"KNC" (space) message & send to 7575

ہمارے الطاف صاحب

''الطافِ صحافت‘‘ پانچ سو چونتیس صفحے کی کتاب ہے۔ اتنی ضخیم کتاب کوئی آخر کیوں پڑھے؟
ڈاکٹر طاہر مسعود نے جب یہ کتاب میرے ہاتھ میں دی تو پہلا سوال یہی تھا جو میرے ذہن میں پیدا ہوا۔ حسبِ عادت سب سے پہلے ورق گردانی کی کہ نئی کتاب کے ساتھ تعارف کا پہلا مرحلہ یہی ہے۔ ایک ہفتہ اس کی صحبت میں گزارنے کے بعد، میں نہال ہو گیا۔ آج میں پورے اعتماد کے ساتھ، کم از کم دو ایسے اسباب بتا سکتا ہے، جن میں سے ایک سبب بھی موجود ہو تو کتاب خوانی کا جواز پیدا ہو جاتا ہے۔
پہلا سبب یہ ہے کہ کتاب اردو صحافت کی نابغہ روزگار شخصیت جناب الطاف حسن قریشی صاحب کے بارے میں ہے۔ وہی الطاف صاحب جنہوں نے ''اردو دائجسٹ‘‘ کے اجرا سے ایک تاریخ رقم کر ڈالی۔ ہر وہ آدمی جسے پاکستان کی صحافت اور تاریخ سے رتی برابر دلچسپی ہے، ضرور جاننا چاہے گا کہ یہ تاریخ ساز شخصیت کون ہے جس نے پاکستان کی صحافت کا دھارا بدل دیا۔
دوسرا سبب یہ ہے کہ یہ سیاست، ادب اور صحافت کی ایسی شخصیات کی تحریروں پر مشتمل ہے، جن کے مضامین، شاید ہی کسی ایک مجموعے میں اس طرح جمع کیے گئے ہوں۔ کیا آپ کی نظر سے کوئی ایسی کتاب گزری جس میں مشتاق احمد یوسفی اور کرنل محمد خان جیسے مزاح نگاروں، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی اور ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی جیسے دانش وروں، مجیب الرحمن شامی، ہارون الرشید اور وسعت اللہ خان جیسے کالم نگاروں، اظہارالحق اور احمد جاوید جیسے شاعروں کی تحریریں جمع کر دی گئی ہوں؟ سید ضمیر جعفری، عطاالحق قاسمی، مشکور حسین یاد، الطاف فاطمہ، فاروق عادل... سچ یہ ہے کہ سب لوگ‘ جن کے مضامین اس کتاب میں شامل ہیں، اتنے اہم ہیں کہ ان کی کشش کسی کو بھی کتاب پڑھنے پر آمادہ کر سکتی ہے۔ کاش کالم میں اتنی وسعت ہوتی کہ میں سب کے نام لکھ سکتا۔ بس ایک سجاد میر صاحب کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ 
دنیا بھر میں کامیاب لوگوں کی زندگی پر لکھی جانے والی کتابیں بہت شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ یہ بیسٹ سیلرز میں شمار ہوتی ہیں۔ یہ خود نوشت ہوں یا کسی دوسرے کی لکھی ہوئی ہوں، لوگوں کو یہ جاننے میں دلچسپی ہوتی ہے کہ عام آدمی زندگی میں خاص کیسے بنتا ہے۔ کیا خاص بننے کے بعد بھی کوئی عام رہ سکتا ہے؟ کیا میں بھی خاص آدمی بن سکتا ہوں؟ ہر آدمی ان سوالات کے جواب چاہتا ہے۔ یہ جواب ایسی کتابوں ہی سے مل سکتے ہیں۔
اردو صحافت میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جو الطاف صاحب کی طرح رجحان ساز ہو۔ ''اردو ڈائجسٹ‘‘ نے صحافت کے باب میں رائج فرسودہ تصورات کو بدل ڈالا۔ پڑھنے والوں کو ایک نئے ذائقے سے روشناس کرایا۔ اس میں شائستگی تھی اور دلیل بھی۔ نظریہ تھا اور آدرش بھی۔ اس بات کا اعتراف ہر اس آدمی کو ہے جو اردو صحافت کی تاریخ پر نظر رکھتا ہے۔ سرور سکھیرا مخالف نظریاتی محاذ پر سرگرم تھے، اس مجموعے میں شامل ان کا مضمون یہ سمجھنے مدد دیتا ہے کہ کس طرح نظریاتی مخالفین بھی الطاف صاحب کی عظمت کے معترف ہیں۔
اسی حوالے سے وسعت اللہ خان کا مضمون ''میرا مدیر مسئول‘‘ بھی بہت مزے کا ہے۔ وسعت اللہ خان کو کم از کم لمحہ موجود میں الطاف صاحب کے نظریات سے کوئی رغبت نہیں‘ لیکن وہ ان کے شکر گزار ہیں کہ ان کی صحافیانہ تربیت میں 'اردو ڈائجسٹ‘ کا حصہ ہے۔ ایک آدمی کی پیشہ ورانہ عظمت یہی ہے کہ لوگ اس کے نظریات سے اختلاف کے باوجود، اس کے بڑے پن کے معترف ہوں۔ 
الطاف حسن قریشی صاحب پاکستان کی تاریخ کے اہم واقعات کے عینی گواہ ہیں۔ پاکستان کی کہانی ان کی آپ بیتی ہے۔ وہ پاکستان کی خوشی اور غم کے شریک ہیں۔ ملک کے دکھ ان کی ذات پر بیتے ہیں۔ پاکستان کی خوشی کو بھی انہوں نے محسوس کیا ہے۔ 'الطافِ صحافت‘ میں ان کا ایک طویل مضمون ہے جو پاکستان کی تاریخ کے باب میں ان کی چشم دید گواہی ہے۔ انہوں نے جو کچھ دیکھا، وہ ان تصورات سے مختلف ہے‘ جو دوسرے لوگ بیان کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر عام رائے یہ ہے کہ فاروق لغاری صاحب نے بے نظیر بھٹو صاحبہ سے بے وفائی کی۔ الطاف صاحب کا خیال ہے کہ یہ بی بی تھیں جو انہیں اپنے لیے خطرہ سمجھتی تھیں۔ بھٹو صاحب کے حوالے سے بھی انہوں نے اہم واقعات کا انکشاف کیا ہے۔ 
اس مضمون سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ بعض شخصیات کے بارے میں پھیلا تاثر کتنا غیر حقیقی ہوتا ہے۔ جیسے غلام اسحاق خان صاحب ہیں۔ الطاف صاحب نے اس دور کا تذکرہ کیا ہے جب اسحاق خان نواز شریف صاحب کے مخالف ہو چکے تھے۔ اس معرکے میں ولی خان نواز شریف کی حمایت کر رہے تھے۔ غلام اسحاق مرحوم نے ولی خان سے کہا: تم پختون ہو کر ایک پنجابی کا ساتھ دے رہے ہو؟۔ یہ بات ولی خان نے خود الطاف صاحب کو بتائی۔ معلوم ہوا کہ مالی طور پر کرپٹ نہ ہونے کے باجود، انسان کیسے کیسے تعصبات میں گرفتار ہو جاتا ہے۔
الطاف صاحب کی عظمت صرف یہ نہیں کہ انہوں نے اردو صحافت کو نیا لہجہ اور اسلوب دیا۔ ان کی عظمت اس میں ہے کہ وہ ایک صاحبِ عزیمت آدمی ہیں۔ ہر دور میں اربابِ اقتدار کے غضب کا شکار رہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ضیاالحق صاحب کے قریب تھے۔ بطور واقعہ یہ درست ہے لیکن انہوں نے لکھا کہ کیسے انہوں نے ضیاالحق کے ان اقدامات کی مخالفت کی جو ان کی نظر میں غلط تھے اور اس پاداش میں انہیں ضیا دور میں بھی جیل جانا پڑا۔ جیسے انہوں نے مجلس شوریٰ کی تشکیل یا غیر جماعتی سیاسی نظام جیسے اقدامات کی مخالفت کی تھی۔
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ الطاف صاحب ایک قادرالکلام شاعر بھی ہیں۔ اس مجموعے میں ان کی غزلیں بھی شامل کی گئی ہیں۔ ان کی شاعری پر احمد جاوید صاحب کا ایک کمال کا مضمون بھی اس مجموعے کا حصہ ہے۔ جاوید صاحب نے الطاف صاحب کی شاعری کو ان کی نثر کی جمالیاتی توسیع قرار دیا ہے۔ قریشی صاحب کی نظم و نثر پر شاید ہی اس سے بہتر تبصرہ کیا جا سکے۔
''الطافِ صحافت‘‘ میں شامل تحریریں، مضمون کی یکسانیت کے باوجود، لکھنے والوں کے اسلوب کی نمائندگی کرتی ہیں اور یوں ہر تحریر کی اپنی منفرد حیثیت ہے۔ یوسفی صاحب کا مضمون ان کے رنگ سے خالی نہیں ہے۔ یہ خاصے کی چیز ہے۔ شامی صاحب جب دل سے لکھتے ہیں تو ان کے جملوں کی سجاوٹ اور آرائش ایک دیدہ زیب منظر پیش کرتی ہے۔ قاری پڑھتا ہی نہیں، دیکھتا بھی ہے۔ الطاف صاحب پر انہوں نے دل سے لکھا ہے۔ ہارون الرشید صاحب کا مضمون ان کے اسلوب کی تمام رعنائی لیے ہوئے ہے۔ روف طاہر صاحب اور عامر خاکوانی صاحب نے بڑی محبت کے ساتھ ان دنوں کا تذکرہ کیا جو ایک بڑے ایڈیٹر کی صحبت میں گزرے۔
یہ مجموعہ اگر اپنے مطالعے کے لیے ایک نہیں، از کم دو جواز رکھتا ہے تو اس کی وجہ ڈاکٹر طاہر مسعود کا حسنِ ذوق ہے۔ انہوں نے جس خوب صورتی کے ساتھ یہ مجموعہ مرتب کیا ہے، میں اس کا پہلے سے معترف ہوں۔ انہوں نے اس سے پہلے جب ادبی شخصیات کے انٹرویوز پر مبنی ایک مجموعہ ''یہ صورت گر کچھ خوابوں کے‘‘ ، شائع کیا تو ایک دنیا کو حیران کر دیا تھا۔ الطاف حسن قریشی صاحب کے علاوہ اگر مجھے کسی کی انٹرویو نگار نے متاثر کیا‘تو وہ طاہر مسعود ہیں۔ اس مجموعے میں بھی انہوں نے اپنی فنی مہارت کا خوب استعمال کیا ہے۔ آخر صحافت کے استاد ہیں۔
طاہر مسعود صاحب نے اس مجموعے کو جس طرح الطاف صاحب کی نظم و نثر کا نمائندہ بنایا ہے اور پھر جس طرح کی تحریریں جمع کی ہیں، اس نے اسے ایک باقی رہنے والی کتاب بنا دیا ہے۔ الطاف حسن قریشی کی بڑی شخصیت کے لیے ضروری تھا کہ ان پر لکھے گئے مضامین کو طاہر مسعود کی سطح کا کوئی آدمی ہی مرتب کرتا۔ میرا احساس ہے کہ اردو صحافت کا کوئی طالب علم اس کتاب سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں