نواز مخالف حلقوں کی روز افزوں مایوسی ظاہر وباہر ہے۔ اس کا اظہاراب قلم سے ہورہاہے اور زبان سے بھی۔
پانامہ کی ناگہانی نصرت سے نوازشریف کے خلا ف جو بساط بچھائی گئی تھی، اُس پر اُن کو مات نہیں دی جا سکی۔ وہ توقع سے زیادہ سخت جان ثابت ہوئے۔ وہ اس وار کو سہہ گئے اور آج دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑے ہو چکے ہیں۔ جیسے جیسے اُن کے قدم آگے بڑھ رہے ہیں، اُن کے مخالفین کے قدم اکھڑ رہے ہیں۔مایوسی کے لمحوں میں گفتار پہ قابو رہتا ہے نہ رفتار پہ۔ اس کا اظہار لاہور کے دو جلسوں میں ہوا۔ ایک کو قصاص کا عنوان دیا گیا تھا اور دوسرے کو ختمِ نبوت کا۔ جلسے کے اختتام پرمطالبہ نظامِ مصطفیٰ میں ڈھل گیا، وہ بھی سات دن میں۔
لیڈر کی تعریف یہ ہے کہ وہ مشکل لمحوں میں اپنے حواس کو قابو میں رکھتا ہے۔ وہ نہ صرف خود کو سنبھالتا ہے بلکہ ان کو بھی جو اس کے پیچھے چلتے ہیں۔ اگر راہنما خود ہی حواس کھو دے تو پھر قافلے کو نظری وعملی انتشار سے بچا نا مشکل ہو جاتا ہے۔ لاہور کے جلسے میں حواس باختگی کا جو منظر دکھائی دیا، میرے لیے باعثِ تشویش ہے۔ شیخ رشید تو خیر مرفوع القلم ہیں مگرکیا عمران خان بھی؟سوال یہ ہے کہ اُن پر یہ نازک وقت کیوں آیا؟
لوگوں نے انہیں اپنا امام بنایا تھا مگر انہوں نے شیخ رشید کو اپنا امام بنا لیا۔ امام وہ ہوتا ہے، آپ جس کی اقتدا کرتے ہیں۔ جس کے اشارے پر چلتے اور جس کے الفاظ دھراتے ہیں۔ سیاسی راہنمائی کوامامت ِکبریٰ کہا جا تا ہے۔ شیخ رشید نے بہ آوازبلند کہا کہ وہ پارلیمان پرلعنت بھیجتے ہیں۔ ایک اچھے مقتدی کی طرح عمران خان نے وہ الفاظ دھرا دیے۔ شیخ رشید کو امام مان لینے کا جوانجام ہوسکتا ہے، وہ ہمارے سامنے ہے۔
شیخ رشید صاحب کا ہماری سیاست میں ایک ہی مصرف رہا ہے: جلسے کو گرمانا۔ اسی مقصد کے لیے میاں نوازشریف اور سید پرویز مشرف نے انہیں استعمال کیا۔ یہ لوگ ان کے اس مصرف سے اچھی طرح واقف تھے۔ اُن سے کام لیا گیا اور وزارتوں کی صورت میں اس کا معاوضہ بھی دے دیا گیا۔ شیخ صاحب یہ فن جانتے ہیں کہ یہ جلسہ ہو یا ٹی وی ٹاک شو، ریٹنگ کیسے لی جاتی ہے۔ عمران خان سے پہلے، اس فن کے جو خریدارتھے، وہ جانتے تھے کہ دکان دار اور خریدار کا باہمی تعلق کیا ہے۔ انہوں نے اس تعلق کی حدود کا خیال رکھا۔ دکان دار سے سودا لیا، گھر چلانے کے لیے مشورہ نہیں۔
عمران خان نے یہ نہیں کیا۔ وہ خود بھی شیخ رشید کے رنگ میں رنگ گئے۔ ان جیسی زبان بولنے لگے ۔ ان کالہجہ اپنا لیا، یہ سوچے بغیر کہ لوگ عمران خان کوکس نظر سے دیکھتے اور ان سے کیا توقع رکھتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب ان کے غالی معتقد اور حامی بھی یہ بیان کر رہے ہیں کہ وزارتِ عظمیٰ کپتان سے دن بدن دور ہو تی جا رہی ہے۔ عمران خان کو خود بھی ان کا اندازہ ہو رہا ہے مگر افسوس کہ وہ اب بھی شیخ رشید کی امامت سے نکلنے پر آمادہ نہیں۔
عمران خان کے بارے میں ، میں نے چندبرس پہلے لکھا تھا کہ وہ خود کش سیاست دان ہیں۔ انہوں نے اپنی ساکھ کو جس طرح بربادی پر لگایا، معاصر دنیا میںاس کی کوئی دوسری مثال مو جود نہیں۔ انہیں پروفیسر احمد رفیق اختر جیسی جہاں دیدہ شخصیت کی راہنمائی میسر آئی مگر انہوں نے نعیم الحق جیسے لوگوں کی صحبت کو ترجیح دی۔ انہیں سیاسی سفر کے آغاز میں جنرل حمید گل جیسے مخلص آدمی کی مشاورت میسر رہی۔ میں جنرل صاحب کے ساتھ اُن کے ہجرووصال کی داستان سے اچھی واقف ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ جنرل صاحب جیسا نجیب آدمی کیوں اور درد کی کس کیفیت میں اُن سے دور ہوا۔ جاوید احمد غامدی صاحب نے خود کو عملی سیاست سے ہمیشہ دور رکھا۔ اسی دور میںانہوں نے بھی عمران خان کو اپنا وقت دیااور اُن پر اپنے علم کے دروازے وا کر دیے۔ ڈاکٹرفاروق خان شہید جیسے آدمی نے خود کو ان کے لیے وقف کردیا۔
