نواز شریف آج ٹیکسلا میں عوامی اجتماع سے خطاب کریں گے۔ مچھلی آخر کتنی دیر پانی سے باہر رہتی؟
سیاست کے سینے میں دل نہ بھی ہو، سیاست دان کے سینے میں تو ہوتا ہے۔ وہ بھی رشتوں کے درمیان جیتا ہے۔ اسے بھی کسی کے قرب سے راحت ملتی ہے۔ اسے بھی کسی کا ہجر دکھ دیتا ہے۔ ایسے بد نصیب کم ہی ہوتے ہیں‘ جو رشتوں سے بے نیاز ہو جائیں‘ جن کے رشتے اُن کے مادی و نفسانی مطالبات سے جڑے ہوں۔ نواز شریف کو ایک ذاتی دکھ نے گھیر لیا۔ کم و بیش پچاس سال کی رفاقت تمام ہوئی تو وہ ٹوٹ گئے۔ کلثوم نواز اگر عام حالات میں رخصت ہوتیں تو بھی انہیں دکھ ہوتا‘ لیکن یہ دکھ حسرت آمیز نہ ہوتا۔ یہ حسرت کہ آخری دنوں میں اہلیہ سے دور رہے۔ وہ پکارتے رہے مگر کلثوم سے جواب نہیں ملا۔ جب کلثوم نے پکارا تو وہ جواب نہ دے سکے۔ ہزاروں میل کی دوری سے وہ کیسے جواب دیتے؟ یہ وہ دکھ ہے جو ہجر سے سوا ہے۔ اس نے ان کی زبان پر تالا لگا دیا۔ عوام سے دور کر دیا۔ یہ دوری مگر کب تک؟ مچھلی کتنی دیر پانی سے باہر رہ سکتی ہے؟
سیاست دان کے ہاتھ میں بندوق نہیں ہوتی۔ وہ طاقت سے عوام کو فتح نہیں کرتا۔ وہ اُن کے دل و دماغ کو مخاطب بناتا ہے۔ عوام کے دلوں کے دروازے کھل جائیں‘ تو وہ ساتھ چل پڑتے ہیں۔ عوامی تائید جب ایک عصبیت میں بدلتی ہے تو سیاست دان لیڈر بن جاتا ہے۔ یہ سفر بآسانی طے ہو جاتا ہے، اگر عصبیت قبیلے یا خاندان کی ہو۔ جیسے بلاول بھٹو۔ تین نسلوں سے عوام اس خاندان سے وابستہ ہیں۔ بلاول کو صرف یہ بتانا پڑا کہ وہ بے نظیر کا بیٹا اور ذوالفقار علی بھٹو کا نواسہ ہے۔ یہ خبر ہی بہت سے دلوں کے دروازے وا کر گئی۔ صلاحیت ظاہر ہے کہ بنیادی شرط ہے۔
قسمت مگر سب پر ایک طرح سے مہربان نہیں ہوتی۔ کچھ وہ بھی ہوتے ہیں جنہیں اپنی عصبیت پیدا کرنا پڑتی ہے۔ محنت سے۔ خدمت سے۔ قربانیوں سے۔ صبر سے۔ نواز شریف نے یہ عصبیت پیدا کی۔ قائد اعظم کے بعد، پہلی بار ان کی قیادت میں مسلم لیگ ایک عوامی جماعت بنی۔ پھر وہ ملک کی سب سے بڑی جماعت بن گئی۔ انتخابی عمل سے شکوک کی چادر ہٹے تو لوگ جان پائیں کہ یہ مقبولیت اقتدار سے رخصت ہونے کے بعد بھی کم نہیں ہوئی۔
اس مقبولیت کے باوجود ان کی مشکلات ہیں کہ کم نہیں ہو رہیں۔ سیاست عوام کی تائید کے علاوہ بھی کچھ مطالبات کرتی ہے۔ کلفتوں کا ایک سیلاب ہے جس نے ان کے گھر کا رخ کر لیا ہے۔ ایک لیڈر کا معاملہ مگر یہ ہے کہ اسے اپنی ذات سے آگے بڑھ کر دیکھنا ہوتا ہے۔ وہ اپنے دکھوں کا اسیر بن کر نہیں رہ سکتا۔ اسے زبانِ حال سے ندا دینا پڑتی ہے: اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔ جو سیاست کو صرف اقتدار کے کھیل کے طور پر دیکھتے ہیں، انہیں بھی اپنی ذات کی قید سے رہا ہونا پڑتا ہے۔ انہیں عوام کے پاس جانا پڑتا ہے۔
نواز شریف صاحب کی خاموشی نے بہت سے سوالات اٹھا دیے تھے۔ ان کے ساتھ مریم بھی خاموش تھیں۔ لوگ یہ مان کر نہیں دیتے کہ یہ ذاتی دکھ ہے‘ جس نے ان کی زبان بندی کر رکھی ہے۔ وہ بین السطور کچھ پڑھنے کی کوشش میں تھے۔ عمران خان صاحب نے بھی یہ کہہ کر شکوک کو ہوا دی کہ 'کوئی این آر او نہیں ہو گا‘۔ بطور جملہ معترضہ عرض ہے کہ اگر این آر او ہوتا تو حکومت سے کہاں ہونا تھا۔ اس تاثر کو کچھ تو شہباز شریف کی گرفتاری نے ختم کر دیا اور کچھ امید ہے کہ آج ختم ہو جائے گا۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ نواز شریف صاحب نے ٹیکسلا ہی کا انتخاب کیوں کیا؟ ضمنی الیکشن ملک کے کئی حلقوں میں ہو رہے ہیں۔ نواز شریف وہاں نہیں گئے، ٹیکسلا کیوں آ رہے ہیں؟ کیا اس کا سبب یہ ہے کہ یہ حلقہ چوہدری نثار صاحب کا ہے؟ اس جلسے کے میزبان 2018ء کے انتخابات میں چوہدری صاحب کے گروپ میں تھے۔ کیا انہوں نے رجوع کر لیا ہے؟ کیا ان کی اس واپسی کو چوہدری صاحب کی تائید حاصل ہے؟
نواز شریف صاحب کے جلو میں یہ سوالات بھی سفر کر رہے ہیں۔ میرے پاس معلومات تو نہیں لیکن اندازہ یہی ہے کہ اس پیش رفت کو چوہدری نثار صاحب کی تائید حاصل ہے۔ مصطفیٰ کمال کی طرح، چوہدری نثار صاحب کا بھی خیال یہ تھا کہ ان کی شکست کا کوئی امکان نہیں۔ اب یہ انہونی ہو گئی۔ وہ انتخابی نتائج پر شاید کبھی کلام کریں‘ لیکن کہا یہی جا رہا ہے کہ وہ اپنی شکست کو عوام کا فیصلہ نہیں سمجھتے۔ ان کے خیال میں اس کا ذمہ دار کوئی اور ہے۔ میرا خیال ہے کہ ان کے ساتھ وہی معاملہ ہوا جو شہباز شریف صاحب کے ساتھ ہوا۔ ان سے مطالبہ ایک واضح حکمتِ عملی کا تھا۔ صرف نواز شریف اور مریم نواز کے بیانیے سے اعلانِ برات کو کافی نہیں سمجھا گیا۔
ممکن ہے بعد کے حالات نے انہیں یکسو کر دیا ہو کہ ن لیگ ہی ان کے لیے سیاسی احیا کا باعث بن سکتی ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ جیسے جیسے تحریکِ انصاف کی مقبولیت میں کمی آئے گی، ویسے ویسے ن لیگ کی مقبولیت بڑھے گی۔ نئی سیاسی قوت کے ابھرنے کا فی الوقت کوئی امکان نہیں۔ بلاول بھٹو کے ساتھ بہت سے امکانات سفر کر رہے ہیں مگر ظاہر ہے کہ پیپلز پارٹی چوہدری نثار صاحب کا کبھی انتخاب نہیں ہو سکتی۔ تحریکِ انصاف میں جانے کا مناسب موقع وہ گنوا چکے۔ ہو سکتا ہے کہ ان سوالات کا جواب آج نواز شریف صاحب کی تقریر میں مل جائے گا۔ اگر وہ اس موضوع پر کچھ نہیں کہتے تو یہ بھی ایک جواب ہو گا۔
آج کا جلسہ یہ بتائے گا کہ کل کی سیاست کیسی ہو گی؟ ن لیگ کے پاس احتجاج کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ اس کے ساتھ وہ یہ بھی چاہتی ہے کہ عمران خان کا رومان اپنے حتمی انجام تک پہنچ جائے۔ حکومت کے اناڑی پن نے اس رومان کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ معیشت کے باب میں اب تک جس طفلانہ پن کا مظاہرہ ہوا، اس نے عوام کو پریشان کر دیا ہے۔ آئی ایم ایف کی طرف رجوع سے کم از کم اتنی بات واضح ہو گئی کہ تحریکِ انصاف کے پاس معیشت کو سنبھالنے کا کوئی متبادل راستہ موجود نہیں ہے۔ اسد عمر اسی پامال راستے پر چلنے پر مجبور ہیں‘ جس پر اسحاق ڈار کے قدموں کے نشان ہیں۔
اس طرح حکومت نے تبدیلی کے اس تاثر کو زائل کر دیا‘ جس کی بنیاد پر وہ اقتدار میں آئی تھی۔ سادہ لفظوں میں عمران خان صاحب بطور حکمران اب نواز شریف صاحب ہی کی پچ پر کھیل رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس پر ان کی کامیابی کے امکانات نواز شریف کی نسبت کم ہوں گے۔ ن لیگ چاہے گی کہ کل عمران خان، کے پاس یہ عذر نہ ہو کہ انہیں کام نہیں کرنے دیا گیا۔ ن لیگ کی حکمتِ عملی ایک طرف یہ ہو گی کہ وہ احتجاج جاری رکھے اور دوسری طرف حکومت بھی چلتی رہے۔
آج نواز شریف کا جلسہ واضح کر دے گا کہ آنے والی سیاست کا رخ کیا ہو گا؟ لوگ حکومت سے مایوس ہو رہے ہیں یا ابھی تک امید کی ڈوری سے بندھے ہیں؟ اس سے یہ بھی اندازہ ہو جائے گا کہ دھاندلی کے بارے میں ن لیگ کے مؤقف میں کتنی صداقت ہے۔ اس سے یہ پیش گوئی بھی ممکن ہو گی کہ اگر ن لیگ سڑکوں پر نکلتی ہے تو اسے عوام کا ساتھ حاصل ہو گا یا نہیں۔
اگر جلسہ کامیاب ہوتا ہے تو یہ حکومت کے لیے پریشانی کا باعث ہو گا۔ مجھے خدشہ ہے کہ ردِ عمل میں حکومت کوئی غیر حکیمانہ اقدام کرے گی۔ عمران خان کے مزاج کو سامنے رکھیں تو وہ سیاسی میدان میں مقابلے کے بجائے، ایک بار نواز شریف اور مریم کو جیل بھیجنا چاہیں گے۔ یہ حکومت کے لیے گھاٹے کا سودا ہو گا۔ جبر حکومتوں کی مدت بڑھاتا نہیں، کم کر دیتا ہے۔
نواز شریف، ایک بار پھر عوام کے درمیان ہیں۔ مچھلی کتنی دیر پانی سے باہر رہ سکتی ہے؟ دیکھیے پانی کب تک بہتا اور مچھلی کب تک تیرتی ہے؟