بابر اعوان تو سرخرو ہو گئے مگر اپنے سابقہ رفقائے کار اور ہم عصر اہلِ سیاست کو مشکل میں ڈال گئے۔
جو جانتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ بابر اعوان شخصی وقار اور عزتِ نفس کے معاملے میں بہت حساس ہیں۔ وہ سیاست اس لیے کرتے ہیں کہ عزت میں اضافہ ہو۔ اس لیے نہیں کہ بازارِ سیاست میں آئے دن پگڑی اچھلتی رہے۔ انہوں نے ایسا وقت آنے نہیں دیا۔ اس سے پہلے کہ ان کی طرف انگلیاں اٹھتیں، انہوں نے وہ دستار ہی اتار پھینکی جو اس انگشت نمائی کا سبب بن سکتی تھی۔ مثال قائم ہو گئی مگر کیا کوئی اور بھی ہے جو بجز قیس بروئے کار آئے؟
بے نظیر بھٹو کے وکلا کی ایک طویل قطار تھی۔ ایک جونیئر وکیل ہونے کے ناتے بابر اعوان سب سے پیچھے کھڑے تھے۔ ذہانت اور محنت مگر وہ خوبیاں ہیں جو عمر کے فرق کو مٹا دیتی ہیں۔ قطار قائم رہی مگر وہ اِس سرے سے اُس سرے پر جا کھڑے ہوئے۔ اب وہ محترمہ کے سب سے قابلِ بھروسہ وکیل بن چکے تھے۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے ساتھ، ان کا باہمی احترام کا ایک رشتہ تھا جو محترمہ کی زندگی کے آخری لمحے تک قائم رہا۔ مرحومہ کے مزاج آشنا جانتے ہیں کہ ان کا ایسا تعلق کم لوگوں کے ساتھ ہوتا تھا۔
آصف زرداری صاحب کا معاملہ تو اور مشکل تھا۔ وہ جو آج بزعمِ خویش بطلِ حریت بنے ہوئے ہیں، ان کی چاکری پر آمادہ رہتے تھے۔ بابر اعوان کا امتیاز یہاں بھی برقرار رہا۔ یہ عزت کے بدلے میں عزت کا سودا تھا۔ جب تک یہ مساوات قائم رہی، تعلق بھی باقی رہا، یہاں تک کہ دراڑ پڑ گئی۔ وہ پیپلز پارٹی سے الگ ہو گئے مگر زرداری صاحب نے ان کے بارے میں کوئی منفی بات نہیں کہی۔
وہ جس موسم میں، تحریکِ انصاف میں شامل ہوئے، بنی گالہ افراد کی بارش میں جل تھل تھا۔ بڑی بڑی پگڑیوں اور شملوں والے قطار اندر قطار دروازے پر کھڑے تھے کہ عمران خان کے دو لمحے میسر آئیں اور وہ اپنے دستِ مبارک سے ان کے گلے میں تحریکِ انصاف کا پٹا ڈال دیں۔ اس سعادت کے لیے لوگ ٹوٹے پڑ رہے تھے۔ بابر اعوان واحد آدمی تھے جنہیں اس موقع پر بھی عزتِ سادات کا خیال تھا۔ عمران خان اُن کے گھر گئے اور انہیں تحریکِ انصاف میں شامل کیا۔ پھر انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم شروع ہوئی تو اس ملک کے عوام نے کیسے کیسے مناظر نہیں دیکھے۔ جیسے بھوکوں کے کسی کیمپ میں روٹی تقسیم ہوتی ہو۔ بابر اعوان اس عمل سے بھی بے نیاز رہے۔
مجھے خوشی ہوئی کہ آج بھی میرے قبیلے کے اِس آدمی نے اپنی روش کو ترک نہیں کیا۔ وزارت چھوڑ دی تا کہ نیب کی تحقیقات کا سامنا کرے اور اپنا مقدمہ قانون کی عدالت میں پیش کرے۔ میرا احساس ہے کہ وہ خود ہی سرخرو نہیں ہوئے، انہوں نے اپنے لیڈر کو بھی شرمندگی سے بچا لیا۔ سوال مگر یہ ہے کہ اب کیا ہو گا؟ اب دوسرے کیا کریں گے؟ سب سے پہلے تو ان کے سابقہ رفقائے کار‘ جو کابینہ میں بیٹھے ہیں۔
میڈیا چیخ رہا ہے کہ ان میں وہ بھی ہیں جنہوں نے کروڑوں کا قرض معاف کرایا۔ وہ بھی جنہوں نے اپنے علاج پر قومی سرمایہ پانی کی طرح بہایا۔ اور وہ بھی جو بلوچستان کے معصوم بچوں کا حق کھا گئے۔ ابھی تو یہ الزام ہیں۔ انہیں ثابت ہونا ہے۔ بابر اعوان پر بھی تو الزام ہی ہے۔ وہ اقتدار سے الگ ہو گئے کہ قانونی عمل پر اثر انداز ہونے کا الزام نہ آئے۔ کیا دوسرے بھی اپنے وقار کے بارے میں اسی حساسیت کا مظاہرہ کریں گے؟
عمران خان نے اپنے لیے ایک مشکل ہدف چنا ہے: بے لاگ احتساب۔ اس کے اپنے مطالبات ہیں۔ کیا وہ اسے پورا کر پائیں گے؟ مجھے اتفاق ہے کہ اس سوال کا جواب آج نہیں مل سکتا اور نہ ہی اس کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ انہوں نے تین ماہ انتظار کرنے کو کہا ہے۔ انتظار کیا جانا چاہیے؛ تاہم یہ سوال تو اٹھایا جا سکتا ہے کہ کیا انہیں اس راہ کی مشکلات کا اندازہ ہے؟
