انتخابات ہو چکے۔ نتائج تشکیک اور اعتراضات کی زد میں ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ جو ہوا، سو ہوا۔ اب ہمیں آگے کی طرف دیکھنا چاہیے۔ راکھ کریدنے سے کیا حاصل۔ یہ وہی فلسفہ ہے، چوہدری شجاعت حسین صاحب نے دو لفظوں میں جس کا مکمل ابلاغ کر دیا: 'مٹی پاؤ‘۔
اس میں کیا شبہ ہے کہ مستقبل ہی کی طرف دیکھنا چاہیے، مگر کیا ماضی سے بے نیاز مستقبل کا کوئی تصور قابلِ قبول ہو سکتا ہے؟ جن کا ماضی نہ ہو، کیا ان کا کوئی مستقبل ہوتا ہے؟ اس میں شبہ نہیں کہ زندگی کسی ایک واقعے کی اسیری میں نہیں گزاری جا سکتی‘ مگر کوئی واقعہ ایسا بھی ہوتا ہے‘ جو زندگی پر غیر معمولی اثرات مرتب کرتا ہے۔ یہ اثرات اگر منفی ہوں تو اس کا تجزیہ لازم ہے۔ جب ہم ایسے واقعات کو نظر انداز کرتے ہیں تو پھر وہی غلطی بار بار دہراتے ہیں۔ یوں زندگی دائرے کا سفر بن جاتی ہے۔ زندگی کا فطری راستہ سیدھا ہے۔ صراطِ مستقیم۔ وہی قوم ترقی کر سکتی ہے جو سیدھے راستے پر چلتی ہے۔
ستر سال سے ہم دائرے میں سفر کر رہے ہیں۔ سیاسی حرکیات میں کوئی جوہری تبدیلی نہیں آئی۔ جن عناصرِ ترکیبی سے 1950ء کی دہائی کا منظرنامہ ترتیب پایا تھا، آج کے سیاسی ماحول کی تشکیل میں بھی وہی فیصلہ کن ہیں۔ چہرے بدل گئے ہیں مگر کردار نہیں بدلے۔ جاگیرداری موجود ہے، جاگیردار بدل گیا ہے۔ ملائیت موجود ہے، ملا تبدیل ہو گیا ہے۔ پیری موجود ہے، پیر آج کوئی اور ہے۔ جسم وہی ہے، لباس بدل گیا ہے۔ جب عوامل نہیں بدلے تو نتائج کیسے بدل سکتے ہیں؟ 1950ء میں جو عدم استحکام تھا، وہ آج تک ہمارا ہم سفر ہے۔
دائرے کے اس سفر سے نکلنے کے لیے 'مٹی پاؤ‘ فلسفہ ہماری مدد نہیں کر سکتا۔ اس کے لیے ماضی کا تجزیہ ضروری ہے۔ 2018 ء کے انتخابات کا تجزیہ کیے بغیر اگر ہم نے آگے بڑھنے کی کوشش کی تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم دائرے کے سفر پر قانع ہیں۔ یہ قناعت ہمیں زندگی کے سفر سے باہر کر سکتی ہے۔ پھر یہ کہ زمانے کا سفر ایک خاص سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔ اس کی منزل جمہور کا حقِ اقتدار ہے۔ ہمیں اگر زمانے کا ساتھ دینا ہے تو پھر دائرے کے اس سفر سے نکلنا لازم ہے۔
جدید فلسفے کی دنیا میں ہیگل پہلا آدمی ہے جس نے واقعات کی تعبیر میں 'تاریخی شعور‘ (Historical Consciousness) کو مرکزی حیثیت دی۔ اس سے پہلے فلسفہ کانٹ کے زیرِ اثر تھا جو واقعات کو آفاقی اور ما بعدالطبیعیاتی پس منظر میں دیکھ رہا تھا۔ ہیگل نے تبدیلی کو بنیادی اہمیت دیتے ہوئے یہ کہا کہ کوئی فلسفہ کسی غیر متبدّل اصول کے تابع نہیں ہوتا۔ ہر واقعے کی تعبیر تاریخی عوامل کے تحت ہوتی ہے۔ واقعات ایک عمل کا ردِ عمل پیدا کرتے ہیں جو اس سے مختلف ہوتا ہے لیکن پھر عمل اور ردِ عمل کے اشتراک سے ایک نیا واقعہ وجود میں آتا ہے۔ یہی وہ فلسفہ ہے جسے مارکس نے آگے بڑھایا اور تاریخ کی ایک جدلیاتی تعبیر کی۔ یہ کہا جاتا ہے کہ ہیگل نہ ہوتا تو مارکس بھی نہ ہوتا۔
میں ہیگل کے اس فلسفے کو درست سمجھتا ہوں۔ میرے نزدیک آج کے واقعات کی تعبیر ایک تاریخی تسلسل ہی میں ہو سکتی ہے۔ مارکس کے ہاں یہ طبقاتی کشمکش ہے۔ ہمارے خیال میں ممکن ہے کہ اس کا سبب کچھ اور ہو مگر یہ سبب جو بھی ہو، اس کو تاریخی شعور کے تحت ہی سمجھا جائے گا۔ اس کے برخلاف، 'مٹی پاؤ‘ کا فلسفہ یہ تاکید کرتا ہے کہ ماضی کی نفی کرتے ہوئے، زندگی کو آج سے شروع کیا جائے۔
میں نئی سیاسی تبدیلیوں کو عمران خان یا نواز شریف کے پس منظر میں نہیں دیکھ رہا۔ میں اسے اپنے تاریخی شعور کے ساتھ سمجھنے کی کوشش میں ہوں۔ میرا نتیجۂ فکر یہ ہے کہ ان انتخابات کے نتیجے میں، ملک میں کوئی جوہری تبدیلی نہیں آئی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ جو عوامل تاریخی طور پر سیاسی منظرنامے کی تشکیل کرتے ہیں، وہ اپنی جگہ برقرار ہیں۔ ان کو تبدیل کیے بغیر تبدیلی کا صرف خواب دیکھا جا سکتا ہے۔
اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ آنے والا کل ہر اعتبار سے ماضی ہی کا پرتو ہو گا۔ ظاہر ہے کہ زندگی تھمی نہیں اور وہ فطری طور پر بقا کے لوازم تلاش کرتی ہے۔ ہم ان کو بنیاد بنا کر یہ یقین کر لیتے ہیں کہ تبدیلی آ گئی ہے۔ اسی سادہ لوحی کے سبب لوگ ایوب خان، ضیاالحق اور مشرف دور کے بعض واقعات کو بطور ثبوت پیش کرتے ہوئے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے ادوار میں معاشی ترقی ہوئی۔ اس سے پھر یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ فوجی حکمران عوامی سیاست دانوں سے بہتر حکمران ہوتے ہیں۔
یہ واقعات اپنی جگہ درست ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایوب خان کے دور میں ڈیم بنے یا مشرف کے دور میں معیشت مستحکم رہی۔ ان واقعات سے مگر جو نتیجہ برآمد کیا جاتا ہے، وہ چونکہ تاریخی شعور کے بغیر ہے، اس لیے درست نہیں۔ زندگی کو جب ہم ایک سیاسی، سماجی اور معاشی اکائی کے طور پر دیکھتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ آمریت کس طرح زندگی کو اس کے اصل جوہر سے محروم کر دیتی ہے۔ جب ہم زیاں کا اندازہ کرتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ آمریت زندہ معاشروں کے لیے زہرِ قاتل ہے۔ یہ میرے جوہرِ انسانیت کی توہین ہے۔ معاشی خوش حالی اگر اس قیمت پر آتی ہو تو اس کی قبولیت مجھے حیوان کے درجے پر لے آتی ہے۔
پاکستان کو آگے بڑھنا ہے۔ انتخابات ہو چکے۔ اس کے نتائج بھی سامنے آ چکے۔ ہم نے اب ان کو سامنے رکھتے ہوئے پیش رفت کرنی ہے۔ اس کی عملی صورت یہ ہے کہ معاشرے کو کسی اضطراب میں مبتلا کیے بغیر ہم اپنے تاریخی شعور کی آبیاری کریں۔ ہم انتخابی عمل کا تجزیہ کریں۔ ہم اس واقعات کو کریدیں کہ ہم ان نتائج تک کیسے پہنچے؟ کون کون سی قوتیں تھیں جو ان نتائج پر اثر انداز ہوئیں؟ کیا عوامی شعور بیدار ہوا؟ کیا 'سٹیٹس کو‘ کی نمائندہ قوتوں نے ان نتائج کو ترتیب دیا؟ کیا انتخابی عمل مقتدر حلقو ںکے زیرِ اثر رہا؟
ان سوالات کے جو جواب ہمارے سامنے آئیں گے، وہ ہمیں کسی نتیجۂ فکر تک پہنچائیں گے۔ یہ ہمارے تاریخی شعور کی تجسیم ہو گی۔ دانش کا اصل امتحان یہ ہے کہ وہ ان سوالات کا جواب تلاش کرے۔ عام آدمی سے ہم یہ توقع نہیں کرتے اور نہ کرنی چاہیے۔ اگر اہلِ دانش 'مٹی پاؤ‘ فلسفے کو، 'ہمیں اب آگے کی طرف دیکھنا چاہیے‘ کے عنوان سے پیش کرنا شروع کر دیں تو یہ قومی المیہ ہو گا۔ ہماری اہلِ دانش کا ایک طبقہ ہمیشہ ایسا رہا جس نے ہمارے تاریخی شعور کو جلا بخشی اور زندگی کو ایک اکائی کے طور پر دیکھا‘ جیسے 1960ء کی دہائی میں مولانا مودودی، جسٹس ایم آر کیانی اور فیض صاحب جیسے لوگ تھے۔ مجھے افسوس ہے کہ آج یہ روشنی خال خال دکھائی دیتی ہے۔
ہمیں آگے کی طرف دیکھنا ہے کہ زندگی مسلسل حرکت کا نام ہے۔ یہ قوم کو ہیجان میں مبتلا کرنے کا وقت نہیں۔ جیسے تیسے ادارے موجود ہیں، ہمیں انہی کے پاس جانا اور اپنا مقدمہ پیش کرنا ہے۔ اہلِ سیاست کو اگر احتجاج بھی کرنا ہے تو پارلیمنٹ اور میڈیا کے پاس جائیں۔ عوامی زندگی کو متاثر کیے بغیر قانون کے دائرے میں جلسے بھی کیے جا سکتے ہیں۔ تنازعات کے حل کے لیے ہمیں انہی عدالتوں میں جانا ہے۔ فیصلے سے اختلاف کا حق ہمیں قانون دیتا ہے۔ ہم نظمِ اجتماعی کو فساد کی نذر نہیں ہونے دیں گے۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم 'مٹی پاؤ‘ کے فلسفے کے پرچارک بن جائیں۔
ہمیں حقیقی ترقی کا راستہ اپنانا ہے تو دائرے کے اس سفر سے نکلنا ہو گا۔ اس کا مطلب ان عوامل کو بدلنا ہے جو آج کے سیاسی منظرنامے کے صورت گر ہیں۔ اصل تبدیلی اسی وقت آئے گی۔ میں جانتا ہے کہ آج یہ ایک غیر مقبول آواز ہے۔ میرا تاریخی شعور مگر مطالبہ کرتا ہے کہ مجھے یہ آواز بلند کرنی ہے۔