20 دسمبر کے بعد، قوم ایک اور دھرنے کے لیے تیار رہے۔ یہ خبر اُن معاہدوں میں بین السطور پڑھی جا سکتی ہے، جو وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اہلِ دھرنا کے ساتھ کیے۔
یہ معاہدے خوف کا نتیجہ ہیں۔ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ مرکزی اور پنجاب حکومت کے ہاتھ پاؤں پھول چکے تھے۔ اب انہیں جلد از جلد اور ہر قیمت پر اس بحران سے نکلتا تھا۔ شتابی سے وفاقی حکومت نے ایک معاہدہ کیا اور اُس کی وہ قیمت ادا کی جو کوئی ریاست شاید ہی دے سکے۔ صوبائی حکومت نے بھی اس کے نقوشِ پا پر قدم رکھے۔ ایڈہاک ازم کے مظہر ان معاہدوں میں ایک ایسی بات کا وعدہ کر لیا گیا‘ جسے پورا کرنا حکومت کے بس میں نہیں۔ میرے خیال میں یہی بات نئے دھرنے کی بنیاد بنے گی۔
دونوں معاہدوں میں حکومت نے یہ وعدہ کیا ہے کہ 20 دسمبر تک راجہ ظفرالحق کمیٹی کی رپورٹ منظرِ عام پر لائی جائے گی۔ یہ رپورٹ اگر سامنے آتی ہے تو اس کی دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ کمیٹی افراد کے تعین میں ابہام سے کام لے‘ اور کسی خاص فرد کی نشان دہی نہ کرے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ ایک دو افراد کو متعین کر دے۔ قیاس یہ ہے کہ پہلی صورت میں رپورٹ یکسر مسترد ہو جائے گی‘ اور پوری حکومت کو مجرموں کا پشت بان قرار دے کر، اس کے خلاف ایک نئی تحریک کا آغاز ہو جائے گا۔ دوسری صورت میں مطالبہ ہو گا کہ متعین افراد کے خلاف 295(c) کے تحت مقدمہ چلایا جائے‘ ورنہ ان کے مقدر کا فیصلہ لوگ کریں گے۔ حکومت یہ نہیں کر سکے گی۔ یہ انکار بھی تحریک اور دھرنا کا جواز پیدا کرے گا۔
حکومت نے بالواسطہ یہ مان لیا ہے کہ لوگوں کے کفر و اسلام کا فیصلہ کرنا چند شخصیات کا کام ہے۔ اگر انہوں نے ترمیم کے ذمہ داروں کو مرتد قرار دے دیا تو حکومت انہیں بچا نہیں سکے گی۔ وہ جتنا ان کا دفاع کرے گی، یہ عوام میں اشتعال بڑھاتے جائیں گے۔ یوں حکومت کا دائرہ عمل سکڑتا چلا جائے گا۔ میں اس امکان کو رد نہیں کرتا کہ حکومت سے متعلق لوگوں کا گھروں سے نکلنا مشکل ہو جائے۔ اس کی چند جھلکیاں 25 نومبر کو دکھا دی گئی ہیں۔
احسن اقبال صاحب اسے کفار اور انڈیا کی سازش قرار دے رہے ہیں۔ یہ عذرِ گناہ بد تر از گناہ کے مترادف ہے۔ احسن صاحب کے دستخطوں سے طے پانے والے معاہدے میں تحریک لبیک کو ایک پرامن جماعت تسلیم کیا گیا ہے۔ اس معاہدے میں لکھا گیا ہے کہ یہ جماعت تحفظِ ناموسِ رسالت اور ختم نبوت کے لیے حکومت کے پاس آئی ''مگر افسوس اس مقدس کام کا صحیح جواب دینے کے بجائے طاقت کا استعمال کیا گیا‘‘۔ دھرنے والوں کو 'اپنے لوگ‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ ان کو واپسی کا کرایہ دیا جا رہا ہے۔ کیپٹن صفدر صاحب دھرنے کو عاشقانِ رسول کی محفل کہتے ہیں۔ اس میں انڈیا کہاں سے آ گیا؟
حکومت نے جو کیا سو کیا، لیکن اہلِ سیاست نے جس موقع پرستی کا مظاہرہ کیا، وہ بھی کم پریشان کن نہیں۔ ایک سیاسی حریف کو شکست دینے کی خواہش اتنی غالب ہے کہ وہ ملک و سماج کو درپیش خطرات سے بے نیاز ہو گئے ہیں۔ انہیں اندازہ نہیں کہ یہ آگ اگر بھڑک اٹھی تو کسی کا گھر سلامت نہیں رہے گا۔ دہشت گردی کے معاملے میں ہم دیکھ چکے کہ وہ بھی اس کی زد میں آئے جو ان کے حامی شمار ہوتے تھے۔
سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس قانون کے سیاسی و دنیاوی استعمال کے خلاف یک زبان ہو کرکھڑی ہو جاتیں، بالخصوص اُس وقت جب وہ اعتراض بھی ختم کر دیا گیا تھا‘ جسے اس بد گمانی کی اساس بنایا گیا ہے۔ پارلیمانی جماعتوں کو یہ متحدہ موقف اپنانا چاہیے تھا کہ وہ عوام کی نمائندہ ہیں‘ جن کی ستانوے فی صد تعداد مسلمان ہے۔ انہیں اپنے اسلام کے لیے کسی کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں۔ انہیں زاہد حامد صاحب کا دفاع کرنا چاہیے تھے۔ افسوس کہ انہوں نے حکمران جماعت کو ایک ایسے معاملے میں تنہا چھوڑ دیا جس میں وہ اس کے ساتھ شریک تھے۔
سب سے زیادہ ذمہ داری پیپلز پارٹی کی تھی۔ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ مذہب کے نام پر سیاست کی مخالفت ہے۔ یہ موقع تھا کہ وہ اس کا عملی ثبوت فراہم کرتی۔ پیپلز پارٹی نے اس ترمیم کی تائید کی‘ جس کے لیے حکومت تنہا مطعون ہے۔ بھٹو صاحب اس بات کا کریڈٹ لیتے تھے کہ انہوں نے قادیانیوں کا نوے سالہ پرانا مسئلہ حل کیا۔ ان کی جماعت کو آگے بڑھ کر یہ بتانا چاہیے تھا کہ ختمِ نبوت پر ایمان کے لیے ان کی تاریخ خود ایک شہادت ہے۔ انہیں مزید کسی سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں۔ پیپلز پارٹی سول بالا دستی اور مذہب کے سوئے استعمال کے معاملات میں اپنے نظریات کا عملی ثبات فراہم کرنے میں ناکام رہی۔
مذہبی‘ سیاسی جماعتیں اور دوسرے مسلکی گروہ خاموش ہیں لیکن انہیں بھی اس خاموشی کی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ جس عمل کا آغاز پیر افضل قادری صاحب کے خلاف فتوے سے ہوا ہے، وہ تھمنے والا نہیں۔ پیر صاحب اس تحریک کے قائدین میں ہیں اور ان پر فتویٰ بھی اسی جماعت کے ایک دوسرے گروہ کے قائد نے لگایا ہے۔ اہلِ مذہب کو سوچنا ہو گا کہ اگر پیر افضل صاحب نہیں بچ سکے تو دوسرے مسلک کے لوگ کیسے بچ پائیں گے؟
مجھے یہ دکھائی دے رہا ہے کہ ہر وہ جماعت جو اس گروہ کی مخالفت کرے گی، اسے ن لیگ کی صف میں کھڑا کیا جائے گا۔ دیگر مذہبی گروہوں کے بچنے کا امکان اس لیے کم ہے کہ ان کے خلاف پہلے سے فتوے موجود ہیں‘ جنہیں باآسانی کسی وقت زندہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ تو ان گروہوں کے باہمی مفادات ہیں کہ وہ ان پر پردہ ڈالے رکھتے ہیں۔ ورنہ سب کو معلوم ہے کہ ایک دوسرے کے خلاف کس طرح کے فتوے دیے جاتے رہے ہیں۔ یہ فتوے کتابوں میں موجود ہیں۔ صرف مٹی جھاڑنے اور صفحات الٹنے کی ضرورت ہو گی۔
مذہب جب دنیاوی فوائد کا ذریعہ اور کریڈٹ کا کھیل بن جائے تو پھر ایسے مناظر ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مذہب کا سوئے استعمال تیزی سے بڑھنے لگا ہے۔ ابتدا کر نے والوں کا خیال تھا کہ یہ آگ صرف نواز شریف کے سیاسی چمن کو خاکستر کرے گی۔ کاش اُن کو اندازہ ہوتا کہ آگ جب بھڑک اٹھتی تو اس کے شعلے کسی کے اشارہء ابرو کے تابع نہیں رہتے۔ پھر سب کے نشیمن اس کی زد میں ہوتے ہیں۔
اگر ملک اور سماج کو اس آگ سے بچانا ہے تو اس قوم کو ابھی سے بروئے کار آنا ہو گا۔ 20 دسمبر سے پہلے سب کو مل بیٹھ کر چند فیصلے کرنا ہوں گے:
1۔ آئین کے رو سے جو مسلمان ہے، اسے اپنے اسلام کے لیے مزیدکسی سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہے نہ کسی آستانے پر حاضری کی۔
2۔ غیر مسلموں کے بنیادی حقوق کی حفاظت، اکثریت کا دینی، اخلاقی اور آئینی فریضہ ہے۔ سیاسی و مذہبی جماعتیں مل کر یہ فرض ادا کریں گی۔
3۔ سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کے استعمال کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔ پاکستان کے آئین میں لکھ دیا گیا ہے کہ یہاں قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہو گی۔ کسی خلاف ورزی کی روک تھام کے لیے آئینی ادارے اور عدالتیں موجود ہیں۔ جس کو شکایت ہے، وہ ان سے رجوع کرے۔
4۔ ختم نبوت یا توہینِ رسالت جیسے موضوعات پر ملک میں قوانین موجود ہیں۔ اگر اس باب میں کسی فرد کے خلاف کوئی الزام ہے تو اس کے لیے قانونی اداروں سے رجوع کیا جائے۔ ایسے معاملات کو گلی‘ بازار اور منبر و محراب کا موضوع بنانے سے گریز کیا جائے گا۔ جو اس کا ارتکاب کرے گا، اس کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔
حکومت، سیاسی جماعتوں، مذہبی گروہوں، میڈیا اور سول سوسائٹی کے پاس کچھ دن باقی ہیں۔ اگر وہ ان نکات پر قومی اتفاقِ رائے پیدا نہ کر سکے تو 20 دسمبر کے بعد یہ کام مشکل تر ہو جائے گا۔