2013ئ، عمران خان کی زندگی میں غیر معمولی تغیرات کا سال ہے۔ شکست کا شدید احساس ان کے دامن گیر ہوا۔ شدید دکھ یا انتہا کی خوشی، آزمائش کا وہ لمحہ ہے جب انسان کی اصل شخصیت کا ظہور ہوتا ہے۔ عمران خان کی پوری شخصیت انتخابات کے بعد ہمارے سامنے تھی۔
مزاجاً وہ جنگجو ہیں ۔ شکست انہیں قبول نہیں ہوتی۔ ان کا خیال ہے کہ محنتِ شاقہ سے ہر خواہش واقعہ بن سکتی ہے۔ کرکٹ کے تجربات کو، ان کا اندازہ ہے کہ سیاست میں بھی دھرایا جا سکتا ہے۔ اپنی کتاب میں وہ ان تجربات کا ذکر کرتے ہیں۔ عمران کے بارے میں لوگوں کا خیال تھا کہ وہ فاسٹ بالر نہیں بن سکتے۔ انہوں نے دن رات محنت کی۔ انگریز دیکھتے تو ہنس دیتے۔ انہوں نے مگر ہار نہیں مانی۔ یوں اپنی محنت سے فاسٹ بالر بن کے دکھا دیا۔
2011ء میں عمران نے خیال کیا کہ اپنی محنت سے انہوں نے سیاست کو بھی بدل ڈالا ہے۔ کرکٹ کی تاریخ اب سیاست میں بھی دھرائی جائے گی۔ 2013ء ان کی پہلی بڑی آزمائش تھی۔ کرکٹ کی اصطلاح میں، یہ ان کا پہلا ٹیسٹ تھا اور وہ پُرعزم تھے کہ جیت ان کی ہو گی۔ انتخابات کے نتائج سامنے آئے تو وہ ان کے لیے انتہائی غیر متوقع تھے۔ ان کا پہلا ردِ عمل یہ تھا کہ دھاندلی ہوئی ہے‘ ورنہ ان کی جیت یقینی تھی۔ اس احساس نے ان پر غلبہ پا لیا کہ وہ ہارے نہیں، انہیں ہرایا گیا ہے۔ یہ ماننے میں انہیں چند سال لگے کہ انتخابات کے لیے ان کی حکمت عملی موزوں نہیں تھی۔ 2018ء کے انتخابات کے لیے، وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے یہ حکمت عملی بدل دی ہے۔
انتخابی نتائج پر ان کا ابتدائی ردِ عمل یہ ظاہر کرتا ہے کہ غصے نے اُن پر غلبہ پا لیا‘ اور اس کا ظہور نواز شریف کے خلاف شدید نفرت کی صورت میں ہوا۔ انہوں نے یہ خیال کیا کہ یہی وہ شخص ہے جس نے ان کی کامیابی کو ناکامی میں بدلا ہے۔ نواز شریف کی بربادی، اب ان کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد بن گیا۔ کچھ لوگ پہلے ہی اس مقصدِ حیات کے ساتھ جی رہے تھے‘ اور بطور متبادل ان سے امیدیں وابستہ کیے ہوئے تھے۔ مقصد کے اشتراک نے دونوں کو مزید قریب کیا۔ دھرنا اسی قرب کا اظہار تھا۔
2014ء کے بعد واقعات جس تیزی کے ساتھ آگے بڑھے، ان سے ایک بات کی تصدیق ہوتی ہے: انسانی شاکلہ کبھی تبدیل نہیں ہوتا۔ خوش قسمتی سے کوئی مخلص مربّی اور نیک صحبت میسر آ جائے تو انسانی شخصیت کو مثبت رخ دیا جا سکتا ہے۔ میرا احساس ہے کہ پروفیسر رفیق اختر صاحب کی صورت میں انہیں ایک مربّی ملا مگر انہوں نے کم از کم دوسری بار یہ موقع گنوا دیا۔
ایسی افتادِ طبع کے لیے ایک صوفی سے موزوں تر استاد کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا۔ یہ عمران خان کی خوش قسمتی تھی کہ وہ پروفیسر رفیق اختر صاحب تک پہنچ گئے۔ صوفی، ایک نفسیاتی معالج کی حیثیت سے، راہِ گم کردہ لوگوں کے لیے امید کی ایک کرن ہوتا ہے۔ پروفیسر صاحب نے خود کو روایت سے وابستہ رکھا ہے۔ وہ ہر آدمی کو امید دلاتے ہیں‘ لیکن ساتھ یہ توجہ بھی کہ انسان معرضِ آزمائش میں ہے اور اسے عمر بھر ایک سوال کا سامنا رہتا ہے: خدا اس کی ترجیحات میں کہاں ہے؟ وہ کامیاب اسی صورت میں ہو گا‘ جب خدا اس کی پہلی ترجیح بن جائے گا۔
پروفیسر صاحب کے ہاں کرامات کا گزر نہیں۔ وہ اسمائے حسنیٰ کی تسبیحات سے لوگوں کے داخلی تضادات کا علاج کرتے ہیں۔ ہماری روایت میں یہ کوئی اجنبی رویہ نہیں۔ قریب ترین دور میں شاہ ولی اللہ کے ہاں اس کے نظائر موجود ہیں۔ پروفیسر صاحب نے اپنی محنت سے اسماء کے علم کو آگے بڑھایا ہے‘ جسے وہ اکتسابی کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ابن عربی کے بعد، وہ پہلے آدمی ہیں جنہوں نے اس علم کو فروغ دیا۔ روایت سے وابستگی کا فائدہ یہ ہے کہ ایک عامی کے بنیادی دینی تصورات میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا‘ الا یہ کہ وہ تصوف کی فلسفیانہ تعبیرات میں الجھ جائے۔ عام آدمی میں چونکہ اس کا ذوق نہیں ہوتا‘ اس لیے وہ تصوف کے مضر پہلو سے محفوظ رہتا ہے۔
عمران خان جیسی افتادِ طبع کے لیے پروفیسر صاحب کی صحبت مفید ہو سکتی تھی۔ بد قسمتی سے پروفیسر صاحب سے ان کا تعلق سماجی اور سیاسی دائرے ہی تک محدود رہا، روحانی نہیں بن سکا۔ ہمارے ہاں جب کوئی شخصیت مرجع خلائق بنتی ہے تو دنیا دار طبقہ اپنی اپنی خواہشات کے ساتھ اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔ پروفیسر صاحب کے سالانہ خطبے میں اہلِ سیاست و دنیا جمع ہوتے ہیں۔ انہیں خطبے سے کوئی دلچسپی ہوتی ہے‘ نہ خدا کو پہلی ترجیح بنانے سے، الا ماشااللہ۔ عمران بھی ایک دور میں اس پروگرام میں شریک ہوتے رہے اور ان سے ملتے بھی رہے۔ میرا تاثر ہے کہ وہ پوست ہی تک محدود رہے، مغز تک نہیں پہنچ سکے۔ وہ یہاں تادیر رک نہیں سکے۔ کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ گوجر خان میں ان کے لیے کچھ باعثِ کشش نہ تھا ؟ کیا اُن کی اصل منزل پاک پتن تھی؟
