نواز لیگ اور عدلیہ کا اختلاف، کیا اداروں کے تصادم میں بدل سکتا ہے؟
وزیرِ اعظم شاہد خاقان نے اپنا مقدمہ پارلیمان کے سامنے پیش کر دیا ہے۔ انہوں نے پارلیمنٹ اور حکومت کو عدلیہ کے مقابلے میں ایک فریق کے طور پر پیش کیا ہے۔ ان کی شکایت یہ ہے کہ پارلیمنٹ کا حقِ قانون سازی متأثر ہو رہا ہے۔ یہی نہیں، انتظامیہ بھی عدالتی فیصلوں سے دباؤ کا شکار ہے جس سے امورِ جہاں بانی سرانجام نہیں دیے جا سکتے۔ ان کی تجویز ہے کہ آئین نے سب کے لیے جو حدود طے کر دی ہیں، اس کا خیال رکھا جائے۔ چیف جسٹس نے اُسی روز ایک مقدمے میں جو ریمارکس دیے، بادی النظر میں اسے وزیرِ اعظم کی تقریر کا جواب قرار دیا جا رہا ہے۔ معاملات الجھ رہے ہیں اور سرِ دست سلجھاؤ کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔
ایسی صورتِ حال کے دو ممکنہ حل ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ کوئی ثالث بالخیر مداخلت کرے اورکسی قابلِ عمل حل پر اتفاق ہو جائے۔ ثالث بالخیر ملک کے اندر سے ہو سکتا ہے اور باہر سے بھی۔ ملک کے اندر بدقسمتی سے کوئی ادارہ تو رہا نہیں جو ثالث بننے کی اہلیت رکھتا ہو۔ ہر کوئی تنازعات کی زد میں ہے۔ فرد کوئی دکھائی نہیں دیتا۔ میں یہ نوحہ لکھ چکا کہ ہم میں کوئی مولانا ظفر احمد انصاری موجود نہیں۔ خارج میں البتہ لوگ ہو سکتے ہیں۔ کہتے ہیں چین ایک عرصے سے بلوچ انتہا پسندوں کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے اور ان سے سی پیک کا تحفظ چاہتا ہے۔ ''فنانشل ٹائمز‘‘ نے یہ رپورٹ دی ہے اور ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ حکومتِ پاکستان نے اس کوشش کا خیر مقدم کیا ہے۔ کیا چین یا کوئی اور دوست اس محاذ پر بھی سرگرم ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب شاید آسان نہ ہو۔ دوسری صورت یہ ہے کہ حالات کو فطری بہاؤ کے ساتھ چلنے دیا جائے۔ یہ بہاؤ لازماً کسی حل تک پہنچا دے گا۔
اب آئیے دوسرے حل کی طرف، میں جسے فطری بہاؤ کہہ رہا ہوں۔ یہ کیا ہے؟ اس وقت نواز شریف صاحب نے ایک مقدمہ پیش کیا ہے۔ وہ ایک سیاست دان ہیں اور ان کا دائرہ کار عامۃ الناس ہیں۔ وہ اپنا مقدمہ عوام کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ اس مقدمے کی صحت یا عدم صحت سے قطع نظر، ان کو یہ حق ہے کہ وہ عوام کے سامنے اپنی بات رکھیں۔ عوام سے وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر انہیں نواز شریف کے مقدمے سے اتفاق ہے تو وہ 2018ء کے انتخابات میں، انہیں اتنے ووٹ دیں کہ وہ حسبِ منشا دستور میں تبدیلی لے آئیں۔ گویا یہ ان کا انتخابی منشور ہے۔ ان کا کہنا یہ بھی ہے کہ اگر عوام نے ان کی بات مان لی تو یہ اس کا اظہار ہو گا کہ عوامی سطح پر عدالتی فیصلہ مسترد کر دیا گیا ہے۔
نواز شریف صاحب کے اس موقف سے تو اختلاف کیا جا سکتا ہے‘ لیکن انہیں یہ بات کہنے سے روکا نہیں جا سکتا۔ یہ ان کا آئینی اور جمہوری حق ہے۔ اس وقت تک انہوں نے عدالتوں کے فیصلوں سے اختلاف کیا ہے‘ لیکن ان کے وجود سے انکار نہیں کیا۔ وہ ان عدالتوں کے سامنے پیش ہو رہے ہیں اور انہی سے انصاف کے طلب گار ہیں۔ اگر وہ توہینِ عدالت کے مرتکب ہیں تو عدالت یہ حق رکھتی ہے کہ ان کے خلاف فیصلہ دے۔ ابھی تک نواز شریف صاحب نے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا جس پر اعتراض کیا جا سکے۔ اعتراض موقف پر ہو سکتا ہے اور وہ لوگ کر رہے ہیں۔
اس معرکے میں ایک فریق دیگر سیاسی جماعتیں ہیں۔ ان کے پاس دو راستے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اس موقف کی تائید کریں۔ دوسرا یہ کہ اس سے اختلاف کریں۔ دوسری صورت میں ان کے پاس آئینی راستہ یہ ہے کہ وہ بھی عوام کے پاس جائیں اور نواز شریف صاحب کو غلط ثابت کریں۔ اگر عوام ان کے موقف کو درست سمجھیں گے تو اگلے انتخابات میں، جو چار ماہ کی مسافت پر ہیں، نواز شریف صاحب اور ان کی جماعت کو مسترد کر دیں گے۔ عمران خان نے یہ کہا ہے کہ وہ عدالت کے حق میں عوام کو سڑکوں پر نکالیں گے۔ اگر اس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ عدالت کے باب میں نواز شریف کے موقف کے خلاف رائے عامہ کو قائل کریں گے تو اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ اگر لوگ ان کی بات سے اتفاق کریں گے تو عام انتخابات میں ان کے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے۔ اس کے علاوہ عمران خان کے پاس بھی کوئی آئینی راستہ نہیں ہے۔
ایک فریق پارلیمنٹ بھی ہے۔ اگر پارلیمنٹ یہ سمجھتی ہے کہ عدالتی فیصلے اس کے حقِ قانون سازی کو متاثر کر رہی ہے تو وہ اس پر کوئی موقف اختیار کر سکتی ہے۔ اگر پارلیمنٹ سپریم ہے تو پھر اس کی بات کو مقدم سمجھا جانا چاہیے۔ جمہوریت کی روح یہی ہے۔ تاہم یہ بات عملاً اس لیے زیادہ اہم نہیں ہے کہ موجودہ پارلیمان چند ماہ کی مہمان ہے۔ یہ وقت شاید اسی بحث ہی میں گزر جائے۔ ایک صورت میں پارلیمان کو فوری طور پر متحرک ہونا ہو گا۔ وہ یہ کہ کسی عدالتی فیصلے کی روشنی میں اگر سینیٹ کے انتخابات متاثر ہوتے ہیں۔ اگر کسی عدالتی فیصلے کے نتیجے میں نواز شریف صاحب کا وہ حق کالعدم قرار دے دیا جا تا ہے جس کے تحت انہوں نے سینیٹ کے ٹکٹ جاری کیے ہیں تو معاملہ گمبھیر ہو جائے گا۔ اس صورت میں نواز لیگ سینیٹ کے انتخابات سے باہر ہو جائے گی۔ ظاہر ہے کہ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہو گا۔ اس پر تو پارلیمان کو فوری طور پر کوئی موقف اختیار کرنا ہو گا۔
اس معرکے میں ایک فریق حکومت بھی ہے۔ حکومت کا موقف یہ ہے کہ عدالتی فیصلوں کے نتیجے میں حکومت اور انتظامیہ مفلوج ہو رہی ہے۔ ان کے لیے کام کرنا ممکن نہیں رہا۔ اس شکایت کے ازالے کے لیے بھی انہیں عدالت ہی کے پاس ہو جانا ہو گا۔ اگر یہاں سے انہیں حسبِ منشا فیصلہ نہیں ملتا تو پھر ان کے لیے دو راستے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اپنا مقدمہ عوام کے سامنے رکھیں اور اگلے انتخابات کے بعد ایسے قوانین کو بدل ڈالیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ استعفیٰ دے دیں۔ تیسری صورت تو مشرف جیسے کسی فوجی آمر ہی کے پاس ہو سکتی ہے کہ جج حضرات ہی کو گھر بھیج دے۔ سیاسی حکومت کے پاس یہ راستہ موجود نہیں ہے۔
سیاست کا فطری بہاؤ اگر برقرار رہتا ہے تو اس قضیے کا فیصلہ عام انتخابات ہی میں ہو گا۔ اس سے پہلے کچھ نہیں ہو سکتا۔ اگر نواز شریف صاحب کو سزا دی جاتی ہے تو اس سے حالات گمبھیر ہو سکتے ہیں؛ تاہم اس کا اثر عام انتخابات کے نتائج ہی پر پڑے گا۔ یہ طاقت کا کھیل ہے۔ اس میں سیاست دان کے پاس ایک ہی ہتھیار ہے: عوامی تائید۔ نواز شریف ہوں یا سیاسی حکومت، انہیں عام ہی کے پاس جانا ہو گا۔
دیگر سیاسی جماعتوں کو سوچنا ہے کہ انہیں کیا کرنا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کے پاس بھی یہی راستہ ہے کہ وہ عوام کے پاس جائیں۔ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ عدلیہ کا کردار درست ہے اور نواز شریف غلطی پر ہیں تو عوام کے سامنے یہ مقدمہ پیش کر دیں۔ اگر حالات کے فطری بہاؤ کو جاری رہنا ہے تو منطقی نتیجہ یہی ہے۔ اب اگر ثالث بالخیر کوئی کردار ادا کرتا ہے تو پھر وہی ہو گا جو ثالث تجویز کرے گا۔ میرا رجحان یہی ہے کہ سیاست کو اس کے فطری بہاؤ کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔
ایک بات البتہ تمام فریقوں کو یاد رکھنی چاہیے۔ تاریخ کا ایک پہلو ما بعد الطبیعیاتی بھی ہے۔کچھ فیصلے کہیں اور بھی ہو رہے ہوتے ہیں۔ تاریخ کے اوراق پلٹے جائیں تو ان فیصلوں کو پڑھا جا سکتا ہے۔ نطشے کا مقدمہ بارہا غلط ثابت ہو چکا۔ خدا اس کائنات کو بنا کر اس سے غیر متعلق نہیں ہوا۔ اس زمین پر کوئی قادرِ مطلق نہیں۔ افسوس یہ ہے کہ لوگ اس کو نظر انداز کرتے اور پھر اسی کا شکار ہوتے ہیں۔