"KNC" (space) message & send to 7575

شہباز شریف صاحب کا غصہ

جناب شہباز شریف کی شعلہ بیانی نے تو مجھے حیران کر دیا۔
یوں گمان ہوا جیسے دنیاوی ترغیبات اور اقتدار و دولت کی حرص سے بے نیاز اللہ کا ایک ولی کسی خانقاہ سے خطاب کر رہا ہے اور ان لوگوں پر کفِ افسوس مل رہا ہے جو محض وزارت اور ایک گاڑی کی خاطر معصوم حکمرانوں کو غلط مشورے دیتے ہیں۔ خطیب کو اقتدار سے غرض ہے نہ دولت سے۔ ایک کٹیا میں رہنے والا، دنیاوی آلائشوں سے پاک آدمی، اقتدار کی خواہش میں لتھڑے دنیا داروں سے مخاطب ہے۔ جسے خلقِ خدا نے منت کرکے گوشۂ خلوت سے اُٹھایا اور وزارتِ اعلیٰ کے منصب پر بٹھا دیا ہے۔
شریف خاندان سمیت ہر سیاست دان اقتدار کی سیاست کرتا ہے۔ مقاصد ادنیٰ و اعلیٰ ہو سکتے ہیں مگر یہ دعویٰ قابلِ قبول نہیں ہو سکتا کہ وہ اقتدار کی خواہش سے بے نیاز اور فی سبیل اللہ سیاست کر رہا ہے۔ مقاصد کا تعین بھی اسلوبِ سیاست سے ہوتا ہے۔ اگر آپ اقتدار کے لیے سب کچھ کر گزرنے پر تیار ہو جائیں تو پھر تسلیم کرنا مشکل ہے کہ محض رضائے الٰہی کا حصول آپ کو سیاست کی کانٹوں بھری وادی میں لے آیا ہے۔ یہ شریف خاندان ہو یا زیرِ تنقید مشیر اور وزیر، سب اقتدار کے کھیل کے کھلاڑی ہیں۔ فٹ بال کا ایک کھلاڑی دوسرے کھلاڑی کو یہ طعنہ نہیں دے سکتا کہ 'تم تو فٹ بال کے کھلاڑی ہو‘۔
یہ مقدمہ بھی آج تک میری سمجھ میں نہیں آ سکا کہ اصل حکمران بیچارے تو بہت معصوم اور سادہ طبیعت ہوتے ہیں۔ یہ مشیر ہیں‘ جو غلط مشورے دے کر انہیں بے راہ کرتے ہیں۔ سیدھے سادے، اللہ اللہ کرنے والے بادشاہ اور حکمران تو بڑی سادگی اور بے لوثی کے ساتھ خدمتِ خلق کرنا چاہتے ہیں‘ مگر افسوس ان مشیروں پر جو غلط مشورے دیتے اور یوں ان کو بد راہ کرتے ہیں۔
مشیروں کا انتخاب ہر حکمران خود کرتا ہے۔ یہ اس کی بصیرت کا پہلا امتحان ہوتا ہے۔ اگر وہ اہل، دانا اور مخلص لوگوں کے بجائے نااہل، کم عقل اور خود غرض لوگوں کا انتخاب کرتا ہے تو گویا زبانِ حال سے اپنی نااہلی پر مہرِ تصدیق ثبت کرتا ہے۔ جو مشیروں کا درست انتخاب نہیں کر سکتا، وہ امورِ مملکت کیسے چلا سکتا ہے؟ پھر جو آدمی اپنی آنکھیں اور دماغ بند رکھتا اور مشیروں کی نظروں سے دیکھتا اور ان کے دماغ سے سوچتا ہے، کیا وہ حکمران بننے کے قابل ہے؟ اکبر ہندوستان کی تاریخ کا سب سے کامیاب حکمران تھا۔ ایک لفظ پڑھنا لکھنا نہیں جانتا تھا مگر اس نے جن وزیروں اور مشیروں کا انتخاب کیا، وہ اپنی دانش اور فہمِ سیاست میں یکتا تھے۔ اس انتخاب نے اسے مغلِ اعظم بنا دیا۔