یہاں نہ ٹھہرنے کی ایک وجہ سیاسی بھی ہو سکتی ہے۔ پروفیسر صاحب کے سیاسی مشورے شاید ان کے لیے قابلِ قبول نہیں تھے۔ پروفیسر صاحب سیاسی گروہ بندی سے دور رہتے ہیں لیکن اپنے سیاسی خیالات کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں۔ وہ شریف برادران کے ترقی کے منصوبوں کی تحسین کرتے ہیں اور عمران خان کی سیاست کے ناقد ہیں۔ یو ٹیوب پر ان کی کئی تقاریر موجود ہیں جن سے ان کے سیاسی خیالات معلوم کیے جا سکتے ہیں۔ ان خیالات کا تعلق، زیادہ تر 2013ء کے بعد کے دنوں سے ہے، جب عمران سے ان کا سماجی تعلق بھی باقی نہیں رہا؛ تاہم یہاں نہ ٹھہرنے کے اصل اسباب سیاسی نہیں۔ یہ ایک ضمنی سبب ہو سکتا ہے۔
عمران خان جس روحانیت سے متاثر ہیں، اس کا پروفیسر صاحب کے ہاں زیادہ گزر نہیں۔ یہاں کوئی کرامت ہے‘ نہ وظیفوں سے مقدر بدلنے کی یقین دہانی۔ اس لیے گوجر خان ان کا پڑاؤ ہو سکتا تھا، منزل نہیں۔ وہ جس روحانیت سے متاثر تھے، اس میں مافوق العادت معاملات کا ہونا ضروری تھا۔ میاں بشیر صاحب نے ابتدا میں ان پر جو اثر ڈالا، وہ ختم نہیں ہوا۔
سیاست میں آنے کے بعد، اصلاح کی خواہش، اقتدار کی بے لگام اشتہا میں بدل گئی۔ دنیاوی اسباب کے ساتھ، اس افتادِ طبع کو اگر مافوق الاسباب نصرت کی یقین دہانی مل جائے تو یہ سونے پر سہا گا ہے۔ جب ایسا مزاج کسی خواہش کی شدید گرفت میں ہو تو آکسفورڈ کی تعلیم، غیر منطقی سوچ کے راستے میں حائل نہیں ہوتی۔ بے نظیر صاحبہ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ پھر عملیات، جنات، خواب اور اس نوعیت کے سہارے بہت اہم دکھائی دیتے ہیں۔
یہ سارے سہارے پاک پتن میں جمع ہو گئے۔ ذات اور سیاست کے مطالبات یکجا ہو گئے۔ یہاں خوابوں کے زیرِ اثر نکاح و طلاق سمیت، ہر طرح کے فیصلے ہوتے ہیں۔ عمران خان کا تیسرا نکاح بھی ایک روحانی اشارے پر ہوا۔ حال ہی میں سامنے آنے والی ویڈیوز سے معلوم ہوتا ہے کہ عمران اب پوری طرح اپنے روحانی پیشوا کی گرفت میں ہیں۔ جہاں وہ سر رکھنے کو کہیں، یہ سوچے سمجھے بغیر اپنا سر رکھ دیتے ہیں۔ جیسے اور جس کونے میں وہ بٹھا کر دعا کرنے کا حکم دیں، یہ ویسے ہی ہاتھ اٹھا دیتے ہیں۔ یہ ایک عامل اور معمول کا تعلق ہے۔ تصوف کی روایت میں بھی، شیخ کے ساتھ اسی طرح کا رشتہ ہوتا ہے۔ یہاں سیدنا موسیٰؑ کی طرح جواز نہیں پوچھا جاتا، اتباع کی جاتی ہے۔
عمران خان کا یہ روحانی سفر، پریشان کن ہے۔ ایک آدمی جو سماج کے لیے مفید ہو سکتا تھا، اپنے تضاذات کی نذر ہو گیا۔ پھر یہ کہ وہ قومی راہنما بھی ہیں۔ اگر انہیں وزارتِ عظمیٰ مل گئی تو امکان ہے کہ وہ اسے اہلیہ کی روحانیت کا فیض سمجھیں گے۔ یوں عامل کی گرفت مزید سخت ہو جائے گی۔ کیا ہم پر وہ دن آ سکتا ہے کہ ایک معمول، عامل سے پوچھ کر ریاستی امور کے فیصلے کرے؟
اپنے نفسیاتی مسائل کا حل تلاش کرتے کرتے، مجھے اندیشہ ہے کہ عمران خان ایک کھائی میں گر گئے ہیں۔ کاش کوئی خیر خواہ انہیں متنبہ کر سکتا!