جب سے یہ حکومت قائم ہوئی ہے، معلوم ہوتا ہے کہ 25 جولائی کو 'بگ بینگ‘ نوعیت کا کوئی حادثہ ہوا‘ جس کے نتیجے میں ایک نئی کائنات وجود میں آئی ہے۔
یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ انسانی تاریخ میں پہلی بار کوئی وزیر اعظم کے منصب تک پہنچا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان کا وزیر اعظم کسی ملک کے دورے پر گیا تو اس کی سڑکوں پر پاکستان کے پرچم لہرائے گئے۔ یہ سطح زمین پر پہلا واقعہ ہے کہ کسی حکومت نے سیرت کانفرنس منعقد کی۔ پہلی دفعہ سرکاری گاڑیاں نیلام ہوئیں۔ پہلی بار وزیر اعظم اور آرمی چیف نے ایک ساتھ امریکی وفد سے ملاقات کی۔ پہلی بار...
ان گنت واقعات ہیں جن کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ تاریخ کے صفحات پر پہلی بار رقم ہو رہے ہیں۔ اس سے پہلے نہ تو حکومتیں بنتی تھیں، نہ کوئی وزیر اعظم ہوا۔ ایک نئی تاریخ لکھی جا رہی ہے۔ اس تکرار سے خیال ہوتا ہے کہ کہیں نظام شمسی بدل تو نہیں گیا؟ پہلے زمین سورج کے گرد گھومتی تھی۔ سائنس دان کھوج لگائیں کہ 25 جولائی کے بعد، کہیں سورج تو زمین کے گرد نہیں گھومنے لگا؟ پہلی بار؟
تحریکِ انصاف کا مرکزی حلقۂ اثر نوجوان ہیں۔ سولہ سترہ سال سے تیس سال کی عمر رکھنے والے۔ نوواردانِ سیاست۔ کچھ بڑی عمر کے بھی ہیں جو سیاست میں اب متحرک ہوئے ہیں۔ انہیں بھی اس دنیا میں نووارد ہی کہنا چاہیے۔ ان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کی تاریخ سے باخبر ہیں نہ ریاست کے نظام سے۔ علمِ سیاسیات کی مبادیات سے واقف ہیں نہ نظام ہائے سیاست سے۔ یہ عمران خان سے ایک رومانوی تعلق رکھتے ہیں۔ بچپن میں انہیں کرکٹ کھیلتے دیکھا اور پھر یہ نقش وقت کے ساتھ گہرا ہوتا گیا۔ یہ ایک انقلابی سوچ ہے جس میں ایک طبقہ نفرت کا محور ہے۔ سادگی کے باعث یہ خیال کرتے ہیں کہ آج بھی کوئی مسیحا آئے گا جو شب و روز بدل دے گا بلکہ یہ کہ وہ مسیحا آ چکا۔
مزید المیہ یہ ہوا کہ پروپیگنڈا کرنے والوں کے ہاتھ میں سوشل میڈیا کا ہتھیار آ گیا، نئی نسل جس کے نشے میں مبتلا ہے۔ اس نشہ میں اسے جو بتایا جائے، اسے سچ مان لیتی ہے۔ 'پہلی بار‘ کا نشہ خوبی سی استعمال کیا جا رہا ہے اور اس نسل کی لا علمی کا فائدہ اٹھا کر اسے باور کرایا جا رہا ہے کہ پاکستان میں یہ سب کچھ پہلی بار ہو رہا ہے۔ سیاست نام ہی لوگوں کی سادگی سے فائدہ اٹھانے کا ہے۔ یہ کاروبار خوب ترقی کر رہا ہے۔
آئیے ذرا جائزہ لیتے ہیں کہ اس 'پہلی بار‘ کی حقیقت کیا ہے۔ مثال کے طور پر یہ کہا گیا کہ اس ربیع الاوّل میں پہلی بار سیرت کانفرنس منعقد کی گئی۔ پاکستانی تاریخ کا سطحی علم رکھنے والا بھی جانتا ہے کہ یہ سلسلہ برسوں سے جاری ہے۔ 43 سال سے قومی سطح پر اس کانفرنس کا انعقاد ہو رہا ہے۔ اس موقع پر سیرت نگاروں کو انعامات دیے جاتے ہیں۔ گزشتہ سال بھی ایسی ہی بین الاقوامی سیرت کانفرنس ہوئی جس میں دوسرے ممالک سے بیس سکالرز اور نمایاں شخصیات مدعو تھیں۔
سیرت کانفرنس کے موقع پر بعض اعلانات ہوئے جن کے بارے میں کہا گیا کہ یہ پہلی بار ہو رہا ہے۔ جیسے جامعات میں سیرت چیئرز کا قیام۔ یہ قدم گزشتہ حکومت نے 2014ء میں اٹھایا تھا‘ اور پشاور یونیورسٹی میں پہلی سیرت چیئر قائم کر دی گئی تھی۔ اس کے لیے ڈاکٹر قبلہ ایاز کا انتخاب ہوا‘ جنہوں نے سیرت کے موضوع پر برطانیہ کی ایک یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کر رکھی ہے۔ ڈاکٹر صاحب اب اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ہیں۔ یہ ذمہ داری سنبھالنے سے پہلے وہ اسی چیئر پر کام کر رہے تھے۔
میں اسلام آباد کی اس تقریب میں شریک تھا جس میں احسن اقبال صاحب نے اس منصوبے کا ذکر کیا۔ انہوں نے بتایا کہ اس کا مقصد سیرت کی روشنی میں ایسی تحقیق ہے جس سے مقصود ریاست کے تمام شعبوں کو سیرتِ پاک کی روشنی سے منور کرنا ہے۔ انہوں نے اس پر افسوس کا اظہار کیا کہ باقی دو نشستوں کے لیے اخبارات میں اشتہار دیا جا چکا‘ لیکن کوئی موزوں آدمی نہیں مل سکا۔ میں نے اسی کالم میں اس بات کا ذکر کیا اور علم کی اس کم یابی کا نوحہ لکھا۔
پھر یہ بھی کہا گیا کہ توہینِ مذہب کے خلاف پہلی بار عالمی سطح پر آواز اٹھائی گئی‘ اور قانون سازی کی بات ہوئی۔ امرِ واقعہ یہ ہے کہ اس کے لیے بھی پہلے اقدام کیا جا چکا۔ سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کے فیصلے میں یہ لکھا ہے کہ پاکستان نے اس کے لیے 2009ء میں عالمی سطح پر یہ مسئلہ اٹھایا۔ اس وقت ملک میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ سیرت کانفرنس کا آغاز بھی پیپلز پارٹی کے پہلے دورِ اقتدار میں ہوا جس کی شہرت ایک سیکولر جماعت کی ہے۔
ان نوواردانِ سیاست کو یہ بھی بتایا گیا کہ سعودی عرب کے دورے میں عمران خان کو ایک قیمتی گھڑی تحفے میں ملی جو انہوں نے قومی خزانے میں جمع کرا دی اور یہ واقعہ پاکستانی تاریخ میں پہلی بار ہوا۔ اب اس کی حقیقت بھی سن لیں۔ نواز شریف صاحب کے دور میں یہ قانون بن چکا کہ کسی سرکاری اہل کار کو غیر ملکی دوروں میں جو تحائف ملیں گے، وہ قومی خزانے میں جمع کرا دیے جائیں گے۔ اس میں کوئی بات انہونی نہیں۔ یہ پابندی غیر سرکاری لوگوں کے لیے نہیں ہے۔ انہیں بھی یہ تحائف سرکاری خزانے میں جمع کرانا ہوتے ہیں؛ تاہم انہیں یہ رعایت حاصل ہے کہ وہ تحفے کی مارکیٹ قیمت کا بیس فی صد قومی خزانے میں جمع کرا کر، اسے حاصل کر سکتے ہیں۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف صاحب جب یمن کے معاملے میں ثالثی کے لیے سعودی عرب گئے تو ان کو، وفد کے سرکاری ارکان کے ساتھ تحفے دیے گئے۔ نواز شریف صاحب، جنرل راحیل شریف صاحب اور فواد حسن صاحب سمیت، سب نے اپنے تحفے قومی خزانے میں جمع کرا دیے۔
جو کوئی پاکستان کی تاریخ، سفارت کاری کے آداب، ریاست کے نظام اور ملک کے قانون سے سرسری واقفیت رکھتا ہے تو وہ جانتا ہے کہ ان واقعات میں کوئی واقعہ پہلی بار نہیں ہو رہا‘ جنہیں اس لیبل کے ساتھ بیچا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر جب دوسرے ملک کا وزیر اعظم یا صدر دورے پر آتا ہے تو دارالحکومت کی شاہراہوں پر دونوں ملکوں کے جھنڈے لہرائے جاتے ہیں۔ اسلام آباد راولپنڈی کے مکینوں کے لیے یہ کوئی اجنبی بات نہیں۔ کئی بار تو ان جھنڈوں سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی مہمان آیا ہوا ہے۔ اگر یہ مہمان کسی دوسرے شہر جائے تو وہاں بھی ایسے جھنڈے لہرائے جاتے ہیں۔ عمران خان صاحب ملائیشیا گئے تو یہی ہوا لیکن ہمیں بتایا گیا کہ پہلی بار کسی پاکستانی وزیر اعظم کے لیے یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔
افسوس کہ سیاست عوام کی سادگی اور سادہ لوحی سے فائدہ اٹھانے کا نام رہ گئی ہے۔ 'پوسٹ ٹروتھ‘ اور 'پاپولزم‘ کے دور میں یہی کچھ ہو سکتا ہے۔ حقائق کی تلاش اب بہت مشکل ہو گئی ہے۔ پاپولزم کا ایک اہم مظہر ہیجان بھی ہے۔ اس کا پہلا حملہ عقل و فراست پر ہوتا ہے۔ لوگوں کے حواس کو قابو میں لے کر ان کی آنکھوں میں اپنی مرضی کے منظر گھسائے جاتے ہیں اور ان کے کانوں میں من پسند آوازیں انڈیلی جاتی ہیں۔ دوسرا حملہ آزادیٔ رائے پر ہوتا ہے۔ اس کے دروازے ممکن حد تک بند کر دیے جاتے ہیں‘ اور اگر پھر بھی کسی روزن سے کوئی بات کرنے کی کوشش کرے تو اسے دوسروں کا زر خرید قرار دے دیا جاتا ہے۔ 'پوسٹ ٹروتھ‘ کے دور میں کوئی تحقیق کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ انقلابی تحریکوں میں ایسے لوگ عوام دشمن اور بورژوائی طبقے کے ایجنٹ قرار دے کر عوامی غصے کا ہدف بنا دیے جاتے ہیں۔
حکومت اس کا 'کریڈٹ‘ نہیں لے گی لیکن یہ کام بھی 'پہلی بار‘ نہیں ہو رہا۔ یہ ہٹلر اور سٹالن کے دور سے ہوتا آیا ہے اور نہ جانے کب تک ہوتا رہے گا۔ جب تک سماجی شعور بلند نہیں ہو گا، ہر طرزِ کہن پر 'پہلی بار‘ کا لیبل لگا کر بیچا جاتا رہے گا۔