"KNC" (space) message & send to 7575

اہلِ فلسطین کا حقیقی خیر خواہ کون؟

اہلِ فلسطین جتنے تنہا آج ہیں، پہلے کبھی نہیں تھے۔ اس تنہائی میں انہیں مقتل میں اترنے کی ترغیب دینا، کیا ان کے ساتھ اظہارِ ہمدردی ہے؟
آج دنیا میں کوئی ایک ریاست ایسی نہیں جو فلسطینیوں کے ساتھ کھڑی ہو۔ صدر ٹرمپ کے ایک اعلان پر منفی ردِ عمل کا یہ مفہوم ہرگز نہیں کہ دنیا نے فلسطینیوں کے حق کو اس طر ح تسلیم کر لیا ہے جیسے وہ بیان کرتے ہیں۔ اسرائیل کے وجود کے بارے میں اگر پہلے دو آرا تھیں بھی تو اب عملاً ایک ہی رائے ہے۔ کوئی زبانِ قال سے قبول کر چکا اور کوئی زبانِ حال سے۔ نادان دوستوں نے آج اہلِ فلسطین کو دشتِ حیات میں بے اماں کھڑا کر دیا ہے۔ اس پر وہ بضد ہیں کہ وہ اس دشت کو مقتل بنا دیں۔
جب صدر ٹرمپ نے امریکی سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کیا تو اس سے پہلے فلسطینی ریاست کے صدر محمود عباس نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان نے انہیں بتا دیا تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔ ٹرمپ صاحب کے داماد پہلے عرب ریاستوں کو اعتماد میں لے چکے تھے۔ استنبول میں مسلمان حکمرانوں کی سرد مہری سے بھی واضح ہے کہ فلسطین کے معاملے میں عالمِ اسلام کی گرم جوشی دم توڑ چکی۔ آج مسلمانوں کی قومی ریاستیں ہیں اور ان کی دلچسپی اپنی جغرافیائی سرحدیں تک محدود ہے۔ سب اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں۔
افراد کے درمیان اجتماعیت کی اساس ہمیشہ ایک نہیں رہتی۔ یہ تاریخی عوامل کے تابع ہے۔ کبھی رنگ، کبھی نسل، کبھی جغرافیہ کبھی مذہب۔ اس کا تعلق سیاسی تنظیم سے بھی ہے۔ قبائلی معاشرت کے دور میں اس کی نوعیت کچھ اور تھی۔ سلطنتیں وجود میں آئیں تو اس کی صورت تبدیل ہو گئی۔ قومی ریاستوں نے اجتماعیت کو ایک نئی اساس فراہم کر دی۔ آنے والے دنوں میں شاید قومی ریاستیں باقی نہ رہیں۔ لوگ ایک گلوبل ولیج کے شہری قرار پائیں۔ اُس وقت اجتماعی شناخت بھی بدل جائے گی۔
آج ہم قومی ریاستوں کے دور میں زندہ ہیں۔ اس میں مذہب کو اجتماعی سیاسی شناخت کے طور پر قبول نہیں کیا گیا۔ اس میں صرف ایک استثنا ہے اور وہ اسرائیل کا ہے۔ یہ حیرت کی بات ہے کہ جن لوگوں نے نئے عالمی نظام کی صورت گری کی، وہ مذہب کو اجتماعیت کی اساس نہیں مانتے لیکن انہوں نے اس اصول سے انحراف کرتے ہوئے، یہ تسلیم کیا کہ یہودیوں کا ایک وطن ہونا چاہیے۔ انہوں نے دنیا بھر سے یہودیوں کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ فلسطین میں جمع ہوں اور پھر انہیں اسرائیل کے نام سے ایک ملک دے دیا۔
جب نئی سیاسی قوتوں نے مذہب کو اجتماعیت کی اساس مان لیا تو دیگر مذاہب کے علم برداروں میں بھی یہ تحریک پیدا ہوئی کہ وہ اپنی مذہبی شناخت کو اساس مانتے ہوئے مذہبی ریاستیں بنائیں۔ مسلمان اس میں سرِ فہرست تھے۔ اس کا فلسطینیوں کو نقصان بھی پہنچا۔ ان کی قومی جدوجہد کو جب مذہبی شناخت دی گئی تو وہ پی ایل او کمزور ہوئی جو فلسطینی قوم کی بنیاد پر آزادیٔ وطن کی تحریک چلا رہی تھی۔ وہ مسیحی فلسطینی اس جدوجہد سے غیر متعلق ہو گئے جو پی ایل او کے محاذ سے سرگرم تھے۔ آج شاید ہی لوگوں کو یاد ہو کہ معروف فلسطینی مجاہدہ لیلیٰ خالد ایک مسیحی تھی۔ 
عالمی قوتوں کے اس مروجہ تصورِ ریاست سے اسرائیل کی صورت میں جو انحراف ہوا، اس کی ایک قیمت ساری دنیا کو ادا کرنا پڑی۔ سب سے زیادہ فلسطینیوں کو۔ ان کے لیے ان کی اپنی ہی سرزمین سکڑتی چلی گئی۔ دو ریاستی تصور سے اس بات کا امکان پیدا ہوا کہ ان کا ملک تو ہو گا۔ اب اس کے امکانات بھی معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ یروشلم ساری دنیا جانتی ہے کہ مقبوضہ علاقہ ہے۔ امریکی اعلان سے اس بات کا امکان کم و بیش ختم ہو گیا کہ اسرائیل 1967ء سے پہلے کی سرحدوں کی طرف لوٹ جائے گا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیل کی سرحدیں پہلے سے زیادہ پھیل جائیں گی۔
اسرائیل کا وجود، ہم جانتے ہیں کہ امریکہ اور یورپی قوتوں کا مرہونِ منت ہے۔ یہاں پیش گوئیوں کا بہت ذکر رہتا ہے۔ اس باب میں ایک پیش گوئی وہ ہے جو قرآن مجید نے کی ہے۔ اس میں حضرت مسیحؑ سے یہ کہا گیا ہے کہ یہود قیامت تک آپ کے مانے والوں کے رحم و کرم پر رہیں گے۔ اس سے واضح ہے کہ جس دن امریکہ اور یورپی قوتوں نے اپنا ہاتھ اٹھا لیا، اسرائیل کا وجود قائم نہیں رہے گا۔ یہ وقت آئے گا یا نہیں، یا کب آئے گا، کچھ کہنا مشکل ہے۔
اس باب میں ایک اور بات بھی ہماری توجہ چاہتی ہے۔ یہاں بعض لوگ یہ تاثر دیتے ہیں کہ ساری دنیا کے یہودی صیہونی ہیں اور اسرائیل کے حامی ہیں۔ یہودیوں میں بہت سے لوگ لبرل ہیں۔ وہ کسی مذہبی پیش گوئی کو نہیں مانتے۔ امریکہ میں یہ لوگ متحرک ہیں اور اسرائیل کے خلاف آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔ ان میں نوم چومسکی کا نام نمایاں ہے جو یہودی ہونے کے باوجود اسرائیل کے خلاف ہیں۔ 
فلسطینیوں کے پاس اب ایک ہی راستہ ہے۔ وہ مسلح جدوجہد سے گریز کرتے ہوئے، سیاسی جد وجہد کا راستہ اپنائیں اور دو ریاستی حل کے لیے یکسو ہو جائیں۔ اسرائیل کا خاتمہ اس وقت ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ مسلح جدوجہد اسی وقت کامیاب ہو سکتی ہے جب سرحدوں کے پار سے کوئی حمایت یا تائید میسر ہو۔ اہلِ فلسطین کے لیے یہ راستہ بند ہو چکا۔ صدر ٹرمپ کے اعلان پر عرب دنیا کی سرد مہری سے یہ بات پوری طرح واضح ہو گئی ہے۔ اس کے بعد بھی اگر وہ کسی مسلح جدوجہد کا راستہ اپنائیں گے تو متاعِ جسم و جاں گنوانے کے سوا انہیں کچھ نہیں ملنے والا۔
افسوس کہ گزشتہ پانچ دہائیوں سے مسلمانوں کو ایک ایسے راستے پر ڈالا گیا جس کی کوئی منزل نہیں تھی۔ جہاد کے تصور کو مسخ کیا گیا اور اسے حکمت و بصیرت سے عاری ایک خیال کے طور پر پیش کیا گیا۔ اسے ایک تعمیری قوت کے بجائے فساد کی علامت بنا دیا گیا۔ اللہ کی نصرت کے قانون کی من مانی تعبیر کرتے ہوئے لوگوں کو تیغ کے بغیر لڑنے کا درس دیا گیا اور اسے مومن ہونے کی نشانی بتایا گیا۔ اہلِ فلسطین کو اس حال تک پہچانے میں اس مسلح جدوجہد کا بہت حصہ ہے۔
طیب اردوان نے ترکی کا سفارت خانہ مشرقی یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس سے یہ تاثر ملا کہ جیسے انہوں نے مشرقی یروشلم کو فلسطین کا علاقہ تسلیم کیا ہے۔ میرے نزدیک اس کا نتیجہ اس کے برخلاف نکلے گا۔ وہ اسرائیل میں ترکی کے سفارت خانے کو اگر مشرقی یروشلم منتقل کریں گے تو یہ ترکی کی طرف سے اس بات کا اعلان ہے کہ وہ مشرقی یروشلم کو اسرائیل کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اس پر بالفعل بھی اسرائیل ہی کا قبضہ ہے۔ 
مسلمانوں کو شعوری طور پر اعتراف کرنا ہو گا کہ وہ قومی ریاستوں کے دور میں زندہ ہیں۔ امتِ مسلمہ کے نام سے کوئی سیاسی وجود دنیا میں کہیں نہیں پایا جاتا۔ یہ عملاً واضح ہو چکا کہ کوئی مسلم ریاست اہلِ فلسطین کی مدد نہیں کر سکتی۔ اسلامی تحریکوں کو بھی فلسطینیوں کو وہی بات سمجھانی چاہیے جو زمینی حقائق کے مطابق ہے۔ فلسطینی بچوں کے لاشوں کو بے رحمی کے ساتھ جذباتی استحصال کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ فلسطینیوں کا حقیقی خیر خواہ وہی ہے جو ان کے بچوں کو اسرائیلی فوجیوں کی وحشت اور ظلم سے بچائے۔
فلسطینیوں کی ان کی اپنی سرزمین دن بدن سکڑتی جا رہی ہے۔ عربوں نے ان کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ اب تو شاید وہ ماضی کی طرح انہیں کوئی پناہ گاہ بھی نہ دے سکیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے لیکن حقیقت ہے، اس سے آنکھیں چار کرنا پڑیں گی۔ سعودی عرب کا مسئلہ ایران ہے اور ایران کا سعودی عرب۔ فلسطین کسی کا مسئلہ نہیں۔ یہی بات فلسطینیوں کو سمجھنا ہو گی۔ 


 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں