لودھراں کے گھروں اور گلیوں سے اٹھنے والا شور کیا عمران خان کے کانوں تک بھی پہنچا؟ اگر پہنچا ہے تو کیا انہوں نے سنا بھی؟
سیاست منطق کے تابع نہیں ہوتی۔ یہ استقرا کے کسی اصول کی پابند نہیں۔ اس لیے ایک حلقۂ انتخاب کے نتائج سے یہ لازم نہیں آتا کہ ملک کا ہر حلقۂ انتخاب لودھراں کا منظر پیش کرے گا۔ ہر حلقے کے اپنے حقائق ہیں جو دوسرے سے مختلف ہیں؛ تاہم عوام میں کچھ باتیں مشترک بھی ہوتی ہیں۔ تجزیہ یہی ہے کہ مقامی اور قومی حقائق کو الگ الگ سمجھا جائے اور ان کا تجزیہ کیا جائے۔ کیا عمران خان ایسا کر پائیں گے؟
میں طبعاً مردم گریز آدمی ہوں۔ منتخب دوستوں کے محدود حلقے ہی میں آسودہ رہتا ہوں۔ سیاست دانوں کی مجلس میں تو دم گھٹتا ہے۔ افسوس کہ قائد اعظم، ابوالکلام، مولانا مودودی یا پھر نواب زادہ نصراللہ خان کی صحبت نصیب نہ ہوئی۔ یہ لوگ اس سے پہلے دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے جب میں نے یہاں قدم رکھا یا شعور کی آنکھ کھولی۔ ایسا ہوتا تو شاید میری رائے مختلف ہوتی۔ میں نے کبھی ایک ساتھ بہت سے سیاست دان دیکھے ہیں تو برادرم میجر عامر کے ہاں۔ اگر پیرِ مغاں مرد خلیق نہ ہوتا تو میں وہاں سے بھی بھاگ نکلتا۔ میں ان کے حوصلے کی داد دیتا ہوں کہ ایک علمی گھرانے کا فرزند ہو کر بھی، ہر روز اپنے دستر خوان پر اتنے سیاست دانوں کو گوارا کرتے ہیں۔
معاصر اہلِ سیاست میں، میں نواز شریف صاحب کو بوجوہ دوسروں پر ترجیح دیتا ہوں۔ ان سے بھی آخری ملاقات 2012ء میں ہوئی اور وہ بھی ان کی خواہش پر۔ یا پچھلے سال، ایک سفر کے دوران میں آٹھ دس منٹ کی صحبت کہ جسے ملاقات نہیں کہنا چاہیے۔ آج تک ان کا گھر نہیں دیکھا۔ نہ ماڈل ٹاؤن‘ نہ جاتی امرا۔ میں یہ بات کسی خوبی کے طور پر بیان نہیں کر رہا۔ صرف افتادِ طبع کی بات ہے۔ اہلِ سیاست سے میل جول اہلِ صحافت کی مجبوری ہے۔ انہیںکبھی کبھی بادلِ نخواستہ بھی سیاست دانوں سے ملنا پڑتا ہے۔ میں شاید مروجہ معنوں میں صحافی نہیں اس لیے، میرا کام ایسے سماجی روابط کے بغیر بھی چل جاتا ہے۔
تاہم میں اس کا بھی قائل ہوں کہ اگر کوئی سیاست دان آپ سے مشورہ مانگتا ہے‘ تو یہ آپ کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ اسے پوری دیانت داری کے ساتھ مشورہ دیں۔ اگر حکمران مانگیں تو یہ بدرجہ اولیٰ ضروری ہے۔ ہماری روایت میں اس کی سب سے عظیم الشان مثال سیدنا علیؓ کی ہے۔ خلفائے ثلاثہ کو انہوں جو مشورے دیے، وہ حسنِ تدبیر اور دیانت کی شاندار مثالیں ہیں۔ حکمرانوں سے ہمارے تعلق کی اساس اطاعت اور خیر خواہی ہونی چاہیے۔
اس طویل تمہید کا تعلق اس بنیادی سوال سے ہے جو میں نے ابتدا میں اٹھایا۔ عمران خان جب سیاست میں آئے تو ان سے حسنِ ظن رکھنے والوں میں‘ مَیں بھی شامل تھا۔ 2002ء کے انتخابات میں، اپنی افتادِ طبع کے بر خلاف، میں نے کئی دن ان کے ساتھ ان کے حلقۂ انتخاب میں گزارے۔ میں ان دنوں ایک قومی اخبار میں کالم لکھتا تھا۔ شاید اس اخبار کا میں واحد کالم نگار تھا جو ان کے حق میں آواز اٹھاتا تھا۔ اسی دوران میں ان سے طویل مشاورتی مجالس ہوئیں۔ برادرم حفیظ اللہ نیازی، منصور صدیقی اور سیف اللہ نیازی ایسی کئی مجالس میں ساتھ تھے۔
یہ رابطہ ایک عرصے تک باقی رہا۔ اُن کی مصروفیات میں اضافہ ہوا تو اس میں کمی آتے آتے، یہ رابطہ بالکل ختم ہو گیا۔ یہ میرے لیے بہت مشکل تھا کہ مشوروں کی گٹھڑی اٹھائے، ان کے پیچھے پھرتا رہوں۔ اگر کوئی ایک دفعہ فون نہ اٹھائے تو میں فرض کر لیتا ہوں کہ دوسرے کی مصروفیت مانع ہے‘ اور پھر فون نہیں کرتا‘ الا یہ کہ کوئی عزیز دوست یا قرابت دار ہو؛ تاہم عدم رابطے کے باوجود عمران خان سے ایک حسنِ ظن قائم رہا۔ 2013ء کے انتخابات میں میرا ووٹ آبائی حلقے سے راولپنڈی شہر منتقل ہو گیا۔ اتفاق سے عمران خان میرے حلقے سے امیدوار تھے۔ میں گھر سے عمران خان کو ووٹ دینے نکلا۔ یہ الگ بات کہ پولنگ سٹیشن جا کر معلوم ہوا کہ میرا نام ووٹر لسٹ میں موجود نہیں۔
2013ء کی انتخابی شکست کے بعد، میرا تاثر یہ ہے کہ ہم ایک نئے عمران خان سے متعارف ہوئے۔ یہ شکست نرگسیت کے آخری درجے پر فائز ایک شخص کے لیے ایسا گھاؤ ثابت ہوا جس نے اس کی شخصیت کی تار و پود بکھیر دیے۔ نواز شریف ان کے لیے سیاسی حریف سے زیادہ ایک نفسیاتی مسئلہ بن گئے۔ اب ان کا مقصدِ حیات صرف ایک تھا: نواز شریف سے اپنی شکست کا انتقام۔ اس کے لیے انہوں نے ہر کام کیا۔ اس سفر میں کوئی اخلاقی قدر ان کے راستے میں حائل ہو سکی نہ قومی مفاد۔ نئی نسل کے اخلاق کو برباد کرنے سے لے کر، سیاست کے مزاج کو بدلنے تک، انہوں نے ہر وہ کام کیا، جس سے ان کے خیال میں نواز شریف کو راستے سے ہٹایا جا سکتا تھا۔
اس دوران میں، میرے سمیت، بہت سے لوگ انہیں مشورہ دیتے رہے کہ وہ یہ کام ایک اور طرح سے بھی کر سکتے ہیں۔ وہ قوم کو ایک بہتر قیادت فراہم کرکے بھی یہ مقصد حاصل کر سکتے ہیں۔ انتقام کا معاملہ مگر یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے انسان کی اپنی عقل اور اخلاق پر حملہ آور ہوتا ہے۔ ان دونوں کو قربان کیے بغیر انتقام کے راستے میں پیش قدمی ممکن نہیں۔ عمران خان نے ان دونوں سے قطع تعلق کر لیا۔ اس کا افسوسناک انجام یہ ہوا کہ وہ کچھ بھی ہاتھ نہ آیا جس کے لیے انہوں نے عقل اور اخلاق کی قربانی دی۔ لودھراں کے گھروں اور گلیوں سے دراصل یہی آواز اٹھ رہی ہے۔ دیکھیے میرؔ نے اس آواز کو کیسے منظوم کیا ہے:
اُسے ڈھونڈتے میر کھوئے گئے
کوئی دیکھے اس جستجو کی طرف
الیکشن کے بعد عمران خان کے تبصروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے یہ آوازیں سنی نہیں۔ اگر سنی ہیں تو سمجھی نہیں۔ وہ اب بھی اُسی انتقام کے راستے پر سرپٹ دوڑے جا رہے ہیں۔ انتقامی نفسیات کے عین مطابق، ہر شکست ان کے غصے میں اضافہ کر رہی ہے اور اپنا یہ غصہ وہ اپنے چاہنے والوں میں تقسیم کر رہے ہیں۔ گویا اسے ایک سیاسی رویے کے طور پر مستحکم کر رہے ہیں۔ ان کے حامیوں میں بھی نواز شریف کی نفرت اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہے۔ ابھی نیب اور عدالتوں سے ان کی امید باقی ہے۔ اگر وہاں سے بھی انہیں حسبِ خواہش فیصلہ نہ ملا تو مجھے خدشہ ہے کہ ان کی نرگسیت معاشرے میں تصادم کا باعث بنے گی۔
عمران خان کے لیے لودھراں کا سبق یہ ہے کہ ہر اخلاقی قدر کو گنوا دینے کے بعد بھی یہ لازم نہیں کہ قسمت کی دیوی آپ پر مہربان ہو۔ اس کے لیے سیاست کی حرکیات کو سمجھنا ہو گا۔ ان میں سب سے اہم سماج کی اخلاقی و تہذیبی ساکھ کو جاننا ہے۔ بآوازِ بلند دشنام ہمارے اجتماعی اخلاقیات سے ہم آہنگ نہیں۔ جب کوئی سرِِ عام گالیاں دیتا ہے تو مجمع لگ جاتا ہے۔ یہ خیال کرنا سادہ لوحی ہو گی کہ سب داد دینے آئے ہیں۔
شریف خاندان کی سیاست 2018ء میں ختم ہو جاتی اگر عوام کو یقین ہوتا کہ ان کو متبادل قیادت میسر ہے۔ آج شریف خاندان کی سیاسی قوت کے چار اساسات ہیں۔ ان کا ترقیاتی وژن اور اس کے سامنے آنے والے مظاہر، سیاسی حرکیات سے آگاہی، اس تاثر کی عوامی مقبولیت کہ ان کے ساتھ انصاف نہیں ہوا اور متبادل قیادت کی عدم موجودگی۔
عمران خان کو اندازہ ہو جانا چاہیے کہ وہ جو مال بیچنا چاہتے ہیں، اس کے خریدار مسلسل کم ہو رہے ہیں۔ ان کا گلیمر بھی زوال پذیر ہے۔ پانچ سال کے اقتدار اور ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی طرف سے گاڈ فادر قرار دیے جانے کے بعد بھی، نواز شریف کی مقبولیت کا سورج اگر گہنایا نہیں تو اس کا کریڈٹ عمران خان کو جاتا ہے۔ وہ اس ملک کو متبادل قیادت فراہم نہیں کر سکے۔ یہاں ہر کوئی افتادِ طبع کا اسیر ہے۔
ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میر ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے