کیا آج کسی کو 2013ء کا انتخابی منظر نامہ یاد ہے؟ کیا مسائل تھے جن کا قومی سطح پر شور تھا؟
میں یاد دلاتا ہوں۔ توانائی کا بحران اور دہشت گردی۔ ان دو مسائل نے پورے ملک کو اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔ انتخابی مہم انہی مسائل کے گرد گھوم رہی تھی۔ چونکہ ماضی قریب کا معاملہ ہے اس لیے امر واقعہ کے بیان میں زیادہ مبالغہ آمیزی کی گنجائش نہیں۔ کوئی بیس گھنٹے کہہ لے یا اٹھارہ، دن کا زیادہ وقت بجلی اور گیس کے بغیر گزرتا تھا۔ صنعت کا پہیہ چل رہا تھا‘ نہ گھر کا چولہا۔
دہشت گردی آسیب کی طرح اس ملک کے ساتھ لپٹی ہوئی تھی۔ پورا ملک خوف کی فضا میں جی رہا تھا۔ قوم نفسیاتی مریض بن چکی تھی۔ دہشت گردی محض ایک مسئلہ نہیں ام المسائل ہے۔ اس کی کھوکھ سے بد امنی، فساد، مذہب کا سوئے استعمال، سیاسی عدم استحکام، معاشی ابتری، نہ جانے کون کون سے مسائل جنم لیتے ہیں۔ ہمارا آنگن دہشت گردی کے بچوں سے بھر چکا تھا۔ گھر کے اصل مکینوں کے لیے کوئی جگہ باقی نہیں تھی۔ جس کے بس میں تھا‘ وہ گھر چھوڑ گیا۔ جو کہیں نہیں جا سکا، اس نے خوف کی چادر اوڑھ لی یا غصے کا جامہ پہن لیا۔ ملک، مذہب، عوام، سب دہشت گردی کا شکار ہوئے۔
2018ء کی انتخابی مہم میں مگر ان مسائل کا ذکر نہیں۔ میں نے کسی لیڈر کی کوئی تقریر نہیں سنی جس میں اس نے وعدہ کیا ہو کہ وہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کر دے گا۔ کہیں کوئی اشتہار نہیں دیکھا جس میں اس مسئلے کو نمایاں کیا گیا ہو۔ کوئی منشور نہیں جس میں اسے مرکزیت حاصل ہو۔ ایسا کیوں ہے؟ بجلی کی لوڈ شیڈ نگ ختم ہو گئی یا ہماری سیاسی قیادت کی بصیرت؟ اگر لوڈ شیڈنگ ختم ہو گئی یا اتنی کم ہو گئی کہ ناقابلِ ذکر ہے تو پھر اس کا کریڈٹ کس کو جاتا ہے؟ کیا جن آئے تھے جنہوں سے آسمان کی وسعتوں میں پھیلے بادلوں کو پکڑا، نچوڑا اور ان میں چھپی بجلی کو پاکستان کی فضاؤں میں برسا دیا؟
اگر ایسا نہیں ہوا اور بحران موجود ہے تو ہماری سیاسی قیادت کو کیا ہو گیا؟ وہ اتنے بڑے مسئلے کا ذکر کیوں نہیں کرتی؟ کیا انہیں صنعت کی فکر نہیں جس کا پہیہ بجلی کے بغیر نہیں چل سکتا؟ کیا انہیں عام شہری کے مسائل کا ادراک نہیں جس کا چولہا سرد ہے؟ کیا اس ملک کے عام شہری کو اہلِ سیاست سے نہیں پوچھنا چاہیے کہ آپ ہمارے اتنے بڑے مسئلے کو کیوں مخاطب نہیں بنا رہے؟
لوگوں کے پاس ان سوالات کے جواب موجود ہیں مگر وہ لب نہیںکھولتے۔ ہر آدمی جانتا ہے کہ بجلی کی کمی آج ہمارا مسئلہ نہیں۔ گزشتہ حکومت نے شدید مزاحمت کے باوجود اپنا وعدہ پورا کیا۔ ملک اور عوام کو درپیش ایک بڑے مسئلے کو نہ طرف مخاطب بنایا بلکہ حل بھی کیا۔ لوڈ شیڈنگ پوری طرح ختم نہیں ہوئی مگر بحران ختم ہو گیا۔ اگر کہیں ہے بھی تو ناقابلِ ذکر۔ سب جانتے ہیں کہ بجلی کی ترسیل کے معاملات ابھی حل طلب ہیں‘ لیکن ہمارے پاس اتنی بجلی آ چکی‘ جو ہماری ضرورت کے لیے کفایت کرتی ہے۔ یہ جنّات کا کمال نہیں، ان انسانوں کا کام ہے جن پر قوم نے 2013ء میں اعتماد کیا۔
دہشت گردی بھی کم و بیش ختم ہو چکی۔ منگل کی شب پشاور میں جو حادثہ ہوا، اس نے پوری قوم کو سوگوار کر دیا۔ پورا پاکستان دکھی ہے۔ یہ بلا شبہ دہشت گردی ہے لیکن یہ اب اکا دکا واقعات کی صورت میں باقی ہے۔ اس طرح کی کوئی لہر کہیں موجود نہیں۔ دہشت گردوں کے ٹھکانے برباد ہو چکے اور انشااللہ اب وہ کبھی منظم نہیں ہو سکیں گے۔ مجھے یہ تشویش ضرورت لاحق ہے کہ انتہا پسندی کے مراکز بدستور موجود ہیں جو دہشت گردی کی نرسریاں ہیں۔ ان کے ہوتے ہوئے کسی وقت یہ عفریت ایک بار پھر زندہ ہو سکتا ہے۔ افسوس کہ ریاست انتہا پسندی کو ختم کرنے میں ابھی تک کامیاب نہیں۔ فکری افلاس اس کی بڑی وجہ ہے۔ اللہ کرے کہ اس کا بھی تدارک ہو۔
اس کے ساتھ بہرحال یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ دہشت گردی کے مراکز ختم ہو گئے۔ اس کریڈٹ میں بلا شبہ فوج شریک ہے۔ فوج کے جوان تو خیر ہر لمحہ پاکستان کی حفاظت کے لیے سربکف رہتے ہیں۔ اس معرکے میں بھی انہوں نے جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ ہماری سیاسی قیادت البتہ اس سے پہلے قائدانہ کردار ادا نہ کر سکی۔ 2014ء میں حکومت نے اسے اپنا سب سے بڑا مسئلہ بنایا۔ اہلِ سیاست کو جمع کیا۔ قومی اتفاقِ رائے پیدا کیا۔ نیشنل ایکشن پلان بنایا۔ نیکٹا جیسا ادارہ قائم کیا۔ فوج کو آپریشن کے لیے اربوں روپے کے وسائل فراہم کیے۔ یہ کریڈٹ سیاسی حکومت کا ہے جس کے قائدانہ کردار کے باعث پاکستان کے عوام نے سکھ کا سانس لیا۔
2018ء کی انتخابی مہم میں یہ دونوں مسائل مرکزی اہمیت نہیں رکھتے۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم ان بحرانوں سے نکل چکے۔ کوئی منصف مزاج آدمی اس کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس کا کریڈٹ نون لیگ کی حکومت کو جاتا ہے۔ یہ ہم جانتے ہیں کہ 2014ء کے بعد ایک منظم مہم کے تحت، حکومت کو سلامتی کے بحران میں مبتلا کیا گیا۔ عمران خان نے ایک روایتی سیاست دان کی طرح یہ چاہا کہ حکومت کام نہ کر سکے تاکہ عوام میں اس کی پزیرائی ختم ہو۔ دیگر عناصر نے اپنے اپنے ایجنڈے کے تحت، اُن کی پشت پنائی کی۔ اس کے باوجود حکومت اصل مسائل کو حل کر نے میں کامیاب رہی۔
نواز شریف صاحب نے چاہا تھا کہ 2013ء کے بعد ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہو۔ انہوں نے کوئی ایک ایسا قدم نہیں اٹھایا جس کا مقصد کسی سیاسی جماعت یا صوبے کو کام سے روکنا ہو۔ خیبر پختون خوا کی حکومت کو کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کر نا پڑا۔ مرکزی حکومت نے کوئی ایسی حکمت عملی نہیں بنائی جس کا مقصد کسی ریاستی ادارے کے کام میں خلل ڈالنا ہو۔ اگراس مثبت اندازِ نظرکو دوسرے فریق کا تعاون بھی مل جاتا تو آج پاکستان ایک مضبوط جگہ کھڑا ہوتا۔ اگر ایسا ہوتا تو آج انتخابی مہم ایک مثبت ایجنڈے پر استوار ہوتی۔ لوگ سیاسی جماعتوں کی کارکردگی کا موازنہ کر رہے ہوتے۔کوئی ادارہ بھی زیرِ بحث نہ ہوتا۔ افسوس کہ ایسا نہیں ہو سکا۔
آج پاکستان ایک نئے بحران کے دروازے پر کھڑا ہے۔ انتخابات کے بعد بھی سیاسی استحکام دکھائی نہیں دے رہا۔ دوسری طرف انتخابات کو روکنا ایک نئے بحران کو دعوت دینا ہے۔ نون لیگ جیت جاتی ہے تو سول بالا دستی کا مسئلہ پھر سر اٹھائے گا۔ عدلیہ بھی موضوع بنے گی۔ نواز شریف کو روکا نہیں جا سکتا کہ وہ ایک عوامی لیڈر ہیں۔ وہ جتنے دن جیل میں رہیں گے، حکومت پر دباؤ رہے گا۔ منتخب حکومت کے لیے تو یہ انسانی اور سیاسی حقوق کا مسئلہ بن جائے گا۔
عمران خان انتخابات میں کامیاب ہوتے ہیں تو انہیں نون لیگ کی مضبوط اپوزیشن کا سامنا ہو گا۔ مجھے دکھائی دیتا ہے کہ 2014ء کے بعد کی تاریخ دہرائی جائے گی۔ انہوں نے نون لیگ کو چین سے حکومت نہیں کرنے دی تو وہ کیوں کرنے دیں گے؟ اگر عمران انتخابات میں ہار جاتے ہیں تو نئے نفسیاتی اور سیاسی بحران پر قابو پانا، ان کے لیے ممکن نہیں ہو گا۔ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن۔
آج پاکستان کو اس بحران تک کس نے پہنچایا؟ رائے سازوں کو یہ جائزہ لینا چاہیے کہ نواز شریف نے پانچ سالوں میں ملک کو کیا دیا اور عمران خان نے کیا دیا؟ نواز شریف نے بطور حکمران اپنی ذمہ داری کس حد تک پوری کی اور عمران خان نے بطور اپوزیشن لیڈر اپنا کام کس دیانت داری سے کیا؟ انتخابی مہم میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور دہشت گردی کا کیوں ذکر نہیں؟ 2018ء میں 'پاکستان کی ترقی‘ انتخابی مہم کا مرکزی ایجنڈا کیوں نہ بن سکا؟ بھارت جیسے ملک میں، جو داخلی تضادات میں لتھڑا ہوا ہے، وہاں اگر 'شائننگ انڈیا‘ جیسے نعروں پر الیکشن ہو سکتے ہیں تو ہمارے ہاں 'ابھرتا پاکستان‘ جیسے نعرے پر انتخابات کیوں نہیں ہو سکتے؟ ہمارا قومی ایجنڈا کب سیاسی کے بجائے ترقیاتی بنے گا؟ کس نے تعمیری اور کس نے تخریبی سیاست کی؟
2018ء کے انتخابات سے پہلے، قوم کو ان سوالات کے جواب ملنے چاہئیں۔ یہ جواب اُن پر قرض ہیں جن کی طرف دانش وری کی نسبت کی جاتی ہے۔