عیدمبارک کا شور اس بار موت کے سناٹے میں گم ہو گیا ۔
کوئٹہ سے پارا چنار اور کراچی سے بہاولپور تک، کہیں دہشت گردی انسانوں کو نگل رہی ہے اور کہیں سوختہ لاشیں کسی حادثے کی خبر دے رہی ہیں۔دودنوں میںدل ہی کیا، سارا گردو پیش لہو سے بھر گیا۔بار بار اس ماں کا چہرہ نگاہوں کے سامنے گھوم جا تا ہے جو دیوانہ وار اور عالم ِ بے خودی میں، سب کواُس بیٹے کی تصویر دکھاتی پھرتی ہے جو اب صرف تصویر میں زندہ ہے۔اس کے آنکھیں کسی کاغذ کے ٹکڑے یا کسی موبائل کی سکرین پر بیٹے کو دیکھیں گی تو سہی مگر اس کی انگلیوں کی پوریں کبھی اس کو چھو نہیں سکیں گی۔ممتاکا لمس اب بے مراد ہی رہے گا،ہمیشہ۔بہاول پورمیں لوگ تیل جمع کرنے لگے تھے۔کوئی پاس سے گزر رہا تھا۔کسے خبر تھی کہ یہ موت کا بلاوا تھا۔نہیں معلوم کتنی مائیں ، کتنی بیٹیاں اور کتنے بیٹے اس حادثے کی نذرہو گئے۔کسے معلوم تھا ان مسافروں کی منزل کوئی اور ہے۔
زندگی، سچ یہی ہے کہ موت کے آغوش میں سانس لیتی ہے۔سید نا علیؓ کے الفاظ میں موت زندگی کی محافظ ہے۔یہ جب اپنی حفاظت اٹھا لیتی ہے تو پھر زندگی دم توڑ دیتی ہے۔موت ہر انسان کے تعاقب میں ہے۔نہیں معلوم کہاں اور کس موڑ پر اسے دبوچ لے۔عمر ،منصب،وقت، مذہب،علاقہ،علم، جہالت، اس با ب میں سب بے معنی ہیں:
تو ہو اگر کم عیار، میں ہوں اگر کم عیار
موت ہے تیری برات، موت ہے میری برات
پھریہ زندگی جتنی ہے،اس کی حقیقت کیا ہے؟ سوچنے والے کہتے ہیں کہ دکھوں کو جب ایک سلسلہ واقعات میں پرو دیا جائے تو زندگی وجود میں آتی ہے۔ایک آدھ کڑی اگر خوشی کی لگ جائے تو وہ کسی چادرمیں لگے ایک پیوند سے زیادہ نہیں۔جس تار سے زندگی کی قبا بنی جا تی ہے وہ دکھ ہے۔کتنے لوگ ایسے بھی ہوں گے جن کے لیے خوشی لغت میں لکھے ایک لفظ سے زیادہ کچھ نہیں۔وہ تو شاید یہ بھی نہ بتا سکیں کہ اس کا ذائقہ کیسا ہوتا ہے۔جو چیزکسی نے کبھی چکھی نہ ہو،اس کے ذائقے کی اسے کیا خبر؟ مرزا اسداللہ خان غالب نے اس المیے کو بیان کیا تو اردوشاعری کا سارا حسن دو مصرعوں میں سمٹ آیا۔
حنائے پائے خزاں ہے بہاراگر ہے بھی
دوامِ کلفتِ خاطرہے عیش دنیا کا
ہمارے گھروں کی طرح وہ گھر بھی خوشیوں کے منتظر تھے جہاں عید سے پہلے موت اتر آئی ہے۔جہاںاب خوشی کے جشن کے بجائے موت کاشورِبرپا ہے۔چوپال آباد تو ہیں مگر غم گساروں سے۔لوگ جمع ہیںمگر عیدکی خوشیاں بانٹنے کے لیے نہیں،موت کا سوگ منانے۔بہاو ل پورکے گاؤںرمضان بہینی میں لوگوں نے ایسی عید شاید کبھی نہ منائی ہو۔میں سوچتا ہوں اس بستی میں کوئی ہوگا جو دوسرے کو پرسادے؟جب گھر گھر سے جنازے اٹھیں تو کون کس کو کاندھے دے گا؟
کالم کے لیے سوچ کا سفر کسی اور سمت میں جاری تھا۔خیال تھا کہ عید کے تہذیبی پہلو پر کچھ لکھوں گا۔اس مٹتی ثقافت کی بات کروں گا جو مجھے نوسٹلجیا میں مبتلا رکھتی ہے۔عید کے ایک ٹی وی پروگرام میں مجھ سے سوال ہوا:آپ کو بچپن کی عید کے حوالے سے، سب سے زیادہ کیا یاد آتا ہے؟ میرا جواب تھا:میرا گھر۔وہ گھر جہاں والدین تھے۔جہاں بہن بھائی جمع ہوتے تھے۔جہاں رشتوں کی مہک تھی۔جہاں نئے کپڑوں اورنئے جوتوں کی بے پنا ہ خوشی تھی۔میرا ارادہ تھا کہ میں کالم میں اس دم توڑتی روایت کی بات کروں گا۔کالم میںکچھ موجودہ عید کا بیان ہوگا۔میں اس بات کا جائزہ لوں گا کہ تہذیبی ارتقا نے روایتی تہواروں کو کیسے متاثر کیا ہے۔ان حادثوں نے مگر خیال کے اس سفر کارخ بدل ڈالا۔
دہشت گردی تو وہ ظلم ہے جو انسانوں نے اپنی جانو ںپر کیا۔حادثوں میں بھی اگرچہ انسانی غلطی کا امکان موجودہو تاہے مگراکثر حادثات کی توجیہہ، عالمِ اسباب کی مدد سے ممکن نہیں ہو تی۔ہماری ما بعد الطبیعیات ہی ان کی تفہیم میں دست گیر ہو تی ہے۔پارہ چنار کا حادثہ بادی النظر میں فرقہ واریت کی دین ہے جس کا بیج ہم نے خود بویا اور بڑی محنت سے اسے تناور درخت بنا دیا۔کراچی میں بے گناہ پولیس اہل کار بظاہراس تعبیرِ دین کی نذر ہوئے جو حکومت کے دعووں کے برعکس، ابلاغ کے تمام ذرائع سے بیان ہوتی ہے ۔ اسے پھیلایا جاتا ہے اورکوئی اسے روکنے والا نہیں ہے۔
کوئٹہ کا حادثہ ،طاقت کے اس کھیل کا حصہ ہے جو اس خطے میں جاری ہے۔بھارت ہمارے درپے ہے ۔وہ ہماری بر بادی میں قومی مفاد تلاش کرتا ہے اور ہم اس کی بر بادی میں۔آئل ٹینکر کچھ قواعد وضوابط کے ساتھ تیل لاتے لے جاتے ہیں۔ٹائرزکی مدت ہوتی ہے،اس کے بعد انہیں بدل دینا چاہیے۔اس حادثے میں انسانی غلطی کا احتمال مو جود ہے۔مو ضع رمضان بہینی کے مکینوں کو مگر جائے حادثے تک کون لایا؟حادثہ اسی جگہ پر کیوں ہوا؟موت کے لیے ان گھرانوں کا انتخاب کس نے کیا؟راہگیر اسی وقت یہاں سے کیوں گزرے؟ان سوالات کے جواب طبیعیات نہیں، مابعد الطبیعیات کے پاس ہیں۔
حادثہ اگر انسانی غلطی کا نتیجہ ہو تو وہ اصلاحِ احوال کا تقاضا کرتا ہے۔وہ تدبیر کو بہتر بنانے کا درس دیتا ہے۔اس کی تلافی ممکن ہو تی ہے۔جیسے دہشت گردی۔یہ دین کی غلط تعبیر کا حاصل ہے یاریاست کی کمزوری کی۔دونوں کا مداواکیا جا سکتا ہے۔اس کے شواہد مو جود ہیں کہ کیسے اسباب کا تدارک کر کے دہشت گردی کو ختم یا کم کیا گیا ہے۔جس حادثے کی تعبیر عالمِ اسباب سے ممکن نہ ہو،اس کے لیے کسی ایسے مدد گار کی ضرورت ہو تی ہے جس کی جڑیں مابعد الطبیعیات میں ہوں جیسے مذہب۔ مذہب بتا تا ہے کہ موت کا حادثہ ایک ایسی زندگی کی یاد دلاتا ہے جو موت کے اس پار مو جوداور ہمارے انتظار میں ہے۔
انفرادی موت ایک اجتماعی موت کی تذکیر ہے۔ایک دن صور پھونکا جائے گا اور زندگی کا یہ عہد اپنے اختتام کو پہنچے گا۔پھر اس زمین پر زندگی نہیں، موت کاراج ہوگا۔ایک مدت کے بعد سب کو اٹھایا جا ئے گا۔وہ بھی جنہیں صور پھونکنے سے پہلے افرادی حیثیت میں موت نے اپنے آغوش میں لیا ہو گا۔اور وہ بھی جو اجتماعی صورت میں موت کا شکار بنے۔پھر سب کو حساب دینا ہو گا کہ انہوں نے اس زندگی میں کیا کیا۔حادثہ دراصل اس بات کی تذکیر ہے کہ موت کسی وقت آ سکتی ہے۔کس کے لیے یہ لمحہ کب آنا ہے،یہ صرف عالم کا پروردگار جا نتا ہے۔حادثہ متنبہ کرتا ہے کہ یہ کسی لمحے آپ کے دروازے پر دستک دے سکتی ہے۔عید سے ایک دن پہلے بھی اور ایک دن بعد بھی۔ انسان کوہر لحظہ اس کے لیے تیار رہنا چا ہیے۔حادثہ اس موت کی یاددہانی ہے جو یقینی ہے۔
میں جانتا ہوں کہ زندگی کا سفر کبھی نہیں رکتا۔موت مگر اسے متاثر ضرور کرتی ہے۔اپنے پیاروں کی میتوں کو کندھا دینا آسان نہیں ہو تا۔جگر پانی ہو جا تا ہے۔حادثاتی موت تو اور بھی تکلیف دہ ہوتی ہے۔کراچی، پارہ چنار، کوئٹہ، بہاول پور۔۔ہم شاید ان مقامات سے بظاہردور ہوں مگر دور کہاں ہیں۔میں اپنے سامنے ٹی وی سکرین پر جائے حادثہ کو دیکھ رہا ہوں۔کوئٹہ میں بلکتی ماں کی آہ وپکار کو میں سن سکتا ہوں۔یہ حادثات پورے ملک پر بیتے ہیں۔ہر گھر ان دکھوںکو محسوس کر رہا ہے۔ہم عید کی نماز پڑھیں گے۔نئے کپڑے بھی پہنیں گے۔سچ مگر یہی ہے کہ یہ عید ان حادثات کے زیرِ اثر گزرے گی۔
میری طرف سے سب کو عید مبارک کہ زندگی کو رواںدواں رہنا ہے یہاں تک کہ اسرافیل کو حکم ہو اور صور پھونک دیا جائے۔