"KNC" (space) message & send to 7575

نواز شریف کے مخالفین

کوئی چاہے یا نہ چاہے، آج سیاست کا محور نواز شریف ہیں۔ ان کے حامی ہیں یا پھر مخالف۔ ملک میں کوئی تیسرا گروہ نہیں پایا جاتا۔
نواز شریف صاحب کے مخالفین اپنے نقطۂ نظر کے اعتبار سے تین حصوں میں تقسیم کیے جا سکتے ہیں۔ ایک وہ جن کا خیال ہے کہ سیاست کو اُن کے وجود سے پاک کر دینا چاہیے۔ اس مقصدکے لیے اخلاق، آئین، ضابطہ، قانون، سب بے معنی ہیں۔ سیاست کو ان کے اثرات سے پاک کرنے کے لیے ڈنڈے کا استعمال کرنا پڑے تو کیا جائے۔ بس اتنی احتیاط ہو کہ ڈنڈا مخمل میں لپٹا ہوا ہو۔ ان سے اور ان کی باقیات سے تمام باتیں منوائی جائیں لیکن بظاہر آئین کا بھرم قائم رکھا جائے۔ 
اس گروہ کا خیال ہے کہ اگر نواز شریف کو مذہب کا باغی ثابت کرنے سے بات بنتی ہے تو اس حربے کو آزمانے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ اگر انہیں پاکستان کا غدار اور بھارتی ایجنٹ قرار دینا پڑے تو یہ پروپیگنڈا بھی کیا جا سکتا ہے۔ کرپٹ تو خیر انہیں عدالت نے ثابت کر ہی دیا۔ یہ نقطۂ نظر بعض ریاستی اداروں میں موجود ہے اور میڈیا میں بھی۔ سیاسی جماعتوں میں ہے اور مذہبی حلقوں میں بھی۔ کوئی اس شدت کو سمجھنا چاہے تو نواز شریف کی نظرثانی اپیل پر عدالت عظمیٰ کا تفصیلی فیصلہ پڑھ لے۔ 
اس گروہ سے مکالمہ نہیں ہو سکتا۔ مکالمے کے لیے استدلال کو حاکم ماننا پڑتا ہے۔ یہ موقف دلیل سے بے نیاز ہے۔ یہ منطق و استدلال کے چکر میں نہیں پڑنا چاہتا۔ نفرت ہے اور اپنی آخری حدوں کو چھوتی ہوئی۔ نفرت اور محبت دونوں جب شدید ہو جائیں تو انہیں مذہب، اخلاق اور قانون کوئی دائرہ گوارا نہیں ہوتا۔ یہ گروہ اس بات پر داد کا مستحق ہے کہ وہ جمہوریت، آئین جیسے تکلفات میں نہیں پڑتا۔ اپنی بات دو ٹوک لفظوں میں کہہ دیتا ہے۔
دوسرا گروہ آئین جیسے تکلفات کو پوری طرح تک ترک نہیں کرتا۔ تسلسل سے یہ بات دھراتا رہتا ہے کہ سیاست اہلِ سیاست ہی کو زیبا ہے۔ امورِ مملکت چلانے کہ ذمہ داری فوج کو نہیں سونپی جا سکتی۔ ملک کو قانون کی ضرورت ہے وغیرہ وغیرہ۔ کسی حد تک خود کو جمہوری روایات سے بھی وابستہ رکھنا چاہتا ہے۔ تاہم اپنے بات کی تان یہاں پر توڑتا ہے کہ اہلِ سیاست پوری طرح ناقابلِ بھروسہ ہیں۔ بین السطور یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ فوج ہی ملک کی نجات دہندہ ہو سکتی ہے۔ اس گروہ سے مکالمہ اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
