"KNC" (space) message & send to 7575

امریکی پاپولزم بمقابلہ پاکستانی پاپولزم

ٹرمپ پاپولزم کا جواب، کیا پاکستانی پاپولزم ہے؟
میں نے خواجہ آصف صاحب کا جواب سنا اور آصف غفور صاحب کا بھی۔ سچ یہ ہے کہ لہجے اور الفاظ کے باب میں آصف غفور صاحب کا انتخاب کہیں بہتر تھا۔ خواجہ صاحب کے منہ میں ٹی وی اینکر نے الفاظ ڈالے اور انہوں نے اُگل دیے۔ اس نازک مرحلے پر میں ان سے بہتر اور زیادہ نپے تلے الفاظ کی توقع رکھتا تھا۔ وہ منتخب عوامی نمائندے اور عوام کو جواب دہ ہیں۔ کیا ٹرمپ کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں ان کی سطح پر اترنا ہو گا؟ 
امریکہ کا مؤقف نیا نہیں، صرف صدر ٹرمپ کا لہجہ نیا ہے۔ امریکی قیادت ایک مدت سے پاکستان کے بارے میں یہی خیالات رکھتی ہے۔ پاکستان کو اس کا ابلاغ بھی کیا جاتا رہا۔ دیگر افراد سفارتی آداب کا خیال رکھتے تھے۔ صدر ٹرمپ بے تکلف آدمی ہیں۔ وہ کسی شعبۂ زندگی میں کسی اخلاقی یا سفارتی پابندی کے قائل نہیں ہیں۔ اس پر مستزاد ان کی لا علمی اور سطحی اندازِ نظر ہے۔ اسی کا ایک مظہر ان کا ٹویٹ ہے۔ 
آج واشنگٹن میں پاکستان کا کوئی قابلِ ذکر دوست موجود نہیں۔ انتظامیہ میں نہ کانگرس میں۔ پینٹاگان میں نہ وائٹ ہاؤس میں۔ لوگ ٹرمپ صاحب کے لب و لہجے سے اختلاف کرتے ہیں، ان کے مؤقف سے نہیں۔ یہ صورتِ حال متقاضی ہے کہ پاکستان کا ردِ عمل بہت نپا تلا اور ہمارے اجتماعی مفاد کے تابع ہو۔ یہ ردِ عمل کیا ہو؟ اس کے لیے چند امور کو سامنے رکھنا ہو گا:
1۔ وزیراعظم، وزیر خارجہ اور وزیر داخلہ یہ کہہ چکے ہیںکہ پاکستان کو اپنا گھر درست کر نے کی ضرورت ہے۔وزیر خارجہ نے یہ بات امریکہ میں کہی۔اِس سے کیا مراد ہے؟کیا اس کا امریکی مطالبات سے کوئی تعلق ہے؟
2۔ خارجہ پالیسی کی کامیابی دو باتوں سے ناپی جاتی ہے؛ ایک یہ کہ آپ کے دوستوں کی تعداد میں اضافہ ہو اور دشمنوں میں کمی آئے۔ دوسرا یہ کہ آپ کی سرحدیں پہلے سے زیادہ محفوظ ہوں۔ کیا اس پیمانے سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کامیاب ہے؟
3۔ مسلم دنیا، سعودی عرب جیسے طاقت ور ملک سے لے کر فلسطین جیسی برائے نام ریاست تک، پاکستان سے زیادہ قریب ہے یا بھارت کے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرتے وقت پیشِ نظر رہے کہ سعودی عرب نے وزیر اعظم مودی کو اپنے سب سے بڑے سول ایوارڈ سے نوازا ہے اور ریاست فلسطین نے حال ہی میں پاکستان سے اپنا سفیر کسی وجہ سے واپس بلا لیا اور دہشت گردی کے خلاف بھارت کے کردار کی تعریف کی ہے ۔
4۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ماخذ کیا ہے؟ پارلیمنٹ؟ کابینہ؟ یا پھر کوئی اور؟ اس کا خالق کون ہے اور کون ہونا چاہیے؟ سابق وزیر اعظم نواز شریف صاحب نے دو دن پہلے کہا ''بڑی درد مندی سے کہتا رہا کہ ہمیں اپنے گھر کی خبر ضرور لینی چاہیے۔ ہمیں اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے کہ دنیا ہماری قربانیوں کے باوجود، ہماری بات کیوں نہیں سنتی؟ 17 سال کے دوران عظیم جانی و مالی قربانیوں کے باوجود، ہمارا بیانیہ کیوں نہیں مانا جا رہا؟‘‘ وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی، وہ یہ بات کس سے کہتے رہے ہیں؟ ان کے ان سوالات کا مخاطب کون تھا؟
5۔ کیا پاکستان امریکہ کی فوجی امداد سے بے نیاز ہو سکتا ہے؟ مثال کے طور پر پاکستان کی فضائیہ میں ایف 16 کا کردار فیصلہ کن ہے۔ امریکہ اگر اس کے فاضل پرزے دینا بند کر دے تو کیا ہم اس کا کوئی متبادل فضائی نظام تشکیل دے سکتے ہیں؟ کیا ہمارے وقت اور وسائل میں اتنی وسعت ہے کہ ہم فوری طور پر خارجی خطرات کا توڑ کر سکیں؟
6۔ کیا خارجی دنیا میں اس وقت امریکہ کا کوئی متبادل ہے؟ اگر امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات خراب ہوتے ہیں تو چین اور روس کس حد تک اس کی تلافی کر سکتے ہی؟ پہلی بات؛ کیا وہ اس پر آمادہ بھی ہیں؟ دوسری بات: کیا وہ اس کی استطاعت رکھتے ہیں؟ مثال کے طور پر اس وقت امریکہ کا دفاعی بجٹ سات سو بلین ڈالر ہے اور روس کا چھیالیس بلین ڈالر۔ وسائل کے اس تفاوت کے ساتھ روس ہماری کیا مدد کر پائے گا، اگر وہ آمادہ بھی ہو؟
7۔ صدر ٹرمپ کے جذبات امریکہ کی خارجہ پالیسی میں کیسے ڈھل رہے ہیں؟ معلوم ہوتا ہے کہ امریکی انتظامیہ ابھی ایک محتاط رویے کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ اس وقت فوجی امداد کو جزواً معطل کیا گیا ہے۔ ہر معاملے میں اس کا اطلاق الگ سے ہو گا۔ اسے (condition and issue based approach) کہا گیا ہے۔ اسی طرح پاکستان کو ان ممالک میں شامل نہیں کیا گیا جہاں مذہبی آزادی ختم ہو گئی ہے‘ بلکہ ابھی ہمیں ان ملکوں کی فہرست میں رکھا گیا ہے جہاں اس حوالے سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صدر ٹرمپ کے خیالات جب سفارتی حکمتِ عملی میں ڈھلے ہیں‘ تو ان کی شدت وہ نہیں ہے جو ان کے الفاظ میں ہے۔ گویا ابھی سفارت کاری کے لیے گنجائش موجود ہے۔ کیا ہم اس کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں؟
8۔ پاکستان کے بارے میں، اپنے اس مؤقف میں امریکہ تنہا ہے یا دوسرے اہم ممالک بھی اس کے ساتھ کھڑ ے ہیں؟ یہ دو طرفہ تعلقات کا معاملہ ہے یا ہماری خارجہ پالیسی کو درپیش عمومی چیلنج؟ چین اور ترکی کے علاوہ کیا کسی ملک نے امریکہ کی اس حکمتِ عملی کی مخالفت کی ہے؟
9۔ صدر ٹرمپ نے جس لب و لہجے میں کلام کیا ہے، وہ یقیناً قابلِ برداشت نہیں۔ ہمیں اس پر اظہارِ ناراضی کرنا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ اس کی صورت کیا ہو؟ اگر پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگتی ہیں اور ملک میں مہنگائی کی ایک لہر آتی ہے تو کیا قوم اسے برداشت کر لے گی؟ کیا اِس صورت میں ہم اپنی عزتِ نفس کی حفاظت بہتر طور پر کر پائیں گے؟ ہم ایک آسودگی پسند قوم ہیں۔ کیا اس نفسیاتی کیفیت کے ساتھ ہم معاملات کو اپنی مرضی سے آگے بڑھا سکیں گے؟
10۔ سفارتی اعتبار سے آج پاکستان کے لیے بھارت کی اہمیت زیادہ ہے یا افغانستان کی؟ کیا افغانستان کو ترجیح دیے بغیر ہم بھارت کے چیلنج سے نمٹ سکتے ہیں؟ بھارت کی حکمتِ عملی یہ دکھائی دیتی ہے کہ و ہ براہ راست تصادم کے بجائے، براستہ افغانستان ہم پر حملہ آور ہو۔ براستہ افغانستان کا ایک مطلب براستہ امریکہ ہے؟ کیا آج افغانستان میں ہمارا کوئی دوست موجود ہے؟ ہمارے پاس اس حکمتِ عملی کا توڑ کیا ہے؟
11۔ بعض حلقے اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ امریکہ پاکستان میں داخلی فساد بھی پیدا کرنا چاہتا ہے۔ ہمارا جغرافیہ خطرات کی زد میں ہے۔ کیا ہمارا مقتدر طبقہ داخلی استحکام کو کوئی اہمیت دینے کے لیے تیار ہے؟ سیاسی عمل کو غیر فطری طور پر متاثر کیا جا رہا ہے۔ اس کی ایک جھلک بلوچستان میں نظر آ رہی ہے۔ کیا لوگ عام انتخابات تک انتظار نہیں کر سکتے؟ کیا سینیٹ میں ن لیگ کی برتری کا راستہ روکنا اتنا ضروری ہے کہ ہم ملکی استحکام کو داؤ پر لگا دیں؟
یہ بقا کا معرکہ ہے، کوئی کھیل تماشا نہیں۔ پاپولزم کی سیاست نے دنیا کو بربادی کا راستہ دکھایا ہے۔ صدر ٹرمپ اس کا سب سے بڑا مظہر ہیں۔ ہمیں سوچنا ہے کہ کیا اس پاپولزم کا جواب بھی پاپولزم ہے؟ کیا امریکہ مخالف جذبات کو بھڑکانے سے مسائل حل ہوں گے؟ کوئی ردِ عمل دیتے وقت ان سب پہلوئوں کو پیشِ نظر رکھنا لازم ہے‘ جن کا میں نے ذکر کیا ہے۔ حکومت اور ریاستی اداروں کا ردِ عمل، ابھی تک متوازن ہے؛ تاہم انفرادی سطح پر سامنے آنے والے تبصرے بصیرت افروز نہیں ہیں۔
ہمیں چند بنیادی فیصلے کرنا ہوں گے۔ ان کا تعلق گھر کی صفائی سے ہے اور ساتھ خارجہ امور سے بھی۔ ریاستوں کے باہمی تعلقات میں دوستی اور دشمنی کے تصورات کا مفہوم دائمی نہیں ہوتا۔ یہ وقت کے ساتھ ساتھ تفہیمِ نو کے عمل سے گزرتے ہیں۔ 'امریکہ ہمارا دوست ہے‘ جیسے بے معنی جملوں کی تکرار ہمیں کوئی فائدہ نہیں دے گی۔ زندگی کی بنیاد حقائق کی پختہ زمین پر رکھی جاتی ہے، رومان کی خیالی سطح پر نہیں۔ زندگی کے معرکوں میں افراد کی تعداد نہیں گنی جاتی۔ یہاں طاقت کا پیمانہ دوسرا ہے۔ ہمیں بصیرت، علم اور مادی وسائل کی ضرورت ہے۔ ان کے بغیر عزتِ نفس کی بھی کوئی ضمانت نہیں۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں