حیرت سعد رفیق کی گرفتاری پر نہیں کہ معاملہ عدالت میں تھا اور قانون کے تابع تھا، حیرت ہے تو اس پر کہ مریم اورنگزیب کے اثاثوں کی چھان بین میں اتنی تاخیر کیوں ہوئی؟
اس کا رونا نہیں کیوں تم نے کیا دل برباد
اس کا غم ہے کہ بہت دیر میں برباد کیا
مریم اورنگزیب نے اپنی خاندانی روایت کو زندہ رکھا۔ مشکل وقت میں شریف خاندان کا ساتھ دیا۔ مجھے2000ء کا سال یاد ہے جب راولپنڈی کے ہر گھر کا دروازہ کلثوم نواز صاحبہ کے لیے بند ہو چکا تھا۔ جب لال پیلی حویلیوں کی روشنیاں سرِ شام گل ہو جاتی تھیں اور بیگم نواز سے معذرت کی جاتی تھی کہ اس طرف کا رخ نہ کیا جائے۔ تب ایک در ایسا تھا جو ان کے لیے صبح شام کھلا تھا۔ یہ نجمہ حمید اور طاہرہ اورنگزیب کا دروازہ تھا۔ ایک مریم اورنگزیب کی خالہ ہیں اور دوسری والدہ۔
مشکلات کے دورِ ثانی میں مریم اورنگزیب نے اس روایت کی پاس داری کی۔ وہ مریم نواز اور ن لیگ کے ساتھ کھڑی ہو گئیں۔ اِس وقت ساتھ دینے کا مطلب سب کو معلوم ہے۔ جس درخت کو لوگ کاٹنے کے درپے ہوں، اس پر آشیانہ کون بناتا ہے؟ آری چلتی ہے تو پرندے اڑنے لگتے ہیں۔ مریم نے مگر درخت چھوڑنے سے انکار کیا۔ یہ معمولی جسارت نہیں تھی۔ مجھے حیرت تھی کہ یہ سب کچھ کیسے برداشت کیا جا رہا ہے۔ آج یہ حیرت دور ہو گئی۔ ایک بے نام کی درخواست پر ان کے خلاف کارروائی کا آغاز ہو گیا۔ الزام وہی ہے:کرپشن۔ کہاں کی، کب کی، یہ سب سوال بے معنی ہیں۔
سعد رفیق پرانے سیاسی کارکن ہیں۔ ان کو اندازہ ہے اپوزیشن کی سیاست میں جیل ناگزیر پڑاؤ ہے۔ عدالت میں تو انہیں اپنا مقدمہ لڑنا ہے، اس کا معاملہ الگ ہے۔ جہاں تک سیاست کا تعلق ہے تو دورِ حاضر میں ان کے سیاسی مخالفین نے جو لغت ترتیب دی ہے، اس کے مطابق ان کا شمار بد عنوان لوگوں میں ہوتا ہے۔ سیاست میں کرپٹ ہونے کی نشانی یہ ہے کہ آپ نواز شریف صاحب کے ساتھ کھڑے ہیں۔ بالکل ایسے ہی، جیسے صاف دامن ہونے کی نشانی، تحریکِ انصاف میں ہونا ہے۔
کرپشن دورِ حاضر کا غالب بیانیہ ہے۔ یہ شرک سے بڑا گناہ اور فساد سے بڑا جرم ہے۔ اس میں الزام کا مطلب ہی جرم ہے۔ اس میدان میں ملزم نہیں، صرف مجرم ہوتے ہیں۔ یہاں مجرم پہلے قرار دیا جاتا ہے، ثبوت بعد میں تلاش کیے جاتے ہیں۔ شفیق الرحمن کے الفاظ میں یہ نادر شاہ کے دور میں ہوتا تھا۔ اس نے ہندوستان پر حملے کا فیصلہ کر لیا۔ اس کے بعد مشیروں کو حکم دیا کہ اس حملے کے سترہ اسباب تلاش کیے جائیں۔ مریم اورنگزیب پر الزام لگ گیا۔ اگلے مرحلے میں 'ثبوت‘ اکٹھے کیے جائیں گے۔
کرپشن کا بیانیہ اتنا طاقت ور ہو چکا کہ اب اس کی روشنی میں تاریخ کی تعبیر ہو رہی ہے۔ دو دن پہلے ریاست کی سب سے معتبر شخصیت جناب صدر مملکت نے یہ انکشاف کر کے حیران کر دیا کہ مشرقی پاکستان بھی کرپشن کی وجہ سے الگ ہوا تھا۔ آپ 'کرپشن سے پاک پاکستان کانفرنس‘ سے خطاب فرما رہے تھے، جس میں چیئرمین نیب نے بھی شرکت فرمائی۔
پاکستانی تاریخ کے اس دانیٰ طالب علم کے لیے یہ ایک غیر معمولی انکشاف ہے۔ سقوطِ ڈھاکہ پر حمودالرحمن کمیشن بن چکا۔ بیسیوںکتابیں لکھی جا چکیں۔ لکھاریوں میں پاکستانی شامل ہیں اور غیر پاکستانی بھی۔ سابق فوجی بھی ہیں اور سویلین بھی۔ علمائے تاریخ بھی ہیں اور اہلِ سیاست بھی۔ سب اس پر متفق ہیں کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا مرکزی کردار جنرل یحییٰ خان تھے۔ اس المیے کا آخری باب انہوں نے لکھا۔ اس بارے میں تو اختلاف ہوا کہ کون ان کے ساتھ شریک تھا لیکن دو باتیں ایسی ہیں جن میں کوئی اختلاف نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس داستان کا پہلا باب جنرل ایوب خان نے لکھا۔
اس باب میں بھی کوئی اختلاف نہیں کہ جنرل یحییٰ خان کس کردار کے مالک تھے۔ حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ میں اتنے واقعات درج ہیں کہ پڑھ کر حیرت ہوتی ہے۔ حیرت اس بات پر کہ اکیلا آدمی یہ سب کیسے کر گزرا۔ سیاست کی مگر جو لغت ان سالوں میں لکھی گئی، اس میں جنرل صاحب سے منسوب افعال واقعاتِ کرپشن میں شمار نہیں ہوتے۔ 'یہ ان کا ذاتی فعل تھا‘۔ حکمران جماعت جسے کرپشن سمجھتی ہے، یحییٰ خان صاحب تو اس میں ملوث نہیں تھے۔
یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ کرپشن بعد از بھٹو (Post Bhutto) دور کی دَین ہے۔ ایبڈو (EBDO) جیسے قوانین تو پہلے ہی بن گئے تھے، جنہیں اہلِ سیاست کے خلاف استعمال کیا گیا۔ لیکن مالی بد عنوانی، یہ کہا جاتا ہے کہ ضیاالحق صاحب کے عہد میں سیاسی کلچر کا حصہ بنی۔ اس سے پہلے اگر تھی بھی تو بہت محدود اور انفرادی جو سیاسی واقعات پر اثر انداز ہونے کی طاقت نہیں رکھتی تھی۔ اگر یہ مقدمہ درست ہے تو پھر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی ذمہ دار کرپشن کیسے ہو گئی؟
ہمارا معاملہ یہ ہے کہ جس بات کو ہمارے بیانیے میں مرکزیت حاصل ہو جائے، ہم اسے ہر خرابی کا سبب سمجھتے ہیں۔ اہلِ مذہب سے پوچھیں تو وہ بتائیں گے کہ ہمارا اصل مسئلہ مذہب سے دوری ہے۔ اہلِ سیاست سے بات کریں تو وہ کہیں گے کہ بنیادی مسئلہ جمہوریت کا نہ ہونا ہے۔ غیر جمہوری قوتوں سے سوال کریں گے تو وہ سیاست دانوں کو زبوں حالی کی بنیادی وجہ بتائیں گے۔ آج کل ہر مسئلے کا سبب کرپشن ہے۔ حتیٰ کہ تاریخی المیے بھی اب اسی کے کھاتے میں ڈالے جا رہے ہیں۔
اس میں شبہ نہیں کہ کوئی مسئلہ ایسا بھی ہوتا ہے جو ام المسائل ہو۔ ہمارے ہاں جو حلقے کرپشن کو بنیادی مسئلہ سمجھتے ہیں، ان کا معاملہ بھی یہ ہے کہ انہوں نے اس کا ایک خاص تصور اپنے سیاسی ٹکسال میں ڈھالا ہے اور اسے سکہ رائج الوقت بنا دیا ہے۔ اس کے مطابق کرپشن کی تعریف یہ ہے: ''مالی بدعنوانی کا وہ الزام جو شریف خاندان یا ان کے ساتھیوں پر لگا دیا جائے۔‘‘
اس تعریف سے چند باتیں واضح ہیں۔ کرپشن کا مرتکب قرار دینے کے لیے محض الزام کافی ہے۔ یہ الزام لازماً شریف خاندان اور ان کے حواریوں یا ان کے لیے کلمہ خیر کہنے والوں پر ہو۔ کرپشن کی دیگر تمام صورتیں اس تعریف کے مطابق، کرپشن شمار نہیں ہوں گی۔ اس تعریف کے مطابق، اب تاریخ کے علما کو یہ کھوج بھی لگانا ہو گا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں شریف خاندان کا کردار کیا تھا؟
جب یہی سکہ رائج الوقت ہے تو پھر مریم اورنگزیب کا نام بھی اسی فہرست میں ہونا چاہیے۔ پھر خواجہ آصف، احسن اقبال اور شاہد خاقان عباسی کا اصل ٹھکانہ جیل ہے۔
مکرر عرض ہے کہ ملک اس طرح نہیں چلتے۔ حکمتِ عملی خلا میں نہیں بنتی۔ اگر عمران خان انتخابات میں کامیابی کی حکمتِ عملی زمینی حقائق کی روشنی میں بناتے ہیں‘ تو گورننس کے لیے بھی انہیں زمینی حقائق ہی کو پیشِ نظر رکھنا ہو گا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ انتخابات حقائق کی مدد سے جیتے جائیں اور حکومتی امور کو (خود ساختہ) مثالیت پسندی کے تحت چلایا جائے۔
صدر ٹرمپ کے ایک خط کے بعد کہا جا رہا تھا کہ امریکہ نے گھٹنے ٹیک دیے۔ مذہبی آزادی کے بارے میں اس کی رپورٹ لیکن کچھ اور کہہ رہی ہے۔ لازم ہے کہ اس کے اثرات معیشت کو بھی اپنی گرفت میں لے لیں۔ افغانستان کی صورتِ حال بھی ہمارے سامنے ہے۔ ایسے حالات میں قوم کو ایسے مدبر کی ضرورت ہوتی ہے جو قوم میں وحدتِ فکر و عمل پیدا کرے۔ جو انتقام کی نفسیات میں نہ جیتا ہو۔ جس کا دل بڑا ہو اور ذہن بھی۔ جو دس بیس برس بعد تک دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
افسوس کہ فیصلہ سازی کے کسی مرکز میں اس کا کوئی ادراک نہیں۔ ہیجان ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ مخالفین کو دیوار سے لگانے کی خواہش بے لگام ہو چکی۔ 2014ء سے ڈھلوان کا جو سفر شروع ہوا، رکنے میں نہیں آ رہا۔ خدا خیر کرے!