شہباز شریف صاحب نے جن مشیروں اور وزیروں کا ذکر کیا، سب جانتے ہیں کہ وہ کس کا انتخاب تھے۔ وہ کس کی ہر بات پر عمل کرتے تھے۔ کہاں سے ہدایات لیتے تھے۔ شہباز شریف صاحب کا اصل غصہ 'اُس گھر‘ پر ہے۔ وہ ان کا نام لینے سے گریز کرتے ہیں اور نزلہ چونکہ عضوِ ضعیف پر گرتا ہے، اس لیے ان کی شعلہ بیانی کا ہدف مشیر اور وزیر بنتے ہیں۔
مجھے حکمرانوں کی یہ معصومیت بھی کبھی سمجھ نہیں آئی کہ حکومت کے ہر اچھے کام کا کریڈٹ وہ خود لیتے ہیں لیکن ناکامیوں یا کمزوریوں کا بوجھ وزیروں اور مشیروں پر ڈال دیتے ہیں۔ ملک میں اگر دہشت گردی کم ہوئی تو کریڈٹ شریف خاندان کا، لوڈ شیڈنگ ختم ہونے کو ہے تو کریڈٹ شریف خاندان کا۔ اب عدالت اور فوج سے محاذ آرائی ہے تو اس کی ذمہ داری وزیروں اور مشیروں پر۔ اگر کریڈٹ میں کوئی وزیر اور مشیر شریک نہیں تو ڈس کریڈٹ کا ذمہ دار کیسے ہے؟ میرا خیال ہے عوامی شعور کے بارے میں شہباز شریف جیسے تجربہ کار سیاست دان کی رائے اتنی پست نہیں ہونی چاہیے کہ وہ ان باتوں کو نہیں سمجھتا۔
معاملہ بہت سادہ ہے۔ یہ دو آرا کا اختلاف ہے۔ ایک رائے نواز شریف صاحب کی ہے اور دوسری شہباز شریف صاحب کی۔ نواز شریف صاحب سمجھتے ہیں کہ اقتدار کے مراکز عدم توازن کا شکار ہیں۔ طاقت کا پلڑا اسٹیبلشمنٹ کی طرف جھکتا ہے۔ وہ اسے عوامی نمائندے کی طرف جھکانا چاہتے ہیں۔ اس سے دوسرے اداروں کے ساتھ مخاصمت جنم لیتی ہے‘ جو ایک مرحلے پر تصادم میں بدل جا تی ہے۔ آج نواز شریف صاحب کا خیال ہے کہ اس معاملے کو ہمیشہ کے لیے طے ہو جانا چاہیے۔ اس کھیل کے دوسرے فریق کی رائے یہ معلوم ہوتی ہے کہ نواز شریف کا قصہ بھی اب ہمیشہ کے لیے طے ہو جائے۔ ان پر سیاست کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کر دیے جائیں۔
دوسرا نقطہ نظر شہباز شریف صاحب کا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اقتدار کے اس کھیل میں آپ کو جتنا حصہ ملتا ہے، اس پر اکتفا کریں۔ دوسرا فریق زیادہ طاقت ور ہے۔ اس کے ساتھ تصادم میں خسارہ ہے۔ اس لیے ایسی صورت حال پیدا نہیں ہونی چاہیے جو ہمیں ماضی کی طرح نقصان پہنچائے۔ اس باب میں چوہدری نثار علی صاحب بھی ان کے ہم نوا ہیں۔ یہ اختلاف آج سے نہیں، برسوں سے ہے۔ نواز شریف صاحب نے جب جنرل مشرف کو ہٹانے کا فیصلہ کیا تھا‘ تو شہباز شریف صاحب کو شریکِ مشاورت نہیں کیا۔ وہ جانتے تھے کہ ان کا مشورہ کیا ہو گا۔ اُس وقت مشیر اور وزیر دوسرے تھے۔
نون لیگ میں بھی یہ دونوں آرا پائی جاتی ہیں۔ یہ فطری ہے کہ پہلی رائے رکھنے والے نواز شریف اور دوسری رائے رکھنے والے شہباز شریف کے قریب ہیں۔ یہ بھی فطری ہے کہ نواز شریف صاحب انہی سے مشورہ کریں گے جنہیں وہ خود سے قریب تر سمجھتے ہیں۔ نواز شریف صاحب کا موقف کسی مشورے کا نتیجہ نہیں، ان کے برسوں کے تجربے کا حاصل ہے۔ ان کا یہ موقف نیا ہے‘ نہ طرزِ سیاست۔ وہ اب اس نتیجے تک پہنچ چکے کہ وہ جتنی مفاہمت کر لیں، دوسرا فریق انہیں معاف کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہے۔ یہ معرکہ انہیں ہر صورت لڑنا ہے، اس لیے بہتر یہ ہے کہ بہادری سے لڑا جائے۔
شہباز شریف صاحب کا کہنا یہ ہے کہ اب بھی بات بن سکتی ہے اگر بڑے میاں صاحب اپنے رویے میں لچک پیدا کر لیں۔ نواز شریف صاحب کے نزدیک اس کا وقت گزر چکا۔ انہیں گاڈ فادر قرار دیا جا چکا۔ اعلیٰ ترین عدالت کا فیصلہ ان کے خلاف آ چکا۔ فریقِ ثانی جس انتہا تک جا سکتا تھا، جا چکا۔ اب مفاہمت ہو بھی جائے تو ان کے کس کام کی؟ 
شہباز شریف صاحب کی بے شمار خوبیاں ہیں۔ بطور منتظم انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ برادرم ذوالفقار چیمہ جیسے ثقہ لوگ اگر ان کی دیانت کی چشمِ دید گواہی دیں تو مان لینا چاہیے کہ وہ ایک دیانت دار آدمی ہیں۔ پنجاب ہر لحاظ سے دوسرے صوبوں سے بہتر ہے۔ اگر آج 2018ء کے انتخابات میں ن لیگ کی فتح کی پیش گوئی کی جاتی ہے‘ تو یقیناً اس میں بڑا دخل بطور وزیر اعلیٰ ان کی کارکردگی کا ہے۔ باایںہمہ، بطور لیڈر، ابھی تک ان کے جوہر سامنے نہیں آئے۔ نواز شریف صاحب کی موجودگی میں اس کا کوئی امکان نہیں کہ انہیں لیڈر مان لیا جائے۔ ان کی مجبوری ہے کہ وہ بھی نواز شریف ہی کو لیڈر مانیں۔ تاہم انہیں اندیشہ ہے کہ وہ ن لیگ کو تصادم کی طرف لے جائیں گے اور اقتدار میں آج جتنا حصہ میسر ہے، وہ اس سے بھی محروم ہو جائیں گے۔ 
یہ دو نقطہ ہائے نظر کا اختلاف ہے۔ اس میں کسی مشیر کا دخل ہے نہ وزیر کا۔ ن لیگ میں بھی ایک فطری تقسیم ہے۔ سرِ دست پارٹی کی قیادت پر نواز شریف صاحب کی گرفت مضبوط ہے۔ شہباز شریف صاحب کی رائے کو قبولیتِ عامہ حاصل نہیں۔ ان کا تیز و تند خطاب اسی بے بسی کا اظہار ہے۔ ان کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ بڑے میاں صاحب کو قائل کریں، مشیروں کو طعنہ نہ دیں۔ ویسے بھی وزیروں مشیروں کو گاڑی وزارت کا طعنہ وہ دے جو خود اس سے بے نیاز ہو۔ سیدنا مسیح ؑ کے الفاظ میں، پہلا پتھر وہ مارے جس نے خود یہ گناہ نہ کیا ہو۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں