شہباز شریف صاحب نے پیرحمید الدین سیالوی صاحب کے گھٹنو ںکو چھو لیا۔ پیر صاحب نے کمال فراخ دلی کا مظاہرہ کیا اور احتجاج کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ ہم جیسے طالب علموں کو اس سوال کا جواب تو مل گیا کہ سات دن میں نفاذِشریعت کا مفہوم کیا ہے ، مگربات یہاں تمام نہیں ہوئی۔ ایک اورسوال یہ ہے کہ اس آنکھوں دیکھے اور کانوں سنے میںڈرامہ کتنا تھا اور حقیقت کتنی؟
ایک قصہ اس کے متوازی بھی چل رہا ہے۔ ایک ٹی وی اینکرنے، جو سنسنی پھیلانے کی شہرت رکھتے ہیں،یہ انکشاف کیا کہ قصور کے حادثے کا تعلق ایک منظم مجرم گروہ سے ہے جو بین الاقوامی جہت رکھتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ملزم کے37 اکائونٹ ہیں جن میں غیر ملکی کرنسیوں میں ترسیلِ زر ہوتی ہے۔ ایک اور صحافی کا کہنا ہے کہ نہیں، ان اکائونٹس کی تعداد 168 ہے۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ شہباز شریف صاحب زینب کے والد کے ساتھ پریس کانفرنس کر رہے ہیں اور ان کا گلہ ہے کہ انہیں بولنے نہیں دیا گیا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملزم کے نشان دہی دراصل ان کے خاندان نے کی ہے جس کاکوئی ذکر نہیں۔ کریڈٹ کی اس دوڑ میں کیالوگ اس لیے شریک ہو رہے ہیں کہ اس میں ملزم کی گرفتاری پر بڑا انعام رکھا گیا تھا؟اس سب پر تالیاں بج رہی ہیں اور اسے ڈرامہ کہا جا رہا ہے۔ اگر یہ ڈرامہ ہے تو پھر اس کے بہت سے کردار ہیں، ایک نہیں۔
کیا نفاذِشریعت کا مطالبہ ایک ڈرامہ ہے؟ کیا ایک بیٹی کا قتل ایک ڈرامہ ہے؟ کیا ملزم کی گرفتاری ایک ڈرامہ ہے؟ کیا میڈیا ڈرامہ ہے؟ کیا یہ سماج ایک تھیٹر ہے اور ہم سب، علما مشائخ، سیاست دان، صحافی، اس کے کردار ہیں اور تماشائی بھی؟ اگر کوئی سماج ایک تماشا گاہ بن جائے تو لوگ حقائق کی تلاش میں کہاں جائیں؟ اہم سوال یہ ہے کہ ہر حادثہ آخر کار ایک ڈرامے میں کیوں ڈھل جا تا ہے؟ لوگ جب حادثے کو ڈرامہ سمجھنے لگ جائیں تو پھر کیا ہو تا ہے؟ ایک ابہام ہے،پراگندگی ہے اور سرا کسی کے ہاتھ میں نہیں ہے۔
ایک مدت سے سنجیدہ غوروفکر کی روایت دم توڑ چکی۔ ہیجان کا غلبہ ہے۔ مذہب، سیاست، سماج، ہر میدان پر صرف جذبات کا قبضہ ہے۔ جذبات بے مہار ہو جائیں تو ہیجان پیداہوتا ہے۔ آج ہر مذہبی راہنما، ہر سیاست دان، ہر لکھنے والا، ہر بو لنے والا، صرف ہیجان کو تقویت پہنچا رہا ہے،الّا ما شااللہ۔ اب تو یہ عالم ہے کہ لوگ ہیجان کی مذمت کرتے ہیں تو ہیجان ہی کی زبان میں۔
اس رویے کا عام طور پر ایک ہی نتیجہ ہو سکتا ہے۔ ہیجان اپنے منطقی انجام تک پہنچے۔ لوگوں کا غم و غصہ نکل جائے۔ طوفان تھم جائے اور پھر نئے سرے سے سماج کی شیرازہ بندی ہو ، اس بستی کی طرح جو ساحلِ سمندر پر آباد ہو، اسے کسی سونامی کا سامنا ہو جو سب بہا لے جائے اور پھر جو بچ جائیں تو وہ تنکا تنکا جمع کریں اور ایک نئی بستی آباد کریں۔
زینب کاقصہ در اصل وہ آئینہ ہے جس نے سماج کی حقیقی تصویر ہمارے سامنے رکھ دی ہے۔ اہلِ سیاست کے لیے یہ انسانی معاملہ نہیں، سیاسی فائدے کا موقع ہے۔ جو سندھ اورکے پی میں حاکم ہیں انہیں زینب کا بہت دکھ ہے لیکن ڈیرہ اسماعیل خان اور مردان کی بیٹیاںان میں مظلوم کی حمایت کا جذبہ پیدا نہ کرسکیں۔ سندھ کا نقیب محسود اُن کے خیال میں مرنے ہی کے لیے جوان ہوا تھا۔ پنجاب کے حکمرانوں کوبھی دکھ کے ان لمحوں میںتالیاں بجانے سے دلچسپی ہے۔
اور تو اور ایک غم زدہ باپ کوبھی اتنابڑا حادثہ اپنی سیاسی و مذہبی عصبیت سے بلند نہیں کر سکا۔ میڈیا نے اسے سنسنی پھیلانے کا ایک موقع جانا ہے۔ اسے دلچسپی اپنی ریٹنگ سے ہے، جرم کے خاتمے سے نہیں۔ مذہبی لوگ اس میں الجھ رہے ہیں کہ بچوں کو کیسی تعلیم دینی چاہیے۔ انہیں بچوں کے دفاع سے زیادہ مغربی سازش سے دلچسپی ہے۔
ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟ کیا اس مقام پر بند باندھا جا سکتا ہے؟ کیا معاشرے کو یہاں ٹھہرنے کا مشورہ دیا جا سکتا ہے؟ کیا ہیجان کی اس کیفیت میں سماج کی گاڑی کا کانٹا تبدیل کیا جا سکتا ہے؟ مجھے تو یہ ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ یہ مذہب ہو یا سیاست، معاشرہ ہوکہ ریاست، ہر شعبے میں ایک طبقہ ہے جس کے پاس قیادت کا منصب ہے۔ یہ رجحان ساز کہا جا تا ہے۔ معاشرہ ان کی پیروی کر تا ہے۔ سب ہیجان میں مبتلا ہیں۔ کوئی رکنا نہیں چاہتا۔ اس لیے مجھے یہ امید کم دکھائی دیتی ہے کہ ہم ہیجان کے منطقی انجام سے پہلے ، کہیں رک سکیں گے۔ اب تو یہ حال ہے جو کوئی سنبھلنے کا مشورہ دیتا ہے،اس کی تواضع گالیوں سے کی جا تی ہے۔
تو کیا اصلاح کی کوشش سے دست بردار ہو جا نا چاہیے؟ کیا معاشرے کو ہیجان کے حوالے کر دینا چاہیے؟ میرا خیال ہے کہ اپنی سی کوشش تو بہر حال لازم ہے۔ ابلاغ کی ہر وہ صلاحیت جوخدا نے عطا کی ہے،اُس کا شکر ہم پر واجب ہے۔ شکر یہی ہے کہ اسے خیر کے لیے استعمال کیا جائے۔ اصلاح ہو نہ ہو، اصلاح کی دعوت سے، آدمی ناشکری کے جرم سے تو بچ جائے گا۔
جو اس بات سے اتفاق رکھتا ہے، میرے نزدیک اُس پرلازم ہے کہ افراد اور واقعات سے بلند تر ہو کر، ساری توجہ اقدار پر دے۔چند امور پر وسیع تر اتفاق لازم ہے: جمہوریت، قانون کی حکمرانی، سنسنی خیزی سے گریز، مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ تجاویز۔ اصلاح کی خواہش رکھنے والوں پر لازم ہے کہ سب سے پہلے خود کوہیجان سے بچائیں۔ ہیجان کی مذمت ہیجانی لہجے میں نہیں ہو سکتی۔
یہ ایک مشکل کام ہے۔ اس کے لیے بہت سی نفسانی ترغیبات سے دست بردار ہو نا پڑتا ہے۔ سب سے بڑی ترغیب تو عوام میں مقبولیت کی خواہش ہے۔ سنجیدہ باتیں مقبول نہیں ہوتیں۔ ہیجان پھیلانے والے زیادہ مقبول ہوتے ہیں۔ جو عالم سنجیدہ پیرائے میں گفتگو کرتا ہو اسے مقبولیت نہیں ملتی۔ دینی معاملات میں اصلاح کرنے والوں کو اس امتحان سے گزرنا ہوگا۔
یہی معاملہ صحافت ا ور ابلاغ کے دیگر ذرائع کا بھی ہے۔ برسوں پہلے میں نے اخبار کے لیے لکھنا شروع کیا تو ایک مقبول کالم نگار نے مجھے نصیحت کی: ''یہ تم کیا مودودی اور ابوالکلام کی بات کرتے ہو۔یہ منٹو کا دور ہے۔مودودی اور ابوالکلام متروک ہو چکے۔ اگر لکھنے والوں میںاپنی جگہ بنانی ہے تو پھر منٹو کے اسلوب میں لکھو۔‘‘ ایک دوسرے خیر خواہ کا کہنا تھاکہ ہومیوپیتھک قسم کے کالم کوئی نہیں پڑھتا۔ وہ کیا کالم ہوا جس کی کاٹ کو کوئی محسوس نہ کرے۔
میں ان نصیحتوں پر عمل نہیں کرسکا۔ بطور افسانہ نگاراگرچہ میں منٹو کا مداح ہوں لیکن اب بھی یہی سمجھتا ہوں کہ اصلاح کے لیے مولانا مودودی اور ابوالکلام ہی قابلِ تقلید ہیں، یہ الگ بات ہے کہ اس کو نبھانا ہما شما کے لیے بہت مشکل ہے۔ مذہب، تاریخ اور سماجی علوم کا گہرا مطالعہ نہ ہو تو اس راہ میں چند قدم بعد ہی سانس پھولنے لگتا ہے۔ نشتر زنی بھی ایک طریقۂ علاج ہے مگر ''یہ سفاک مسیحا مرے قبضے میں نہیں‘‘۔
ممکن ہے کہ ہمارے ارد گرد جو کچھ ہو رہاہے، محض ڈرامہ ہو۔ زندگی مگر ڈرامہ نہیں ہے۔ یہ بساط جو ہمارے لیے بچھائی گئی ہے، یہ حقیقت ہے۔ ہم نے اسے حقیقت کی نظر سے دیکھنا ہے۔ گالیاں کھائے بغیر یہ کام پہلے ہوا ہے نہ آج ہو گا۔ ترغیبات اور بھی بہت سی ہیں۔ جیسے بااثر لوگوں کی قربت۔ جیسے مادی فوائد۔ رائے سازوں کے لیے امتحان یہی ہے کہ وہ ان سے بلند ہو جائیں۔
اس فضا کوبدلنے میں عدلیہ کو بھی کردار ادا کرنا ہے۔ بہت اچھا ہوا جو عدالتِ عظمیٰ نے ایک ٹی وی شو کا نوٹس لیا۔ لازم ہے کہ یہ معاملہ منطقی انجام تک پہنچے۔ یہ انجام ایک ہی ہو سکتا ہے۔ صحافت کے پردے میں سنسنی خیزی پھیلانے والے کردار بے نقاب ہوں یا پھر وہ جو حکومت اور سیاست کے پردے میں گھناؤنے کاروبار کرتے ہیں۔ سیاست دان مجرم ہوں یا اینکر، کم ازکم سزا یہ ہے کہ ان پر تاحیات پابندی لگا دی جائے۔ ایسا فیصلہ نہ ہو کہ لوگ اسے بھی ڈرامہ کہیں۔