صبح آنکھ کھلی تو حسبِ عادت ٹیلی فون پر نظر ڈالی۔ چند برقی پیغامات منتظر تھے۔ پڑھے تو چونک اُٹھا۔ کھلی آنکھ، کھلی کی کھلی رہ گئی۔
بزم آرائی میرے مزاج کا حصہ نہیں۔ طبعاً ہجوم سے گریز کرتا ہوں۔ حلقۂ احباب شاید ہی دس کے ہندسے کو عبور کر پایا ہو۔ کئی سال تو ایسے بھی گزرے کہ میں، دو کا دوسرا تھا۔ خلیل ملک زندہ تھے تو اپنے نام کا مصداق بنے رہے۔ یہ اس افتادِ طبع کی عطا ہے کہ سوشل میڈیا سے گریزاں ہوں۔ چند سال پہلے چند احباب نے اصرار کیا کہ فیس بک پر پیج بنا دیا جائے جہاں کم از کم میرا کالم تو پڑھنے والوں کو میسر رہے۔ میرے تذبذب کے باوجود انہوں نے یہ اقدام کر ڈالا۔ عرصہ دراز میں نے یہ پیج دیکھا ہی نہیں۔ احباب نے پھر توجہ دلائی کہ میں اس کو وزٹ کروں اور یہ جانوں کہ قارئین کالموں پر کیا رائے دیتے ہیں۔ یوں میں نے اپنا پیج دیکھنا شروع کیا۔ اب کالموں پر تبصرے پڑھتا ہوں اور سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں کہ خلقِ خدا کیا کہتی ہے۔ اس میں میرے لیے راہنمائی کا بہت سامان ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا سے اس دوری کے سبب میں اس بحث سے بے خبر رہا جو برادرم رؤف کلاسرا کے حوالے سے شروع ہوئی۔ دو دن پہلے ایک دوست نے توجہ دلائی۔ مجھے بہت تشویش ہوئی۔ ہفتے کی شب کلاسرا بھائی کو فون کیا۔ دیر تک بات ہوتی رہی۔ دل چاہا کہ منیر نیازی کے دو مصرعے دہرا دوں۔
مرے باہر فصیلیں تھیں غبارِ خاک و باراں کی
ملی مجھ کو ترے غم کی خبر آہستہ آہستہ
انہوں نے تفصیل بتائی تو صدمہ ہوا۔ انسان کی اصل متاع اخلاق ہے۔ وہ اس سے تہی دامن ہو جائے تو شرفِ انسانیت سے محروم ہو جاتا ہے۔ کلاسرا سے اظہارِ افسوس کیا کہ میں یہی کر سکتا تھا۔ مجھے رؤف کلاسرا کے سیاسی تجزیے سے کم ہی اتفاق ہو سکا ہے۔ یہ عدم اتفاق مگر باہمی احترام میں کبھی حائل نہیں رہا کہ میں نے ان کے نقطۂ نظر کو ہمیشہ دیانتدارانہ سمجھا ہے۔ میری طرح ان کا یہ حق ثابت ہے کہ وہ اپنی بات کہیں۔ ان کی بات کو کوئی چاہے تو رد بھی کر سکتا ہے مگر کردار کشی اس کا جواب نہیں، لاجواب ہونے کی دلیل ہے۔
علی الصبح جس پیغام نے مجھے چونکا دیا وہ ایک محترم کالم نگار کے حوالے سے تھا‘ جنہوں نے لکھا کہ کلاسرا صاحب کے بارے میں جاوید غامدی صاحب کے کسی شاگردِ رشید نے گھناؤنا الزام گھڑا اور اپنی ویب سائٹ پر اس کی تشہیر کی۔ برقی پیغام بھیجنے والے کا دھیان میری طرف گیا تھا کہ مجھ پر بھی جاوید صاحب کے شاگرد ہونے کی'تہمت‘ ہے۔ میں نے اخبار کھولا اور کالم کے الفاظ پھلانگتا ان جملوں تک پہنچا، جن کا ذکر کیا گیا تھا۔
میرے لیے جاوید صاحب کا حوالہ باعثِ حیرت تھا۔ اگر کسی نے کچھ لکھا بھی تھا تو اس کے تعارف میں جاوید صاحب کے حوالے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ جاوید صاحب سے میرا تعلق تین عشروں پر محیط ہے۔ یہ ان کے علم کی کشش تھی جو مجھے ان تک لے گئی۔ ان کی مجلس میں بیٹھا تو علم کی تعریف ہی بدل گئی۔ میں جاید صاحب تک پہنچا تو مولانا مودودی اور مولانا امین احسن اصلاحی کے علمی سحر میں تھا۔ جاوید صاحب کا ان دونوں بزرگوں سے شخصی تعلق تھا۔ ابتدائی دنوں ہی میں انہوں نے ہمیں سمجھایا کہ مولانا مودودی اور مولانا اصلاحی کی عظمت کا سبب صرف اُن کا علم نہیں ہے۔ ان کی بڑائی ان کے ذاتی کردار میں ہے۔ وہ اس لیے بڑے ہیں کہ وہ شخصی کردار کے اعتبار سے بڑے لوگ ہیں۔ بطور استاد جاوید صاحب نے ہمیں بتایا کہ مسلمانوں کی علمی روایت میں، علم تزکیے سے الگ نہیں ہے۔
تین عشروں میں، جاوید صاحب کی صحبت میں جس بات کی زیادہ تذکیر کی گئی وہ اخلاق ہے۔ ان کی مجلس میں مسلسل بیٹھنے سے یہ معلوم ہوا کہ انسان اصلاً ایک اخلاقی وجود ہے۔ مذہب کا اصل وظیفہ اس کو پاکیزہ بنانا ہے۔ انسان کو اسی آزمائش میں مبتلا کیا گیا ہے۔ اخلاق سے محرومی شرفِ انسانیت سے محرومی ہے۔ وہ اپنے شاگردوں کی علمی اور اخلاقی تربیت کے بارے میں ہمیشہ بہت حساس رہے۔ میں کم و بیش بیس سال پہلے کا ایک واقعہ کبھی نہیں بھول سکا۔ اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں، میں نے ان کی موجودگی میں ایک تقریر کی۔ اس تقریر کے دوران میں، میں نے ایک لفظ غلط تلفظ کے ساتھ ادا کیا۔ مجھ سے کچھ نہیں کہا‘ لیکن اپنے ایک ہم سبق سے مجھے معلوم ہوا کہ شاگرد کی اس غلطی نے استاد پر کیا قیامت ڈھا دی۔ کہا ''میں نے یہ لفظ ان کی زبان سے اس طرح ادا ہوتے ہوئے سنا تو مجھے دانتوں پسینہ آ گیا۔‘‘ جو استاد اپنے شاگردوں کے غلط تلفظ کو برداشت نہ کرے، اس کے لیے یہ حادثہ کیسے قابلِ برداشت ہو سکتا ہے کہ اس کے کسی' شاگردِ رشید‘ سے کوئی اخلاق سے فرو تر بات منسوب ہو جائے؟
اپنی اس تشویش کے زیرِ اثر میں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اگر میں نہیں تو یہ 'شاگردِ رشید‘ کون ہے؟ یہ جان کر اطمینان ہوا کہ جاوید صاحب کے کسی شاگرد کی ویب سائٹ ایسی نہیں ہے جہاں کلاسرا صاحب کے بارے میں کچھ ایسا چھپا ہو جو اخلاقی حوالے سے ناپسندیدہ ہو۔ میری معلومات کے مطابق ان کے کسی شاگردِ رشید کی کوئی ویب سائٹ ہے ہی نہیں۔ ایک ویب سائٹ پہ کلاسرا صاحب کے بارے میں ایک غیر اخلاقی خبر چھپی لیکن اس کا مالک، ایڈیٹر یا منتظم جاوید صاحب کا کوئی شاگرد نہیں۔ جاوید صاحب کا ایک شاگرد ِان دنوں اِس ویب سائٹ پر کالم لکھتا ہے جیسے میں 'دنیا‘ میں کالم لکھتا ہوں۔ کیا اس بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ 'دنیا‘ غامدی صاحب کے ایک شاگرد کا اخبار ہے؟
اس کے باجود میرا حسنِ ظن ہے کہ محترم کالم نگار صاحب نے پوری تحقیق کے بعد یہ لکھا ہو گا۔ میرا دل نہیں مانتا کہ پروفیسر رفیق اختر صاحب کا شاگردِ رشید ہونے کا دعویٰ کرنے والا ایسا غیر محتاط ہو سکتا ہے۔ میں نے تو پروفیسر صاحب کی صحبت میں بہت کم وقت گزارا لیکن جب بھی موقع ملا، ہمیشہ خیر کشید کیا اور اخلاقی پاکیزگی کا درس سنا۔ امید ہے کہ وہ ہمارا یہ ابہام ضرور دور کریں گے کہ یہ شاگردِ رشید کون ہے۔ پھر میں یہ سمجھ نہیں سکا کہ اگر جاوید صاحب کا کوئی شاگرد خدانخوستہ کسی غیر اخلاقی حرکت کا مرتکب ہو بھی تو اس کے تعارف میں جاوید صاحب کا حوالہ کیوں ضروری ہے؟ لوگ اپنے ظرف کے مطابق اہلِِ علم سے فیض اٹھاتے اور بعض اوقات نسبت کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔کیا شاہ محمود قریشی کی سیاست کی ذمہ داری خواجہ بہاؤ الدین زکریا پر ہو گی کہ وہ ان کے گدی نشین ہیں؟
جاوید احمد غامدی صاحب سے تعلق کو میں نے ہمیشہ اپنے لیے باعثِ سعادت سمجھا۔ یہ تعلق لیکن ہمیشہ ایک آزمائش بھی رہا۔ میں ہمیشہ اپنی کمزوریوں سے خوف زدہ رہا کہ کہیں اِن کی وجہ سے میرے استاد پر حرف نہ آئے جنہوں نے مجھے یہ سکھایا کہ انسان کا اصل وجود اخلاقی ہے اور وہ اسی کے تزکیے پر مامور ہے۔ یہ دراصل اس تعلق کی فرع ہے جو مجھے اسلام سے ہے۔ میرا دین تزکیہ نفس کا پیغام ہے۔ یہ مجھ سے یہ چاہتا ہے کہ میں اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ کے اسوہ سے قریب تر رہتے ہوئے اپنے اخلاق کی تکمیل کروں۔ اگر میں اس میں سرخرو نہ ہوا تو اپنے رب کا سامنا کیسے کروں گا؟ مجھے رسول اللہﷺ کے امتی ہونے کا دعویٰ ہے۔ کیا میں ایسا ہوں کہ میری یہ نسبت میرے رسول کے لیے باعثِ مسرت ہو؟ رسول کے امتی سے ایک عالم کی شاگردی تک، ایک تنا ہوا رسہ ہے جس پر زندگی بھر مجھے چلنا ہے۔