عمران خان کے اقدامات دیکھ کر یہ خیال ہوتا ہے کہ انہیں پارلیمانی نظام کی پیچیدگیوں کا پوری طرح اندازہ نہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وزیر اعظم کسی بادشاہ کی طرح ہوتا ہے جو احکام جاری کرتا ہے اور پھر سب لوگ تعمیل کے لیے سرگرم ہو جاتے ہیں۔ انہیں ابھی اس بات کا بھی پورا ادراک نہیں کہ صوبوں اور مرکز کے مابین اختیارات کی تقسیم کس نوعیت کی ہے۔ وہ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ مشکوک کردار کے حامل جن اہلِ سیاست کو انہوں نے مجبوراً قبول کیا، اب حکومتی مشینری کے ذریعے ان کے پر کاٹ دیں گے۔ یہ عوامی نمائندوں کے بجائے بیوروکریسی پر انحصار ہے۔
شہباز شریف ماڈل بھی یہی تھا۔ انہوں نے بھی پورے صوبے کی انتظامیہ کو اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھا۔ وزیر یا عوامی نمائندے کی حیثیت نمائشی تھی۔ نواز شریف صاحب سے بھی لوگوں کو ایک بڑی شکایت یہ تھی کہ وہ عوامی نمائندوں سے دور ہیں۔ انہیں بعد میں اس کی قیمت چکانا پڑی۔ عمران خان نے حکومت کو سیاسی اثر سے آزاد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن شاید انہیں اندازہ نہیں کہ اس کا مطلب اسے بیوروکریسی کے حوالے کرنا ہے۔ عوامی نمائندے اگر فیصلہ سازی سے دور ہوئے اور عوام کو بیوروکریسی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا تو اس سے عوامی نمائندوں میں بے چینی بڑھے گی۔
یہ دو اسباب سے ہو گا۔ ایک تو یہ کہ عوام بہرحال اپنے کاموں کے لیے منتخب نمائندوں کا رخ کرتے ہیں۔ اگر انہیں ان نمائندوں کی بے بسی کا احساس ہو گا تو وہ ان سے دور ہو جائیں گے۔ دوسرا یہ کہ بیوروکریسی کا مزاج یہ نہیں ہے کہ اس کے دروازے عام آدمی کے لیے کھلے ہوں۔ یوں عوام کو کوئی راستہ نہیں ملے گا۔ اس کے ساتھ اگر عوامی نمائندے احتساب کے نام پر آئے دن عدالتوں اور نیب کا سامنا کریں گے‘ تو وہ عوام کے کام کب آئیں گے؟ یوں یہ نظام تعطل کا شکار ہو جائے گا۔ کوئی منتخب حکومت اس کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
میں جانتا ہوں کہ عمران خان جو کہتے رہے ہیں، اب وہ باتیں ان کے پاؤں کی زنجیر ہیں۔ وہ مزاجاً انقلابی ہیں اور ہمارا حکومتی نظام پارلیمانی جو تقسیمِ اختیارات کی بنیاد پر کھڑا ہے۔ وہ کسی انقلابی سوچ کو قبول نہیں کرتا۔ جواب دہ مگر وزیر اعظم کو ہونا ہے کہ عوام سے وعدے انہوں نے کر رکھے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اگر احتساب پر یہ اصرار اسی طرح آگے بڑھا تو ایک سیاسی بحران پر منتج ہو سکتا ہے۔ احتساب مخالفین کا ہو گا تو سیاسی انتقام کا تاثر ابھرے گا۔ اپنوں کا ہو گا تو ایک داخلی انتشار کو جنم دے گا۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ احتساب نہیں ہونا چاہیے۔ کہنا یہ ہے کہ اس نظام کو سمجھتے ہوئے ترجیحات کو طے کیا جانا چاہیے۔ پارلیمانی نظام کے اپنے مطالبات ہیں‘ جو بادشاہت سے مختلف ہیں۔ اس میں عوامی نمائندوں کو با اختیار بنانا ہو گا۔ عوامی نمائندوں اور بیوروکریسی میں ایک نئے معاہدے کی ضرورت ہو گی۔ عوامی نمائندوں کے احتساب کے لیے نئی قانون سازی ناگزیر ہے۔ مو جودہ نظام سے اگر نواز شریف کو شکایت ہے تو بابر اعوان کو بھی ہے۔
عمران خان کو سوچنا ہو گا کہ ہر کوئی بابر اعوان نہیں ہوتا۔ لوگ سیاست عزت کے لیے نہیں، اختیار اور اقتدار کے لیے کرتے ہیں۔ اُن سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ اقتدار کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں اور کہاں کہاں سجدہ ریز ہونا پڑتا ہے۔ بابر اعوان کی طرح ہر کوئی استعفیٰ نہیں دے گا۔ اگر یہ سلسلہ آگے بڑھا تو مزاحمت ہو گی۔ ان کی حکومت اتنی مضبوط نہیں کہ وہ ان لوگوں کی تائید سے بے نیاز ہو جائیں۔ اس بے نیازی کے لیے انہیں پانچ سال انتظار کرنا ہو گا، وہ بھی اس صورت میں کہ اگلے انتخابات میں انہیں دو تہائی اکثریت مل جائے۔ اس دوران میں ان کی پہلی ترجیح تعمیر ہونی چاہیے نہ کہ مشکوک احتساب۔
بابر اعوان نے اپنے لیے ایک مشکل راستہ چنا ہے۔ میری خواہش ہو گی کہ غرورِ عشق کا یہ بانکپن پن، نیب کی عدالت میں بھی قائم رہے۔