تیسرا گروہ وہ ہے جو جمہوریت اور آئین سے حقیقی وابستگی رکھتا ہے۔ وہ فوجی حکومت سمیت کسی غیر جمہوری حل کو قبول نہیں کرتا۔ وہ ٹیکنوکریٹس کی حکومت کے تصور کو غیر آئینی ہونے کی بنا پر لغو سمجھتا ہے۔ وہ سنجیدگی سے یہ چاہتا ہے کہ حاکموں کے انتخاب کا حق عوام ہی کو ملنا چاہیے۔ دوسری طرف وہ نواز شریف کو اس طبقۂ اشرافیہ کا ایک نمائندہ سمجھتا ہے جو اس ملک کے مسائل کا اصل ذمہ دار ہے۔ اس گروہ کا خیال ہے کہ یہ جاگیردار اور سرمایہ دار ہیں جنہوں نے اپنے گروہی مفادات کی آبیاری کی اور اس کا نتیجہ عوام کی بے بسی اور غربت کی صورت میں سامنے آیا۔
اس گروہ کو موجودہ پیپلز پارٹی اور تحریکِ انصاف سے بھی کوئی دلچسپی نہیں۔ وہ ان جماعتوں کو بھی اسی اشرفیہ کا نمائندہ سمجھتا ہے۔ وہ نواز شریف سمیت سب کو ایک ہی گروہ کے نمائندے قرار دیتا ہے۔ یہ طبقہ جمہوریت چاہتا ہے مگر نواز شریف کے بغیر۔ یہ آئین کو مانتا ہے۔ یہ جمہوری عمل پر یقین رکھتا ہے۔ یہ کسی طور فوج کے سیاسی کردار کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔
تاہم اس گروہ کا ایک مخمصہ ہے۔ وہ جانتا ہے کہ آئین کی بالادستی اگر باقی ہے تو نواز شریف کو سیاسی عمل سے باہر نہیں رکھا جا سکتا۔ اس کا خیال ہے کہ اگر انتخابات ہوتے ہیں تو اس بات کا پورا امکان ہے کہ نواز شریف صاحب کی جماعت جیت جائے۔ یہ بات اِس کو پسند نہیں۔ مخمصہ یہ ہے کہ آئین اور جمہوری روایات کی پاس داری کرتے ہوئے نواز شریف سے نجات ممکن نہیں اور اس کا کوئی آئینی حل اسے دکھائی نہیں دیتا۔ یہ وہ گروہ ہے جس کے ساتھ مکالمہ ممکن ہے۔ اس کے ہاں دلیل کے لیے جگہ ہے اور پھر یہ کہ نواز شریف کے ساتھ اس گروہ کی نفرت شاید وہاں تک نہیں پہنچی کہ ہر قید سے بے نیاز ہو جائے۔
اس تیسرے گروہ کا مقدمہ بے بنیاد نہیں۔ اس میں اخلاص بھی ہے۔ 1999ء تک نواز شریف صاحب نے جو سیاست کی، اس میں اس موقف کی تائید میں بہت سے دلائل موجود ہیں۔ اب بھی یہ کہنا مشکل ہو گا کہ انہوں نے اس سیاست کو ترک کر دیا ہے۔ تاہم میرے نزدیک اس گروہ کو تین باتوں کا لحاظ کر نا ہو گا۔ ایک کہ نواز شریف صاحب کے ہاں ایک شخصی ارتقا ہے جو بہتری کی طرف ہے۔ انہیں یہ بھی اندازہ ہو چکا کہ ماضی میں ان سے کیا غلطیاں ہوئیں۔ نواز شریف پر آج کوئی حکم لگانے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں گزرے کل نہیں، آج کے تناظر میں دیکھا جائے۔
دوسرا یہ کہ وہ اس سارے عمل پر ایک ناقدانہ نظر ڈالیں جو نواز شریف کو اقتدار سے الگ کرنے کے لیے روا رکھا گیا۔ جے آئی ٹی کے اراکین کے انتخاب سے لے کر تفصیلی فیصلے تک، واقعات کا ایک سلسلہ ہے جو اس سارے عمل کے گرد ابہام اور شبہات کا جال بُن دیتا ہے۔ لازم ہے کہ اس سارے عمل کو آئین‘ قانون اور سماجی اخلاقیات کے حوالے سے دیکھا جائے۔
تیسرا یہ کہ عوامی راہنمائوں کے انتخاب اور رخصتی کا فیصلہ اگر عوام کے پاس رہے تو ان کے فیصلوں پر بحث کا دائرہ عوامی حلقوں تک محدود رہتا ہے۔ اس سے ریاستی ادارے سیاسی مباحث کا عنوان نہیں بنتے۔ یوں ان کا احترام مجروح نہیں ہوتا۔ اگر عوامی نمائندوں کے عزل و نصب اور سیاسی امور کا فیصلہ ریاستی ادارے اپنے ہاتھ میں لے لیں گے تو درست ہونے کے باوجود، متنازع شمار ہوں گے۔ مولوی تمیزالدین کیس سے لے کر نواز شریف صاحب کی نااہلی تک ایسے فیصلوں کا ایک انبار ہے جسے کوئی ریاست اٹھانے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
ضیاء الحق صاحب کے مارشل لا نے پیپلز پارٹی کو ایک نئی زندگی دی۔ بھٹو صاحب کی عدالتی سزا نے انہیں امر کردیا۔ پرویز مشرف صاحب کے مارشل لا نے نواز شریف صاحب کی زوال پذیر سیاست کو زندہ کر دیا۔ ان کی نااہلی کا فیصلہ بھی آخری تجزیے میں ان کے حق میں جائے گا۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف صاحب طبقہ اشرافیہ کے نمائندے ہیں اور ان کے اقتدار کا خاتمہ ضروری ہے، انہیں اس پر غور کرنا چاہیے کہ اس کے لیے درست طریقہ عوام کی رائے پر اعتماد ہے نہ کہ کسی ریاستی ادارے کا حکم یا مداخلت۔
پاکستان کی سیاست اس وقت بھنور میں ہے۔تازہ ترین واقعات بتا رہے ہیںکہ نواز شریف سے نفرت کہاں کہاں سرایت کر چکی۔ یہ ملک کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔ فیصلہ جو بھی ہو، سپریم کورٹ کے فیصلوں کی زبان ایک سیاسی راہنما کی زبان سے مختلف ہونی چاہیے۔ ملک اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ عوام کے کسی حلقے میںکسی ادارے کو ایک سیاسی جماعت سمجھ لیا جائے۔ مشرقی پاکستان میں یہ واقعہ ہو چکا۔ سندھ میں ہم اس کے اثرات دیکھ چکے۔ اس وبا کو اب دوسرے صوبوں میں نہیں پھیلنا چاہیے۔
نواز شریف صاحب کے خلاف ایک عدالتی فیصلہ آ چکا۔ اس پر عمل درآمد ہو چکا۔ وہ اب وزیر اعظم نہیں بن سکتے۔ اب معاملات کو آگے بڑھنا چاہیے۔ جس طرح بھٹو صاحب کو پھانسی دینے کے بعد، ان کے پس مرگ سیاسی کردار کو عوام پر چھوڑ دیا گیا تھا، اسی طرح نواز شریف صاحب کی 'سیاسی پھانسی‘ کے بعد ان کے سیاسی کردار کو بھی عوام پر چھوڑ دینا چاہیے۔ اگر انہیں مصنوعی طور پر عوامی سیاست سے روکا گیا تواس کے نتائج پریشان کن ہو سکتے ہیں۔
نواز شریف کا مخالف تیسرا گروہ اگر ان نکات پر غور کرے تو اس میں ہم سب کی بھلائی ہے۔ یہ گروہ ریاستی اداروں میں ہے اور میڈیا میں بھی۔ سیاسی جماعتوں میں ہے اور اہلِ دانش میں بھی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں