تصادم کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔اس فضا میں نوازشر یف صاحب نے براستہ جی ٹی روڈلاہور جانے کا فیصلہ کیا ہے۔میں دعاگو ہوں کہ مسافر خیریت کے ساتھ اپنی منزل تک پہنچے کہ اسی میں وطنِ عزیز کی خیریت ہے۔
اس ملک میں انتہا پسندی صرف مذہبی لوگوں نے نہیں پھیلائی۔ اس کے فروغ میںسیاسی جماعتیں بھی ،انتہا پسندمذہبی جماعتوں کے ساتھ شریک ہیں۔یہ کارِ خیر صرف کسی فرقہ پرست خطیب یا ذاکر کے جرائم ہی میں درج نہیں،ٹی وی پروگراموں کے میزبانوں نے بھی اپنا نامہ اعمال بائیں ہاتھ میں پکڑ رکھا ہے۔انتہا پسندی صرف ایک دہشت گردتنظیم کے لٹریچرہی کی دَین نہیں ہے،اخبارات میں چھپنے والے بہت سے کالموں کا حاصل بھی ہے۔ ہم سب شکار بھی ہیں اور شکاری بھی۔ظالم بھی ہیں اورمظلوم بھی۔
ن لیگ اور تحریکِ انصاف نے اپنی ترجمانی کے لیے ان لوگوں کا انتخاب کیا جو سب سے زیادہ زبان دراز ہیں۔جن میں پگڑی اچھالنے کی صلاحیت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔جن کی آواز بلندتر اور جن کا لہجہ تلخ تر ہے۔دہن دریدہ ہو نا جن کی پہچان ہے۔دلچسپ بات ہے کہ یہ سب وہ ہیں جن کی جماعتیں تبدیل ہوتی رہی ہیں۔جن کی زندگی کسی نظریے یاآدرش کے ساتھ وابستگی سے خالی ہے۔آج اِس کی ترجمانی،کل اُس کی ترجمانی۔
اس باب میں دوسری رائے نہیں کہ دورِجدید میں اس ہیجان خیز سیاست کا آغاز تحریکِ انصاف نے کیا۔سیاسی مخالفین کو وہ نام دیے گئے جو اشتعال انگیزتھے۔ عمران خان بنفسِ نفیس اس میدان میں اترے اور خود کومردِ میدان ثابت کیا۔کرکٹ کی طرح، اس کھیل میں بھی ان کا ثانی تلاش کر نا مشکل ہے۔ن لیگ جواباً اس کھیل کا حصہ بنی اور پھر پوری کوشش کی کہ اس میدان کی فاتح قرار پائے۔میں نے ایک بار ن لیگ کی ایک اہم شخصیت کی اس جانب توجہ دلائی ۔ان کا ایک جواب تھا کہ ہمیں مجبوراً یہ حکمتِ عملی اپنا نا پڑی۔ہمارا حامی جو عامی ہے،وہ اس طرح کے جوابی لہجے کا مطالبہ کرتا ہے۔ہمیں اسے بھی ساتھ لے کر چلنا ہے۔دوسری دلیل یہ تھی کہ ن لیگ ایک سیاسی پارٹی ہے ،کوئی اصلاحی ودعوتی جماعت نہیں۔اس برہانِ قاطع کے بعد،میرا انتخاب ایک ہی ہو سکتا تھا: خاموشی۔
پانامالیکس کے پس منظر میں جو کچھ ہوا،اس نے سیاسی ماحول کو مزیدمکدر کیا۔جس ہیجانی سیاست کی بنیاد عمران خان صاحب نے رکھی تھی،اس نے پورے سماج کا احاطہ کر لیاہے۔جو زبان خان صاحب اور سوشل میڈیا پر متحرک اُن کے''ٹائیگرز‘‘ نے اختیار کی،وہی دوسروں نے بھی اپنا لی ہے۔ان سیاسی جماعتوں کو اندازہ نہیں کہ ا نہوں نے کس طرح معاشرے میں انتہا پسندی کا زہر گھولا ہے۔سنیچر کی شام ، ایک ٹی وی میزبان نے اپنے پروگرام میں بتایا کہ ایک سکول میں بچوں کے مابین پاناما لیکس پر مباحثہ ہوا۔اس مباحثے کا انجام یہ ہوا کہ ایک بچے نے دوسرے کا سر پھاڑ دیا۔
میں پہلے دن سے متوجہ کر رہا تھا کہ ہیجان کی سیاست کا کیا سماجی نتیجہ نکل سکتا ہے۔یہ واقعہ بتا رہا ہے نتائج نکلنا شروع ہو گئے ہیں۔اگلے دس ماہ میں، خاکم بدہن ، یہ معاشرہ مزید تصادم کی طرف بڑھے گا۔نوازشریف اب حکومتی ایوانوں میں قید نہیں رہے۔وہ عوام میں نکلیں گے اوراپنا مقدمہ پیش کریں گے۔یہ امکان مو جود ہے کہ اس نفرت انگیز فضا میں عوام، عوام سے متصادم ہوں گے۔آج عمران خان کو تشویش ہے کہ نوازشریف کاایک کاروان کے ساتھ جی ٹی روڈ کا سفر، انتشارکو جنم دے گا۔کاش وہ اس بات پر اُس وقت غور فرماتے جب دھرنا دینے نکلے تھے۔ان کی تما م تر کوششوں کے با وجود،معاملہ 2018 ء کے انتخابات تک آ پہنچا ہے۔اگر وہ ہیجان کی سیاست نہ کرتے تو بھی یہ قوم اِسی جگہ آتی مگر زیادہ پُر امید ہو کر، تصادم کے کسی امکان کے بغیر۔پھر عمران خان کو اس تشویش کا اظہار نہ کرنا پڑتا جس کا وہ آج کر رہے ہیں۔اب معاملات کو سنبھالنا شاید اتنا آسان نہیں رہا۔
ایک نظر ان ٹی وی پروگراموں پر بھی ڈالیے۔میڈیا یقیناً ایک تجارتی ادارہ ہے مگر ہمارے ہاں یہ اب ہیجان ا ور فروغِ نفرت کے کاروبار کے لیے خاص ہو گیا ہے۔کالم نگاروں نے بھی نفرت اور ہیجان کو پھیلانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ان سب کی مشترکہ کاوشوں کے نتیجہ نکل رہا ہے۔ٹی وی پروگراموں اور اخباری کالموں نے لوگوں کو ذہنی مریض بنا دیا ہے۔ سیاست میں یہ خوبی ہے کہ وہ اختلافات کو کم کرتی اور اختلافات کے ساتھ ایک ساتھ بیٹھنے کا سلیقہ سکھاتی ہے۔ہمارے اہلِ سیاست نے اہلِ مذہب کی طرح سیاست کی فضا کو بھی آلودہ کر دیا ہے۔اب مذہبی ہی نہیں، سیاسی اختلافات بھی تصادم کو ابھار رہے ہیں۔
مجھ جیسے لوگ جب اصرار کرتے ہیں کہ فوج اور عدلیہ جیسے اداروں کو اقتدار کی سیاسی کشمکش سے بلند تر اور الگ رہنا چاہیے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ایسے ادارے ریاست پر عوام کے اعتماد کو قائم رکھتے ہیں۔جب معاشرہ ان اداروں کے بارے میںمنقسم ہو جائے اوران کے بارے میں سوالات اٹھنے لگیں توپھر ریاست کمزور ہو نے لگتی ہے۔اب یہ واقعہ ہو چکا۔ معاشرہ ان اداروں کے بارے میں تقسیم ہو چکا۔یہ صحیح یا غلط کی بحث نہیں، ایک امرِ واقعہ کا بیان ہے۔جب ہم کہتے ہیں کہ بستی میں سیلاب آگیا توہم اس کی تائید نہیں کرتے کہ کوئی اچھا کام ہو اہے۔ہم ایک واقعے کو بیان کرتے ہیں تاکہ لوگ خبر دار ہو جائیں اوراس سے بچنے کے لیے راستہ نکالیں۔
آج ہماری ریاست اور سماج کوایک سیلاب کا سامنا ہے۔یہ سیاسی انتہا پسندی کا سیلاب ہے۔چالیس سال سے ہم مذہبی انتہا پسندی کے نتائج بھگت رہے ہیں۔اب اس کا ظہور میدان ِ سیاست میں ہو رہا ہے۔جس ہیجان کی چالیس سال پرورش کی گئی، اب وہ نتائج کے دور میں داخل ہو گئی ہے۔علما کی حیثیت ایک سماجی ادارے کی ہے۔علما جب تک دعوت واصلاح سے وابستہ رہے ،معاشرے میں مذہبی تصادم پیدا نہیں ہوا۔جب علما نے سیاست میں قدم رکھا تو مذہب نے انتہا پسندی کی راہ پکڑلی۔اسی طرح جب سے سیاست دانوںنے سیاست کومروجہ اسلوب سے ہٹا کر نفرت اور ہیجان کی راہ پر ڈالاہے، ریاست کے معاملات میں بھی انتہاپسندی در آئی ہے۔آج مذہبی انتہا پسندی ہے اور سیاسی بھی۔اس کے فروغ میں سب نے حصہ ڈالا ہے،کسی نے کم ،کسی نے زیادہ۔علما، سیاست دان، ٹی وی اینکر،کالم نگار۔نتائج کوئی ایک طبقہ نہیں، سارا سماج بھگت رہا ہے۔
تشویش کی بات یہ ہے کہ اس وقت کوئی ایک ایسا سیاسی راہنما نہیں جو فریقین میں خلیج کو کم کر سکے۔مو لانا فضل الرحمٰن میں یہ صلاحیت تھی لیکن وہ عمران خان سے بات نہیں کر سکتے۔سراج الحق صاحب ہو سکتے تھے لیکن وہ نوازشریف صاحب سے بات کرنے کے قابل نہیں رہے۔ریاست کے جو ادارے یہ کام کر سکتے تھے،ان کے بارے میں یہ تاثر پھیل چکا کہ وہ خود فریق ہیں۔سب سے بڑھ کر یہ کہ کوئی مفاہمت پر آمادہ نہیں۔ عمران خان کاا علان ہے کہ وہ سب کا پیچھا کریں گے۔اب جن کا پیچھا کیا جائے گا ،ظاہر ہے کہ وہ بھی اپنا دفاع کریں گے کہ بقا جبلت ہے اور اس سے کسی کو فرار نہیں۔کبھی اہلِ صحافت میں وہ لوگ ہوتے تھے جو ایسے موقعوں پر قوم کو تصادم سے بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کرتے تھے یاپھر ریاض الخطیب جیسے دوست ممالک کے نمائندے۔
اب کہیں کوئی امید کی کرن نہیں۔تصادم کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔اس فضا میں نوازشریف صاحب نے ایک سفر کا ارادہ کیا ہے۔میں دعا گو ہوں کہ مسافر خیرت سے اپنی منزل تک پہنچے کہ اس وقت مسافر کی خیریت ہی میں پاکستان کی خیریت ہے۔