تحریک ہو یا خوارج کی۔ القاعدہ ہو یا طالبان۔ چی گویرا اور اسامہ بن لادن دونوں ایک آئیڈیالوجی کو ماننے والے تھے۔ دونوں کی 'فقہ‘ میں تشدد ناگزیر تھا۔
دہشت گردی، انتہا پسندی کا مظہر ہے اور مذہبی انتہا پسندی، ایک آئیڈیالوجی کا ظہور ہے۔ یہ ایک سلسلہ (chain) ہے۔ فوج نے دہشت گردی کوختم کرنا ہے اور وہ اس میں بڑی حد تک کامیاب ہے۔ انتہا پسندی ایک سماجی عمل ہے جس کی اصلاح حکومت اور سول سوسائٹی کے ذمہ ہے۔ آئیڈیالوجی، علما اور اہل علم و دانش کا موضوع ہے۔ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس آئیڈیالوجی کی غلطی واضح کریں۔ جب یہ اسلام کی تعلیمات سے اخذ کی جاتی ہے تو مسلم سکالرز کو اس کی غلطی واضح کرنی ہے۔ یوں معاشرے کے مختلف طبقات کی مشترکہ جدوجہد کے نتیجے میں انتہا پسندی کا خاتمہ ممکن ہو گا۔
جنرل صاحب یقینایہ چاہتے ہیں کہ دہشت گردی یا انتہا پسندی کو اسلام سے منسوب نہیں کرنا چاہیے۔ اس بات کی صحت میں کچھ کلام نہیں۔ آئیڈیالوجی مگر ایک دوسری شے ہے جو بعض اوقات مذہب کی غلط تعبیر سے پیدا ہوتی ہے جیسے اسلام کے ساتھ ہوا۔ مذہب کا معاملہ واضح ہے جسے خود جنرل قمر باجوہ صاحب نے بہت اچھے الفاظ میں بیان کر دیا کہ وہ ایک اچھی زندگی کا درس ہے، بے فیض موت کا پیغام نہیں۔