ان میں سے ہر آدمی ذاتی مفاد سے بے نیاز تھا۔ اکثر کواقتدار سے دلچسپی تھی نہ عملی سیاست سے۔ بے لوث لوگوں کا مشورہ اللہ کی نعمت ہے۔ عمران خان نے اس نعمت کی ناقدری کی۔ شاید یہ اللہ کی نعمتوں کی بے توقیری کی سزا ہے کہ قدرت نے انہیں شیخ رشید جیسوں کے حوالے کر دیا۔ ان کا معاملہ آج بھی وہی ہے جسے میں نے کچھ عرصہ پہلے جون ایلیاکے الفاظ میںبیان کیاتھا:
میں بھی بہت عجیب ہوں، اتنا عجیب کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
یہ طے ہے کہ منفی اندازِ نظر شخصیت کو برباد کر دیتا ہے۔ عمران خان نے دوسروں کو گرانے اور برباد کرنے پر جو توانائی صرف کی، اگر اپنی تعمیر پر خرچ کرتے تو ان کی کامیابی کے امکانات کہیں زیادہ ہو تے۔ نئی نسل نے انہیں اپنا راہنما مان لیا تھا۔ وہ چاہتے تو ایک نئے سماج کی تشکیل کر سکتے تھے۔ وہ نئی نسل میں تعمیرِاخلاق کی تحریک اٹھا کر،پاکستان کو ایک روشن مستقل دے سکتے تھے۔ وہ چاہتے تونوجوانوں میں یہ بات راسخ کر سکتے تھے کہ دنیا کی سب سے بڑی اقدار علم اور اخلاق ہیں جو دیرپا اور یقینی کامیابی کی ضمانت ہیں۔ پھر انہیں کامیابی کے لیے کسی نذر گوندل اور کسی شیخ رشید کی ضرورت نہیں تھی۔ میرا خیال تو یہ ہے کہ شاید پھر انہیں اقتدار کی حاجت بھی نہ رہتی۔ بعض اوقات آدمی مناصب سے بڑا ہو جاتا ہے۔ عمران خان کی زندگی میں وہ لمحہ آیا تھا جو گزر گیا۔
سیاست کے جو دوسرے امام سامنے آئے ہیں وہ خادم حسین رضوی صاحب ہیں۔ انہوں نے قومی سیاست کو جس لغت سے مالا مال کیا،اس کی صدائے بازگشت اس جلسے میں بھی سنائی دی جو لاہور میں ختمِ نبوت کے عنوان سے منعقد ہوا۔ اس سوال سے قطع نظر کہ مطالبہ کیا ہے،اس جلسے سے معلوم ہوا کہ اب مذہبی سیاست کے علم برداررضوی صاحب کی ایجاد کردہ لغت کے حافظ بن رہے ہیں۔ یہ لغت اگر فروغ پاتی ہے تو یہ سمجھنے کے لیے بقراط ہونا ضروری نہیں کہ آنے والے دنوں میںسیاست کا اسلوب کیا ہو گا۔
یہ آج کے آئمہ سیاست ہیں جن کے اثرات صرف تحریکِ انصاف یا تحریکِ لبیک تک محدود نہیں۔ سب حسبِ توفیق ان سے استفادہ کر رہے ہیں۔ ختمِ نبوت کے جلسے میں بھی ایک مقرر نے کروڑوں بار پارلیمنٹ پر لعنت بھیجنا ضروری سمجھا۔ ن لیگ کی صفِ دوم کی سیاست لاشعوری طورپر شیخ رشیدصاحب ہی کوامام مانتی ہے۔ اس اسلوبِ سیاست کے لیے جواز تراشے جاتے ہیں لیکن اس مستعمل لغت کے لیے کوئی جواز قابلِ قبول نہیں۔ قائد اعظم اور مولانا ابوالکلام آزاد جیسے لوگوں کو کوئی مجبور نہیں کر سکا کہ وہ گلی بازار کی زبان بولیں۔ یہی معاملہ مولا نا مودودی اور نواب زادہ نصراللہ خان کا تھا۔ لیڈر اپنی ساکھ پر کبھی مفاہمت نہیں کرتا۔
عمران خان کو اگر کبھی فرصت میسر ہو تو انہیں اس سوال پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ ان کی ان تھک محنت اوردیدہ و نادیدہ قوتوں کے تعاون کے باوجود، نوازشریف کیسے اپنے پاؤں پر دوبارہ کھڑے ہو گئے؟ ان کی اس جد وجہد کے باوصف، نوازشریف کی مقبولیت کا عمل رکا کیوں نہیں؟ شیخ رشید کو اپنا امام ماننے سے انہیں کیا ملا؟ کہیںیہ اسلوبِ سیاست انہیں انتخابات سے دورنہ کردے؟ انہیں ضرورت ہے کہ وہ سیاسی حرکیات کو اچھی طرح سمجھیں۔ وہ یہ سمجھیں کہ قومیں کیسے بنتی ہے۔ انہیں یہ بھی معلوم ہو نا چاہیے کہ سماج اور ریاست کا باہمی رشتہ کیا ہے؟
عمران خان کو آج ایسے استاد یا استانی کی ضرورت ہے جو انہیں ابن عربی اور رومی کے بجائے ابن خلدون پڑھائے۔ کوئی 'ٹو ان ون ‘ ہو تو یہ سونے پہ سہاگہ ہے۔