صف بندی ہو چکی۔امکان یہی ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ آج عدالتِ عظمیٰ میں پیش کر دی جائے گی۔معرکہ آخری مرحلے میں داخل ہو چکا۔یہ مگر ابھی تک واضح نہیں کہ اس معرکے میں دوسرا فریق کون ہے؟
پہلا فریق تو معلوم ہے:شریف خاندان۔دوسرے کانام ابھی تک سامنے نہیں آیا۔عمران خان تو نہیں ہو سکتے۔اس کے تین اسباب ظاہرو باہر ہیں۔ایک یہ کہ پہلا فریق اس معرکے میں عمران خان کو اپنامدِ مقابل نہیں مانتا۔ان کے خیال میں وہ کٹھ پتلی ہیں۔دوسرا، یہ ماننا عقلاً محال ہے کہ جے آئی ٹی کے ارکان کا انتخاب عمران خان کی مرضی سے ہوا۔تفتیش کا جاری عمل ، جس پر پہلا فریق شکوک و شبہات کا اظہار کر رہا ہے،اس میں بھی عمران خان کا کوئی عمل دخل نہیں۔ تیسرا یہ کہ پہلا فریق اس معاملے کو اپنے خلاف سازش قرار دیتا ہے۔عمران خان تو کھلم کھلا حکومت کے مخالف ہیں۔ان کی مخالفت کوسازش نہیںکہاجا سکتا۔ یوں بھی کٹھ پتلی بے چاری کاکسی سازش سے کیا تعلق؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی پس ِ پردہ ہے۔وہی دوسرا فریق ہے۔وہ کون ہے؟
اس سے پہلے جو تصادم ہوئے، دوسرا فریق کبھی پسِ پردہ نہیں رہا۔ بالآخروہ منصہ شہود پر آ گیا۔ مثال کے طور پرچند نمائشی تبدیلیوں کے بعد ایوب خان خود سامنے آ گئے۔بھٹو صاحب کے خلاف جو کچھ ہوا، اس میں قومی اتحاد نے کٹھ پتلی کا کردار ادا کیا مگر اصل فریق 5جو لائی 1977ء کو سامنے آ گیا۔مشرف صاحب کا معاملہ تو سیدھا سادہ تھا۔نہ کوئی کٹھ پتلی نہ کوئی سازش،دونوں فریق آ منے سامنے تھے۔
اس بار قصہ یہ نہیں ہے۔بظاہرمعاملہ سادہ ہے۔سپریم کورٹ ، جے آئی ٹی اور تفتیش ۔اس کے بعد عدالت ِ عظمیٰ کا حکم۔سب عدالت کا حکم ماننے کے پابند ہیں۔اس سارے عمل پرسوالات مگر بہت ہیں۔یہ سولات سامنے ہیں مگر ابھی تک ان کے جواب سامنے نہیں آ سکے۔جے آئی ٹی کے اعترضات پر نوٹس لیا جا چکا۔شریف خاندان اور حکومت کے سوالات تادمِ تحریر جواب طلب ہیں۔ مثال کے طورپر قطری شہزادے کے معاملے کو جے آئی ٹی نے انا کا مسئلہ کیوں بنایا؟سپریم کورٹ نے اسے یہ ذمہ داری سونپی ہے کہ وہ قطری شہزادے کے خط کی قدر و قیمت جانے۔اس کے لیے وہ طریقہ کار کے انتخاب میں آزاد ہے۔اگر جے آئی ٹی کے لوگ ان چیزوں کی تلاش میں دوبئی جا سکتے ہیں جن کے بارے میں تاثر ہے کہ شریف خاندان کے خلاف ہو سکتے ہیں تو وہ ان ثبوتوں کے حصول میں گرم جوش کیوں نہیں جو ان کے حق میں جاتے ہیں؟
آج امکان یہی ہے کہ یہ رپورٹ سپریم کورٹ کے سامنے پیش کر دی جا ئے گی۔کیا سپریم کورٹ اس بارے میں جے آئی ٹی سے استفسار کرے گی کہ اس نے قطری شہزادے سے بات کیوں نہیں کی؟کیا سپریم کورٹ شہزادے کے ان جوابات کو قابلِ اطمینان تصور کرے گی جو جے آئی ٹی کو بھیجے گئے؟ کیا شریف خاندان کو ان کے سوالات کے جواب ملیں گے؟ایس ای سی پی کے چیئرمین کے خلاف ایف آئی اے کی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کر دی گئی ہے۔یہ اچھی بات ہے۔اس سارے معاملے میں نزاکت یہ ہے کہ اگر سازشی عناصر کا تعین نہیں ہو تا توعدالتِ عظمیٰ ایک فریق کے طور پر سامنے آتی جائے گی۔یہ بات ہمارے نظامِ عدل کے لیے کسی طرح نیک شگون نہیں۔
سابقہ ادوار میں ،اقتدار کے اس کھیل میں جو تصادم ہوئے ، ان میں فوج بطور فریق سامنے آئی۔اس سے ظاہر ہے کہ اس قومی ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچا۔اسی لیے محبِ وطن حلقے ہمیشہ فوج کے سیاسی کردار کی مخالفت کرتے آئے ہیں۔یہ کسی طرح قومی مفاد میں نہیں کہ فوج ایک سیاسی جماعت کا کردار اپنا لے۔جب وہ اقتدار کی سیاست میں فریق بنتی ہے تو پھر وہ ایک سیاسی جماعت ہوتی ہے۔1977 ء میں فوج پیپلزپارٹی کے مقابلے میں ایک سیاسی جماعت تھی اور 1999ء میں مسلم لیگ کے خلاف۔صورتِ حال یہ ہوگئی کہ مشرف عہد میں فوجی جوانوں کو اس سے منع کیا گیا کہ وہ وردی میں عوامی مقامات پر جائیں۔یہ واقعہ ایک ایسے معاشرے میں ہواجہاں فوج سے محبت لوگوں کی گھٹی میں پڑی ہے۔
یہ المیہ ہوگا اگر عدلیہ جیسا ادارہ بھی اسی صورتِ حال کا شکار ہوجائے۔یقیناً متاثرہ فریق عدلیہ کی 'عدالت‘ پر سوالات اٹھاتا ہے لیکن اگر یہ عمل شفاف ہو تو اس کے سوالات کی عوام میں پزیرائی نہیں ہو تی۔بھٹو صاحب کے خلاف عدلیہ کا فیصلہ قبولیت ِ عامہ حاصل نہ کر سکا۔اس کی وجوہات ظاہر وباہر ہیں۔میرا خیال ہے آج ایک بار پھر عدلیہ کو یہ امتحان درپیش ہے۔اسے بھی خود کو فریق بننے سے بچا نا ہے۔بصورتِ دیگر سازش کا بیانیہ پھیلتا چلا جا ئے گا۔
عدالت کامعاملہ،ریاستی اداروں میں سب سے نازک ہے۔ایک جج کے قلم سے انسانوں کی زندگی اور موت کا فیصلہ ہوتا ہے۔ان کی عزت و ناموس کا تعین ہو تا ہے۔ہماری مذہبی روایت تو یہ کہتی ہے کہ زندگی اور موت،عزت اور ذلت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ریاست اور سماج کو زندہ رکھنے کے لیے خود اللہ تعالیٰ کی کتاب فیصلے کا حق انسانوں کوتفویض کر تی ہے۔ تاہم تمام فقیہہ اورماہرین قانون اس پر متفق ہیں کہ اس حق کے استعمال میں غیر معمولی احتیاط کی ضرورت ہو تی ہے۔اسی لیے یہ اصول وضع کیاگیا کہ شک کا فائدہ بھی ملزم کو دیا جائے۔یا یہ کہ اگر ایک فی صد امکان بھی ملزم کو بے گناہ ثابت کر تاہو تو سزا سے گریز کیا جا ئے۔
عدالت کو اب یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ اس معرکے میں دوسرا فریق نہیں ہے۔عدالتیں فریق ہو نہیں سکتیں۔اصل مقدمے میں عمران خان فریق ہیں یا سراج الحق صاحب۔اب یہ دونوں پس منظر میں جا چکے۔جیسے جیسے جے آئی ٹی کا معاملہ گے بڑھا ہے،دوسرے فریق کی شناخت کا معاملہ مشتبہ ہوتا گیا ہے۔آج کے بعد معاملہ براہ راست عدالت سے ہوگا۔ گویا جے آئی ٹی بھی قصہ پارینہ بن جا ئے گی۔اب یہ طے ہو گا کہ عدالت اس سارے معاملے کو کیسے دیکھتی ہے۔وہ فریق کے طور پر سامنے آتی ہے یااپنی 'عدالت‘ کی حفاظت کر تی ہے۔
ہم عدالت کو فریق نہیں مان سکتے کہ اس کے بعد ریاست کا وجود ہی بے معنی ہو جا ئے گا۔فوج فریق بنتی ہے تو بھی یہی ہوتا ہے۔میراحسنِ ظن ہے عدالتِ عظمیٰ کے معزز جج حضرات کو اپنی نازک حیثیت کا پورا احساس ہے۔انہیں معلوم ہے کہ جج جذبات میں نہیں آتے۔وہ خود کو اس سے بلند رکھتے ہیں کہ لوگ ان کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟میرا خیال ہے کہ انہیں اس بات کا بھی اندازہ ہے کہ جب عدالتی فیصلوں میں ناولوں سے اکتسابِ فیض کیا جا تا اورگاڈ فادر جیسے افسانوی کرداروں کا انطباق حقیقی کرداروں پر کیا جا تا ہے تو معاشرے میں جج صاحبان کے بارے میں ایک تاثر پیدا ہو تا ہے جو عدالتی ساکھ کو متاثر کرسکتا ہے۔
اگر عدالت فریق نہیں ہے تو پھر کون ہے؟ اس کا جواب پہلے فریق پر قرض ہے۔مریم نواز صاحبہ نے متنبہ کیا کہ نوازشریف صاحب کو دیوار سے نہ لگایا جا ئے کہ وہ حقائق بتانے پر مجبور ہو جا ئیں۔سوال یہ ہے کہ کیا ابھی دیوار کے ساتھ لگنے میں کوئی کسر ہے؟ کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ وہ دوسرے فریق کا نام لیں؟کیا پاکستان کے عوام کا یہ حق نہیں ہے کہ انہیں بروقت سچ بتا یا جائے؟اس سے پہلے کہ 'غدار کون ؟‘ جیسی ایک اورکتاب ہمارے سیاسی لٹریچر کا حصہ بنے، نوازشریف صاحب کو اپنا سچ بنتا دینا چاہیے۔پسِ مرگ واویلا کس کام کا؟اب لازم ہے کہ دوسرے فریق کا بھی تعین ہو جا ئے۔